دنیا کے مشکل ترین کاموں میں خواتین کو شاپنگ کرانا بھی ہے، اک زمانہ تھا جب سربراہ بازار جاتا تو گھر کے سارے افراد حتیٰ کہ خواتین کے ملبوسات لے آتا، مردوں اور عورتوں کے لیے ایک ایک تھان خرید کیا جاتا، سب ہنسی خوشی قبول کرتے، کپڑوں کے رنگ ہی سے خاندان کی پہچان ہوتی۔ اُس دور میں عید، شادی، سالگرہ کے الگ الگ کپڑے نہیں بنائے جاتے ان پر تبصرہ ہوتا نہ ہی کوئی ناک منہ چڑھاتا تھا۔
اب ہم بری طرح برانڈڈ کلچر کا حصہ بن چکے ہیں، اس میں آسانیاں بھی ہیں اور بڑی قباحتیں بھی۔ پہلے دور میں رنگ، ڈیزائن کا انتخاب دکان دار کی صوابدید پر ہوتا۔ کچھ معاونت سڑک کنارے لگے اشتہارات بھی کرتے تھے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تو سماج کی فیبرکس ہی بدل کر رکھ دی، اب کلر، ڈیزائن، برانڈ نام آناً فاناً اینڈرائڈ موبائل سے دنیا بھر میں پہنچ جاتا ہے، سیل کہاں لگی ہوئی ہے، یہ معلومات گھر بیٹھے آپ کو پہنچائی جاتی ہیں، اس سے گھر کا ہر فرد آگاہ ہوتا ہے، بچے خریداری کی فیوض برکات سے والدین کو یہ سمجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ”سیل“ سے شاپنگ کرنا ”کار ثواب“ ہے۔
جس طرح نت نئے برانڈ مارکیٹ میں وارد ہو رہے اس سے لگتا یوں ہے، ضروریات زندگی کی ہر شے کو اس کا مزہ چکھنا ہوگا، اس کلچر نے اگرچہ مقابلہ کی فضااورچوائس بھی بڑھا دی ہے مگر خواتین کے لئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے ہیں، اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے انھیں در در کی خاک چھاننا پڑتی ہے، مثلاً اگر انھوں نے جوتا پہلے خرید کر لیا تو اب اس رنگ سے کپڑوں کا انتخاب فرض عین سمجھا جاتا ہے، اب دکانو ں کی یاترہ نصیب میں لکھی جاتی ہے۔
اگر کلر مل جائے تو یہ مشکل آن پڑتی ہے کہ سوٹ ٹوپیس ہے، نئی پریشانی یوں کھڑی ہوتی ہے کہ اس رنگ کاد وپٹہ کیسے ملے گا،اسکی تلاش میں نکلتے ہیں تو ایک اور دریا کا سامنا کے مصداق آتے ہیں، دوپٹہ کی چوائس ھل من مزید کی کیفیت پیدا کرتی ہے،یہ شفون ہو، کرنکل،جار جٹ،یا کرش کا ہو یا سادہ اس پریشانی میں پہلے دوپٹہ پھر کلر میچنگ درد سر بن جاتی ہے، کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہربرانڈڈ کمپنی صنف نازک کو ہر حال میں اذیت سے دو چاررکھنا چاہتی ہے،ورنہ اسلامی سماج میں خواتین کے لئے دوپٹہ کے بغیر سوٹ بنانا ہی خلاف عقل ہے۔
شاپنگ کے دوران کچھ پریشانیاں از خود پیچھا کرتی ہیں مثلاً سنگل پیس شرٹ اگر کسی خاتون کو پسند آ گئی، اس کا چھوڑنا ایسا ہی ہو جیسے کھانا، اسے لے کر دیوانہ وار نکلنا پڑتا ہے کہ پاجامہ بھی اسی رنگ کا مل جائے،تھوڑی سی ریاضت کے بعد رب یہ مہربانی کر بھی دے تو اب تیسرے پیس کے طور پر دوپٹہ کا رنگ ملانامقصدحیات بن جاتا ہے۔
خوش قسمتی سے تھری پیس سوٹ اچھا مل جائے تو جوتے کی کلر میچنگ واجب ہو جاتی ہے، اس مرحلہ کے بعد خواتین کو نئے امتحان سے واسطہ پڑتا ہے کہ کونسی لیس لگائی جائے، اس میں بھی بڑی چوائس موجود ہے، باریک، چمکیلی یا سادہ ہو، رنگ کیسا ہو، سائز بڑا یا چھوٹا، رنگ شوخ یا ہلکا ہو، اس میدان تو اب بزرگ خواتین بھی کود پڑی ہیں، ان کے سوٹ بھی گوٹا کناری کے بغیر تیار نہیں ہوتے، یہ بیچاری دو راہے پر کھڑی نظر آتی ہیں کہ فیشن بھی ہو مگر زمانے کی نظروں سے بچ بھی نکلیں۔ جوتے، کپڑے کے بعد لیس کی کلر میچنگ کے بعد بھی خواتین کی مشقت میں کمی نہیں آتی، اس کے بعد دوپٹہ کو پیکو کرانے کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے، عید کے تہوار پر چوڑیوں کے انتخاب کی باری آتی ہے، کلر میچنگ کی کوفت یہاں بھی اُٹھانا ہوتی ہے۔
ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ مہنگائی کے معاملہ میں سرکار خواہ مخواہ بدنام ہے اصل شرارت تو ان برانڈڈ کمپنی کی ہے، جنہوں نے محض ایک لباس کے پہنوانے میں ہزاروں بکھیڑے پیدا کر رکھے ہیں، خواتین نے بھی ایسی مشق سے اپنی حیاتی آپ تنگ کر رکھی ہے، برانڈڈ شاپنگ کا ایک فائدہ بہر حال یہ ہے کہ بارگینگ نہیں کرنا پڑتی، معقول قیمت میں اچھا لباس مل ہی جاتا ہے۔ اب تو یہ ”سٹیٹس سمبل“ بن گیا ہے۔ برانڈڈ شاپنگ کا سب سے زیادہ فائدہ دیار غیر میں بسنے والی دوشیزاؤں کو بھی ہے، جو ڈالر، ریال، پونڈ میں خریداری اس لیے نہیں کرتیں کرنسی سے ضرب دینے سے یہ مہنگی لگتی ہے، وہ بھی ارض وطن میں برانڈ کی سیل سے مستفید ہوتی ہیں اور اپنی کرنسی میں اشیاء خرید کر محب وطن ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
اس لیے لازم ہے کہ معاون خریدار کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو، تو براہ راست ملبوسات یا دیگر آرٹیکل دکھا کر اپنے عزیز و اقربا کے لیے بھی خریداری کی جا سکتی ہے۔اگرچہ انکی غالب تعداد آن لائن بھی یہ فریضہ انجام دیتی ہے بعض اوقات اس انداز سے خریداری قابل بھروسہ نہیں ہوتی، آن لائن شاپنگ کا کلچر تو یہاں بھی آباد ہے مگر بد اعتمادی کی فضا بھی موجود ہے، دکھائی اور بھیجی جانی والی چیزوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، ہر برانڈ پر یہ الزام تو دھرا نہیں جا سکتا مگر چکھنے کو دیگ کا ایک دانہ ہی کافی ہے۔
برانڈڈ شاپنگ کے معاملہ میں مرد حضرات البتہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں، انھیں کلر میچنگ جیسے عذاب سے گزرنا نہیں پڑتا، اس کلچر کو دیکھا دیکھی مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے برانڈ لانچ کیے ہیں، گزشتہ دنوں ایک زار بند کی دھوم بھی سوشل میڈیا پر تھی،حالانکہ اس کے استعمال میں معاملہ کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے صرف بندے اور خدا کا ہو مگر حاسدین نے اسکی ہوشربا قیمت کے حوالہ سے بے پرکی اڑائی تھی، ان کا خیال ہے کہ مولویوں کا برانڈڈ مال سے کیا لینا دینا، ہم سمجھتے ہیں کہ خودداری، بہتر طرز ندگی کے لیے ہر مولوی کو تجارت کرنی چاہئے۔
کلر میچنگ سے لے کر بازار میں خریداری تک مرد کا وہ حشر ہوتا ہے کہ میدان حشر ہی یاد آ جاتا ہے۔ البتہ دوران شاپنگ انکی حالت قابل رحم ہوتی ہے جنہیں بچوں کو اٹھانا بھی پڑتا ہے، ہماری ساری تحقیق اس پر ہے کہ کس طرح مرد ناکردہ گناہ سے نجات سے پا سکتا ہے، پھر سے وہ کلچر آباد کیا جائے جس میں گھر کا بڑا سب کی پسندیدہ شاپنگ کر لائے، گلوبل ویلیج کے اس عہد میں تو ہماری امید دم توڑتی نظر آتی ہے،کیونکہ برانڈڈ کلچر نئی نسل کو منتقل کیا جا رہا ہے۔
گیس کی آمد اور جامد کے اوقات کار کی بحث کے بعد نجانے کہاں یہ مخلوق اتنی فرصت پاتی ہے کہ کلر میچنگ کا دکھ بھی اٹھا سکے، گمان ہے کہ اکثر روشن خیال خواتین عبایہ پہننے اور پردہ کرنے کا تکلف اس لیے نہیں کرتیں کہیں کلر میچنگ کی سرمایہ کاری ہی ضائع نہ ہو، مغربی خواتین نے اگرچہ اپنے لباس کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا مگر خود کو کلر میچنگ کی فکر اور اس کمپلیکس سے آزاد کر کے ”کتاب کلچر“ کو جنم دیا ہے، شرٹ، قمیض، پاجامہ، دوپٹہ، چوڑیاں، جھمکے، بُندے، لپ سٹک، مہندی، کیچر، گھڑی کے ساتھ کلر میچنگ دیکھ کر اقبال کے شعر کا مصرع یوں
یاد آتا ہے کہ وجود زن سے ہے کاروبار میں رنگ
جرمن چانسلر اینگلا مرکل کو کلر میچنگ کی نجانے کیوں نہ سوجھی ورنہ وہ تین دہائیوں تک ایک سوٹ میں ملبوس رہ کر اقتدار سے یوں نہ رخصت ہوتیں، انھوں نے لباس سے زیادہ اپنی سادگی اور پر اعتمادی کو اہمیت دے کر تاریخ رقم کی ہے، جس میں دیگر خواتین کے لئے اہم پیغام پو شیدہ ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.