کبھی عمران خان چھکا مار جاتا ہے اور تحریک انصاف والے باجے بجانا شروع کر دیتے ہیں تو کبھی حکمران گول کردیتے ہیں تو ان کی طرف مٹھائیاں بٹنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس سارے تماشے میں کوئی سنجیدگی سے دیکھنا ہی نہیں چاہتا کہ پاکستان مسلسل ہار رہا ہے۔ پہلے معاشی دیوالیہ ہوا تو اب اخلاقی سطح پر ڈیفالٹ ہوچکا ہے۔ کوئی چاہے اب کسی کو الزام دے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں آئین اور قانون کا بھی دیوالیہ نکل چکا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم صدیوں پرانے کسی عہد میں رہ رہے ہیں جہاں صرف طاقت کا قانون چلتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اب بھی کسی انقلاب کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ انقلاب کے حقیقی وارث کمیونسٹ تھے جو افرادی اور شعوری ہر سطح پر کچلے جا چکے ہیں۔ آخری اسلامی انقلاب امام خمینی کا تھا۔ پاکستان میں سوشلزم کے نام پر ایک مصنوعی تبدیلی بھٹو کے دور میں لائی گئی تو جنرل ضیاء کے ہاتھوں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی گئی اور اسلامی نظام کا دعویٰ خود ضیاء الحق کے ہاتھوں بے توقیر کروا دیا گیا۔ عمران خان نے انقلاب سے بوجوہ گریز کرتے ہوئے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور ”جیسے تھے“ کے نسخے پہ عمل کرتے ہوئے پرانے دروازے سے اقتدار میں آیا بھی اور پھر اسی سے نکال بھی دیا گیا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ابھی دنیا میں ایسے کسی انقلاب کا برپا ہونا یا کسی بھی انقلابی جد و جہد کا کامیابی سے ہمکنار ہونا جو عوامی حمایت سے اٹھا ہو ممکن نہیں کیونکہ دنیا کے کسی ایک ملک میں بھی عوامی حقوق کے لیے اٹھائی گئی آواز کی کامیابی دنیا کے کسی اور ملک کے عوام کو بھی متحرک کر سکتی ہے۔ اگر ایک مثال بن گئی تو اسے اپنانے والے اور بھی نکل سکتے ہیں کیونکہ عام آدمی کے حقوق کا استحصال صرف پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں کم و بیش جاری و ساری ہے۔ میرے ذاتی خیال کے مطابق ابھی تو عوامی جد وجہد کو بہت برداشت کیا گیا ہے وہ بھی شاید اس لیے کہ اس کے پیچھے کوئی مضبوط نظریاتی بنیاد موجود نہیں۔ ورنہ اس سے زیادہ جبر کا مظاہرہ سامنے آتا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان کے پاس نظریہ تو کیا اسے تو شاید نظریے کا وہ شعور ہی نہیں جس کے باعث تاریخ میں انسانی حکمرانی اور اقتدار کے تانے بانے سمجھ آتے ہیں۔ عمران خان نے اگرچہ ریاست مدینہ کی بات کی ہے کلمہ اور قرآن و حدیث کے حوالے بھی دیتا رہتا ہے لیکن ریاست کی سطح پر سوائے یکساں انصاف کی فراہمی سے آگے ریاستی نظام کے طور پر اس کے پاس کوئی وے فارورڈ نہیں۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی نظریہ ہو تربیت کے بغیر صرف نعرہ رہ جاتا ہے اور یہی نظریاتی ناپختگی عمران خان کی زندگی کی ضمانت بھی فراہم کرتی نظر آتی ہے۔ تمام صورتحال کا وسیع تناظر میں جائزہ لیا جائے تو عمران خان کی واپسی قرین ازقیاس ہے۔ اگرچہ ایسا ہونا تب ہی ممکن ہے جب تک رجیم چینج کے تمام مقاصد حل کرلیے جائیں لیکن پھر بھی انقلاب مخالف قوتوں کو ایسے ہی رہنماوں کی ضرورت رہتی ہے جو عوام میں مقبول بھی ہوں اور ان کے کنٹرول سے باہر بھی نہ نکلیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا کھیل اب شروع ہوا ہے۔ ان کی ضرورت عین اس وقت پڑے کی جب ملک مزید پاتال میں اور عوام کی چیخیں آسمان تک پہنچیں گی۔ تب پورے زور و شور سے عوام کی مقبول ترین پارٹی برسر اقتدار آئے گی اور لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے اور مزید تین چار سالوں تک خوشی خوشی اسی امید پر زندہ رہیں گے کہ اب تو ان کے نصیب ضرور بدلیں گے۔ یہ وہی پرانی فلم ہے جو ہم گزشتہ پچھتر سالوں سے دیکھتے آ رہے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.