فل کورٹ بن جاتا تو اچھا تھا

68

وطن عزیز بیچارہ بدترین معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار تو تھا ہی اوپر سے بے روزگاری، کرپشن، لاقانونیت اور دہشت گردی کا خوب تڑکا بھی لگا ہوا تھا لیکن سپریم کورٹ میں جاری ایک مقدمہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران نے تو جیسے پورے سسٹم کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ معاملے کا آغاز تو عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے اور پھر اس کے کامیاب ہو جانے سے ہوا تھا لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے گئے، مختلف قسم کے احتجاج کی کالیں دی گئیں، پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے رسہ کشی جاری رہی اور پھر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیاں تک تحلیل کر دی گئیں۔لیکن شائد جس قسم کی بحرانی کیفیت پیدا کیے جانے کی کوششیں کی جارہی تھی اس میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ خیال تھا ان طریقوں کو آزمانے اور ان میں ناکامی کے بعد سیاسی بحران میں کچھ کمی واقع ہو گی لیکن افسوس ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ حکومت سے بھی یہی امید تھی کہ آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے یا تو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دے دے گی اور یا پھر قومی اسمبلی اور سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی تحلیل کر کے ملک بھر میں نگران سیٹ اپ قائم کر دیا جائے گا اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔ لیکن ہوا ایسابھی کچھ نہیں۔ پورے ملک میں انتخابات تو خیر کیا ہونے تھے جو دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئی تھیں ان کے انتخاب کا معاملا بھی ایسا الجھا ہے کہ اس کا کوئی آسان حل نظر ہی نہیں آ رہا۔
پی ڈی ایم، پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف، الیکشن کمشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے درمیان بات ایسے گول گول گھوم رہی ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ سب کچھ ہو کیا رہا ہے؟ پاکستان تحریک انصاف اس وقت الیکشن کمشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلی کے انتخابات آٹھ اکتوبر تک ملتوی کیے جانے کے خلاف ایک کیس لے کر سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہے۔واضع رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک ازخود نوٹس کیس کے فیصلہ کے نتیجہ میں صدر مملکت نے الیکشن کمشن آف پاکستان کو تیس اپریل کو پنجاب اسمبلی کا الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا، جسے بعد ازاں منسوخ کر کے اکتوبر میں انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا گیا۔ عجب بات ہے کہ قصہ چہار درویش کی طرح اس مقدمہ میں بھی معاملات کے اندر سے کچھ اور معاملات ایسے نکل رہے ہیں کہ اصل معاملا تو کہیں بہت پیچھے پڑا ہوا نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ مذکورہ کیس کا جب آغاز ہوا تو اس وقت چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں پانچ رکنی پنچ اس کیس کو سن رہا تھا، پھر ایک ایک کر کے دو معزز جج صاحبان، جناب جسٹس جمال مندوخیل اور جناب جسٹس امین الدین خان نے اپنے آپ کو کو اس بنچ سے علیحدہ کر لیا۔ اور اب فل کورٹ بنانے کی تمام تر درخواستوں اور مطالبوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تین رکنی پینچ ہی
اس کیس کو سن رہا ہے۔ مذکورہ کیس کی بنیاد بننے والے ازخود نوٹس والے کیس کا فیصلہ بھی انتہائی متنازع صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ یہ معاملہ اس حد تک الجھ گیا ہے کہ ابھی تک یہی طے نہیں ہو سکا کہ فیصلہ کیا تھا اور اسے کتنے ججوں نے تحریر کیا۔ گویاابھی یہی طے ہونا باقی ہے کہ آیا از خود نوٹس درست طور پر لیا بھی گیا تھا یا نہیں۔ اس کیس میں ابتدا سے ہی ایک نقطہ پر بحث چل رہی ہے کہ آیا اس معاملہ پرفل کورٹ بننا چاہیے یا نہیں۔ حکومت اس سلسلہ میں بھر پور مطالبہ کر رہی ہے کہ فل کورٹ بننا چاہیے، پاکستان تحریک انصاف کو بھی بظاہر اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن جانے کیوں معزز چیف جسٹس صاحب ایسا نہ کرنے کے اپنے فیصلہ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ چونکہ حکومت بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (نواز) اس کیس کو سننے والے بینچ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو بینچ قبول نہیں اس کا فیصلہ کیونکر قبول ہو گا تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس معاملہ پر فل کورٹ تشکیل دے دیا جاتا۔ کیس کی سماعت کے دوران جب حکومت کی جانب سے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملا زیر بحث آیا تو چیف جسٹس صاحب نے دو خاصی عجیب باتیں کر دیں۔ پہلے تو وہ کہنے لگے کہ اگر حکومت الیکشن کے لیے فنڈز مہیا کرنے سے گریزاں ہے تو عدالت اس کا بھی انتظام کردے گی۔
دوسری بات جو چیف جسٹس صاحب نے کہی وہ خاصی اہم تھی، کہنے لگے کہ اگر حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ ہماری تنخواہوں میں سے کاٹ لے۔ اس پر جن چند چھوٹے لیول کے سرکاری ملازمین سے میری بات ہوئی انہوں نے تو شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ،’چیف صاحب تو بڑے آدمی ہیں تنخواہ میں کٹوتی سے انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ہمارے لیے تو پہلے ہی دو وقت کی روٹی پوری کرنا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اگر چیف صاحب نے کوئی مسئلہ حل کرنا ہے تو ہماری روٹی کا مسئلہ حل کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب کو چاہیے کہ الیکشن کے اخراجات ہمارے ٹیکس کے پیسوں یا ہماری تنخواہیں کاٹ کا نہ حاصل کیے جائیں بلکہ ان سے طلب کیے جائیں جنہیں الیکشن کا شوق چڑھا ہو ا ہے اور انہوں نے قبل از وقت اسمبلی تحلیل کر کے ایک بحرانی کیفیت پیدا کر دی ہے‘۔
الیکشن کے انعقاد میں حائل ایک اور مسئلہ جو معزز عدالت عظمیٰ میں زیر بحث آیا وہ الیکشن کے موقع پر سکیورٹی انتظامات تھے۔ واضع رہے کہ پاک فوج الیکشن ڈیوٹی کے لیے اپنے جوان اور افسران دینے سے معذرت کر چکی ہے۔ اس پر بھی عدالت اپنا ایک کردار ادا کرنے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ اس مقدمہ میں ایک اوراہم بات الیکشن کمشن آف پاکستان کے وکیل عرفان قادر کو بار بار درخواست کے باوجود بولنے کا موقع نہ ملنا ہے۔ غرض اس مقدمہ میں کافی جھول اور بہت پیچیدگیاں ہیں لہذا اس کا فیصلہ سنانے میں کسی بھی قسم کی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر یہ نظام اور آئین اپنی جگہ موجود ہیں تو الیکشن توآج نہیں تو کل ہو ہی جائیں گے لیکن اگر کسی بھی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوسکے تو اس کے ناقابل تلافی نقصانات ہوں گے اور تاریخ میں اس مقدمہ میں رہ جانے والے سقم پر بار باربات ہوگی۔

تبصرے بند ہیں.