ریڈ لائین سے کھڈے لائین تک!

95

اگر پاکستان کی صرف گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں سیاسی صورتحال کس قدر غیر یقینی ہے اور اس کی رفتار کس قدر تیز ہے۔عوام کے ووٹ کی بات تو کی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ووٹ کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں، کچھ سیاسی پارٹیاں تو ووٹ لے کر اور سیٹیں حاصل کر کے بھی حکومت بنانے کے حق سے محروم رہتی ہیں اور کچھ غیبی مدد کے باوجود مطلوبہ نمبر پورا نہ ہوتے ہوئے بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں کس طرح ایک مقبول جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز)کی کاٹ چھانٹ کر کے مسلم لیگ (ق) کی تشکیل کی گئی اورپھر اسے برسراقتدار لایا گیا۔ اسی دور میں تمام تر جادوگری کے باوجود جب حکومت سازی کے لیے ارکان اسمبلی کی تعداد پوری نہ ہو سکی تو پاکستان پیپلزپارٹی کی صفوں میں دراڑ ڈال کر پاکستان پیپلزپارٹی پیٹریاٹ تشکیل دی گئی اور حکومت سازی کے تقاضے پورے کیے گئے۔
پھر پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو برسر اقتدار لانے اور پھر اس حکومت کو چلانے کے لیے جو جو پاپڑ بیلے گئے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کے بعد پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد جس طرح آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر حمزہ شہباز کی کی حکومت ختم کی گئی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
ہماری سیاسی قیادت کا مسلہ یہ ہے کہ جب تک تو انہیں فائدے پہنچ رہے ہوں اس وقت تک تو انہیں نہ کوئی اصول نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی قانون دکھائی دیتا ہے، لیکن جون ہی معاملات دوسری طرف جانے لگیں ان کی چیخیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔
عمران خان بھی جب تک اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے تب تک تو انہیں نہ یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جنرل باجوہ ہی حکومت کے اہم فیصلے کر رہے ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی محسوس کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سیاسی معاملات چلانا کس قدر غلط ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اپنا اقتدار برقرا رکھنے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں حتیٰ کہ عام لوگ جو ان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے تھے پر بدترین ریاستی تشدد کو درست خیال کیا اور کسی قسم کی بھی سیاسی مخالفت کو ریاستی قوت کے ذریعے کچلنے کی بھر پور انداز میں کوشش کی۔
شاباش دینی پڑے گی پاکستان مسلم لیگ (نواز)، پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنان کو اور سول سوسائٹی کے دیگر ارکان(صحافی وغیرہ)کو کہ وہ تمام تر ریاستی جبر کے باوجود ثابت قدم رہے اور اس دور میں سیاسی پارٹیوں میں کوئی خاطر خواہ توڑ پھوڑ نہیں ہوئی اور پابندیوں کے باوجود صحافی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔
یہ بات ماننا پڑے گی کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سوچ ہمیشہ یہی رہی ہے کہ یا تو انہیں اقتدار مل جائے ورنہ وہ سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیں گے۔ ماضی میں اسلام آباد میں انہوں نے 126 دن کا دھرنا دیا جس کے پیچھے اقتدار مین حصہ داری کے علاوہ کوئی خاص مقصد نظر نہیں آتا تھا۔ پھر ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعدانہوں نے ملک میں افرا تفری اور انتشار پھیلانے کی بھرپور کوشش کی لیکن کامیاب نا ہو سکے۔ اس دوران ان پر کرپشن، بے ایمانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگے اور مقدمات بھی درج ہو گئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح ان کی حکومت کے دوران صبر اور استقلال سے اس وقت کی اپوزیشن (بشمول ان کی ٹاپ قیادت) نے مقدمات کا سامنا کیا اور جیلوں کی سختیاں برداشت کیں، یہ بھی کچھ حوصلہ دکھاتے لیکن ہوا یہ کہ خان صاحب خود تو گرفتاری سے بچنے کے لیے ہر قسم کا حربہ آزماتے رہے حتی کہ اپنے گھر کے باہر خواتین کارکنان کو اپنے تحفظ کے لیے تعینات کر دیا لیکن ان کے پارٹی کے جو لوگ کسی بھی طور گرفتار ہوئے وہ دو دن بھی جیل کی سختی برداشت نہ کر سکے تو ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گئے۔ ان حالات میں جب خان صاحب کو یقین ہو گیا کہ انہیں ہر صورت میں گرفتار کر لیا جائے گا تو انہوں نے کچھ ایسی ہی پلاننگ کی جس قسم کی انہوں نے حکومت سے چھٹی ہو جانے کے یقین کے بعد ریاست پاکستان کے ساتھ کی تھی، یعنی اس کی معیشت کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھا کر چلے گئے تھے۔
مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اپنی گرفتاری کے یقین کے بعد عمران خان نے ٹھیک اسی قسم کے احتجاج اور انتشار کا منصوبہ بنایا تھا کہ جس کا مظاہرہ ہم نے نو اور دس مئی کو پاکستان کی سڑکوں، گلی بازاروں اور سرکاری عمارات اور تنصیبات کے گرد دیکھا۔
اسے قسمت کہیں یا پھر اچھے مشیران کی سرپرستی سے محرومی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد سے لے کر اب تک خان صاحب نے جو بھی سیاسی فیصلے کیے ہیں یا اعلانات کیے ہیں ان کا نتیجہ الٹ ہی نکلا ہے۔ اس سلسلہ کہ سب سے بڑی مثال نو اور دس مئی کو ہونے والے احتجاج کے سلسلہ میں ان کی منصوبہ بندی تھی۔
شاید عمران خان صاحب کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ جس جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور ہلڑ بازی کی وہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جب ریاست کا اس پر ردعمل آئے گاان کے پلے کچھ بھی نہیں بچے گا۔ اب یہ عالم ہے کہ اقتدار میں آنے کا خواب تو چکنا چور ہو ہی گیا ہے لیکن جس سیاسی قوت اور عوامی سپورٹ کا انہیں مان تھا وہ سب بھی بخارات بن کر اڑ گیا ہے۔ وہ تحریک انصاف جس کی سیاسی قوت ان کا غرور تھا آج پرزے پرزے ہو کر مختلف سیاسی پارٹیوں کی جھولی میں جا گری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عدالت میں ان کو کوئی ضمانتی تک نہیں مل رہا اور انہیں اس کام کے لیے اپنے گھر کے سوئپر کو لے جانا پڑ رہا ہے۔
واہ رے پاکستان کی سیاست تو نے ہمیں دکھایا کہ کس طرح اپنے آپ کو ریڈ لائین ڈکلیر کرنے والے اتنی جلدی کھڈے لائین لگ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.