7اپریل کی دوپہر، رمضان کا مبارک مہینہ، جمعہ کا مبارک دن اور لاہور کے دل مال روڈ کے پاس ایک قدیمی سرکاری عمارت گورنر ہاؤس میں صحت کا عالمی دن منانے کیلئے تقریب کا انعقاد کیا گیا، ویسے تو یہ عالمی دن دنیا بھر کے149ممالک میں منایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ کا قیام 7اپریل 1948 کو کیا گیا اور ہر سال دنیا بھر میں اس دن کو صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ ہر سال اس دن کی نوعیت کے لحاظ سے ایک خاص پیغام دنیا کو دیا جاتا ہے اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس سال عالمی ادارہ صحت کو قائم ہوئے 75سال گزرگئے، عمومی طور پر عالمی ادارہ صحت کے نمائندگان، محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیداران کا اکٹھ کسی اچھے فائیوسٹار ہوٹل کے ٹھنڈے کمروں میں کیا جاتا ہے اور اسی میں بیٹھ کے غریب عوام کی بھلائی کیلئے سوچا جاتا ہے۔ اس مرتبہ ایک مختلف انداز میں یہ دن منایا گیا، تقریب کے انعقاد کیلئے گورنر ہاؤس کا انتخاب کیا گیا۔ یہ لاہور کے مال روڈ پر واقع ایک قدیمی عمارت ہے، جو کہ اس خطہ کی تاریخ سے بھری ہوئی ہے، اس عمارت کی تعمیر کا آغاز تقریباً 419 سال پہلے مغلوں کے دور میں کیا گیا جب 1600 عیسوی میں مغلیہ بادشاہ جلال الدین اکبرنے 1597میں اپنے کزن قاسم کی موت کے بعد ایک مقبرہ تعمیر کرایا اور یہ مقبرہ آج بھی گورنر ہاؤس کی عمارت کا محور ہے۔ بعد ازاں اس میں تبدیلیاں کی جاتی رہیں اور 1799سے1839کے دور تک مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک گورنر خوشحال سنگھ نے اپنی اور اپنے رفقا کیلئے اس مقبرہ کے آس پاس رہائش گاہوں کی تعمیر کی، اور اس کے گرد قائم باغات میں اسوقت کی افواج کی مشقیں کی جاتی رہیں۔ 1849 میں جب پنجاب انگریزوں کی سلطنت کا حصہ بن گیا تو اسوقت کے سکھ جنرل خوشحال سنگھ کی فرمائش پر یہ عمارت انگریزوں کے حوالے کر دی گئی، پھر قیام پاکستان کے بعد اس کو گورنر ہاوس کا درجہ دے گیا۔ اس وقت محمد بلیغ الرحمن پنجاب کے 60ویں گورنر کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔صحت کے عالمی دن کے موقع پر جنرل کیڈر ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن صاحب نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی، انکے علاوہ پنجاب کی صحت سے تعلق رکھنے والی علمی شخصیات نے بھی اس تقریب میں بھر پور شرکت کی۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹرجمال ناصر، ریڈ کریسنٹ سوسائٹی پاکستان کے سابق چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی، کنگ ایڈ ورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمود ایاز، جنرل ہسپتال لاہور اور امیر الدین میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر فرید ظفر، جنرل کیڈر ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر مسعود شیخ، نائب صدر ڈاکٹر اسد
عباش شاہ، ڈاکٹر رانا رفیق، ڈاکٹر محمد شہباز، ڈاکٹر منیر غوری، ڈاکٹر احتشام، ڈاکٹر منیر ملک، ڈاکٹر اعجاز بٹ کے ساتھ ساتھ لاہور اور پنجاب بھر کے دیگر اضلاع سے ڈاکٹروں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ میڈیا، سول سوسائٹی، سیاسی اور سماجی لیڈرز کی ایک کثیر تعداد نے بھی شرکت کی۔ اس دن کا مرکزی پیغام تھا صحت سب کیلئے، جس کا مقصد ہے دنیا کے ہر عمر، رنگ اور نسل کے افراد کیلئے صحت کی سہولیات فراہم کرنا گورنمنٹ کی ا ہم ترین ذمہ داری ہے، اور وہ لوگ جو اپنی صحت کا خود خیال نہیں رکھ سکتے، حکومتوں اور اقوام متحدہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مل کر ان افراد کی صحت کا مسئلہ حل کریں۔ اس حوالے سے ایسی پالیسیوں کا تشکیل دیا جانا جو انسانوں کی صحت میں بہتری لائیں، وہ بھی ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادا و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی 2 ارب آبادی فنڈز کی کمی کے باعث صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، اسی وقت دنیا بھر میں ہیلتھ ورکرز کی کمی کا سامنا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ 2030تک ایک کروڑ ہیلتھ ورکرز کی کمی کو دور کرنے کیلئے تعلیم، ہنر اور صحت میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا ہوگی، اس کے بغیر ان ورکرز کی کمی کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ صحت میں بہتری لانے کیلئے سب سے اہم ہیلتھ ورکرز ہیں جن کی عدم موجودگی سے کوئی بھی ہیلتھ کا انڈیکیٹر پورا کرنا ممکن نہیں۔صحت کے عالمی دن کے موقع پر جنرل کیڈر ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے زیر اہتمام قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پنجاب جناب بلیغ الرحمن نے کہا کہ دنیا کی 2 ارب آبادی فنڈز کی کمی کے باعث صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ دنیا بھر میں 2030 تک 1کروڑ ہیلتھ ورکرز کی کمی کو دور کرنے کے لیے تعلیم، ہنر اور صحت میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیناہوگی۔ صوبائی وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر نے پاکستان کے ہیلتھ انفراسٹرکچر کوبہترین قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر ہمیں اس محکمہ میں بہتری لاناہے تو اس میں ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہوگا اور جو پراجیکٹس کسی بھی وجہ سے رکے ہوئے ہیں انکو زیادہ تیزی سے مکمل کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے ریڈ ٹیپزم اور دیگر بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ صحت کے indicaters کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔سابق چیئرمین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی پاکستان ڈاکٹر سعید الٰہی نے تجویز دی کہ ہماری قوم کئی افراد کو انکے کارناموں کی وجہ سے ایوارڈ سے نوازتی ہے، لیکن محکمہ صحت کے ملازمین اس ایوارڈ سے محروم رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس طرح وہ ہیلتھ ورکر جو کہ صرف قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اور اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر ہی عوام کی خدمت میں دن رات لگے رہتے ہیں انکو بھی انکی خدمات کے اعتراف میں نوازا جانا چاہئے اس سے ہمارے ہیلتھ ورکرز میں مزید خوداعتمادی پیدا ہوگی۔ وہ دل لگا کر اپنا کام کر سکیں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ کہ پولیو مہم اور کورونا وبا کے دوران شہید ہونے والے ہیلتھ کیئر ورکرز اور ڈاکٹروں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور ان کے ورثا کو مالی امداد فراہم کی جائے۔جنرل کیڈر ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر مسعود شیخ نے کہا کہ یونیورسل ہیلتھ کوریج پر توجہ مرکوز کی جائے اورسیاسی اور سماجی راہنما صحت کی سہولیات کے حوالے سے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ وبائی اور دیگر امراض پر قابو پانے کیلئے مناسب قانون سازی کرے۔اگر بین الاقوامی اداروں کا تعاون جاری رہا تو چیچک کی طرح پولیو کو بھی اس ملک سے ختم کر دیں گے۔اسوقت ملک میں ماں اور بچے کی صحت پر زور دینا ہوگا۔ دنیا کو ہر چند سال کے بعد ایک نئی وبا کا سامنا ہے، مل جل کر اسکا سدباب ممکن ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پرائمری، سیکنڈری اور ٹرشری ہیلتھ کے ساتھ ساتھ primordial prevention بھی بہت ضروری ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جو ایک صحت مند معاشرہ کو جنم دے سکے۔ اور ان پالیسیوں ہر عمل درآمد بھی کرایا جائے۔ عالمی ادارہ صحت کے نمائندہ ڈاکٹر یحییٰ گلزار نے زور دیا کہ عالمی ادارہ صحت اس وقت دنیا بھر میں فلاحی کاموں میں مصروف ہے، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں عالمی ادارہ صحت کے کام نہ ہو رہے ہوں، پاکستان میں بھی ماں اور بچہ اور ایسے ہی کئی شعبہ میں عالمی ادرہ صحت کی معاونت سے کام کئے جا رہے ہیں۔ وائس چانسلر KEMUپروفیسر محمود ایاز نے روز دیا کہ آئین پاکستان میں اگر کسی چیز کا ذکر نہیں تو وہ ہیلتھ ہے، ہمیں چاہیے کہ آئین پاکستان میں صحت اور اسکی جزویات کو بھی جائز مقام دیں تاکہ صحت کی فراہمی ایک آئینی فریضہ بن جائے۔ پرنسپل امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر فرید ظفر نے زور دیا کہ کرونا کے دوران جب کہ دنیا بھر میں خطرات تھے ہمارے ڈاکٹر، اور پیرامیڈیکل سٹاف نے مل کر ملک کیلئے کام کیا اور اس مشکل گھڑی میں سے ملک کو نکالا۔ ہم نے مل کر اس بیماری پر قابو پا لیا، جبکہ دنیا کے باقی ممالک میں اس مرض نے کہیں زیادہ تباہی مچائی۔ہمیں اس مرض سے کافی سیکھنے کو ملا۔ آج ہم کرونا کی کئی اور اقسام کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پروفیسر روبینہ ذاکر نے ماں اور بچے کی صحت کو ملکی ترقی کیلئے کلیدی قرار دیا، انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ بچوں اور ماں پر مشتمل ہے، اگر انکی صحت پر توجہ نہ دی گئی تو ملکی ترقی رک جائے گی۔ پروفیسر جنید رشید نے ماں کے دودھ کی افادیت پر زور دیا اور کہا کہ انسان کی ذہنی اور جسمانی ترقی کا راستہ ماں کے دودھ سے ہوکر گزرتا ہے، یہ ہماری ماں کا بڑا احسان ہے کہ وہ ایک نسل کو پروان چڑھاتی ہیں۔جنرل کیڈر ڈاکٹرز، ڈبلیو ایچ او، کے ای ایم یو، یو ایچ ایس، فیملی فزیشنز، پنجاب یونیورسٹی، نرسنگ اور پیرا میڈیکل سٹاف کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اور تقریب کے آخر میں شعبہ ہیلتھ میں گرانقدر خدمات سرانجام دینے پر گورنر پنجاب نے جنرل کیڈر ڈاکٹرز اور دیگر میں شیلڈیں تقسیم کیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.