رب کو راضی کیجیے

50

گیارہ مہینے گزر گئے۔ سلسلہئ روز وشب، خاکی وجود میں پنہاں وجودِ اصلی کو تھکا مارتا ہے۔ فتنہئ دجال کی یلغار، نارمل فطرتِ انسانی پر چرکے لگاتی دجل، فریب بھری اخلاقی گراوٹ سے ہلکان کیے دیتی ہے۔ پیاسی روح روحانی نعمتوں کی تلاش میں ایمانی نخلستان تک رسائی کی منتظر ’بلغنا رمضان‘ پکارتی، بالآخر اسے پا لیتی ہے۔ سورۃ ابراہیم میں شجر طیبہ کی مثال مذکور ہے۔ ’کلمہ طیبہ کی مثال اچھی ذات کے درخت کی ہے، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے۔‘ اس کے برعکس، ’کلمہ خبیثہ (ہر عقیدہئ باطل) کی مثال ایک بدذات درخت کی سی ہے جو سطح زمین سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔‘ (ابراہیم: 25-26)
کلمہ طیبہ ایک مکمل نظامِ حیات، عقیدے، طرز زندگی کی نمایندگی کرتا ہے۔ خالق ومالکِ کائنات، فاطر السموات والارض کا عطا کردہ! زندگی کے ہر دائرے میں توازنِ کامل کے ساتھ تہذیب وتمدن کو پاکیزگی، عدل وانصاف، امانت ودیانت، سکینت سے بھر دیتا ہے۔ پورے نظامِ کائنات سے ہم آہنگ سراپا خیر۔ رہزنوں کے قبیلے سے فقر وزہد کے پیکر (ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز) ابوذرؓ اٹھا کھڑے کرنے والا نظام۔ بیٹیاں زندہ دفن کرنے والے اب کندھوں پر حیا اور پاکیزگی میں گندھی احرام پوش ننھی بیٹیاں بٹھائے قیمتی متاع جان کر کعبہ کے گرد محوِ طواف ہوتے ہیں! شجر طیبہ بھر بھر کر خوبصورت زندگی کے خوش رنگ خوشبودار پھل پھول عطا کرتا ہے۔ دنیا کو جنت نظیر بنا دیتا ہے۔ شجر خبیثہ اس کی عین ضد ہے۔ ہمہ نوع باطل عقائد۔ دہریت، الحاد، شرک وبت پرستی، سیکولر ازم، لبرلزم، ہیومنزم اور آنجہانی کمیونزم یا ڈراما باز جمہوریت! نمرود، فراعنہ، بوجہلوں سے لے کر لینن، مارکس، بش، ٹرمپ اور ہمہ نوع زندیق۔ ان نظام ہائے زندگی کے کڑوے کسیلے زہریلے پھل، دنیا بھر میں اسفل ترین تہذیب کی صورت (ظاہری چکاچوند کے پس پردہ) انسانیت کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔
ہلاکت خیز اسلحے کے انبار، سودی معیشت کے شکنجے میں مجبور ومقہور انسان، بے حیائی فحاشی کی زہر ناکی سے نفسیاتی، اخلاقی تباہی وبربادی۔ سرمایہ دارانہ نظام 99فیصد کو حیران ویران سرگرداں کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں آسمان پر وہ ہلال نمودار ہوتا ہے (جسے الجھانے کے بھی سو سامان کردیے جاتے ہیں عوام کو ستانے کے لیے!) جو رحمت وسکینت کے سبھی اسباب فراواں کرنے کو آتا ہے۔ یہ الگ بات کہ …… ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں!
اگرچہ اس گئے گزرے حال میں بھی، بیس سال اسلام کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے سبھی عالمی اسباب اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود، بحمدللہ مساجد بھری ہوئی ہیں! اب کہانی روح کی، دل کی، نفیس، چپکے چپکے خوشبو بن کر حواس پر چھا
جانے والی شروع ہوتی ہے۔ صد کتاب وصد ورق درنارکن، روئے دل را جانبِ دلدارکن۔ اب دل کا رخ اللہ کی جانب پھیرنے کا وقت آگیا ہے۔ دنیاوی کتب، عصری تعلیم اور اس کے اوراق دل کو پراگندگی اور بوالہوسی کے سوا کچھ نہیں دے رہے۔ آگ میں جھونک دو ایسے اوراق کو۔ اب ہمارے محبوب رب کی کتاب اور محبوبؐ ربی کی کتب سے سارے سکھ سکینتیں اور خوشیاں وابستہ ہیں۔
دل کی بہار، سینے کا نور، غموں دکھوں کا مداوا قرآن میں رکھا ہے۔ یھدی للتی ھی اقوم…… وہ راستہ دکھانے والی کتاب جو دنیا میں بھی راست رو رکھے اور آخرت میں بھی۔ ھدی للناس، بلاتفریق تمام انسانوں کی رہنما۔ حتیٰ کہ جنات بھی پکار اٹھے: ’ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔‘ (الجن: 1-2) کہاں یہ ایمانی مومن جنات اور کہاں گوشت کے تھال کھا کھا کر قوم پر آسیب کا سایہ ڈالنے والے جنات کی جناتی شہرت!
بلاشبہ رمضان بندہئ مومن کی روح کو ایمان کی سرشاری، تزکیہئ نفس، مغفرت، توشہئ آخرت، قلبِ سلیم عطا کرنے کو آتا ہے مگر یہ ہم کیونکر بھول جائیں کہ یہ سالانہ اہتمام صرف ہماری روح کے سجنے سنورنے کا نہیں بلکہ: ولتکبروا اللہ علی ما ھدٰکم ولعلکم تشکرون کے لیے ہے۔ یعنی، ’جس ہدایت (ایمان، اسلام کا شاندار نظامِ حیات) سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘ (آیت 185۔ البقرۃ) اور ساتھ ہی اگلی آیت پیاسی دنیا کو رب کا پتہ بتاتی ہے کہ میرے بندے میں تم سے قریب ہی ہوں۔ مجھے پکارو۔ سنتا بھی ہوں جواب بھی دیتا ہوں۔ مجھے پہچانو، ایمان لاؤ اور راہ پا جاؤ! ہر قلبِ انسانی میں اللہ کی محبت کی لو مدھم روشنی دیتی ہوئی (وعدہئ الست نے) رکھی ہے۔ (جیسے ہیٹر، چولہا جس میں پائلٹ جلتا رہتا ہے۔) بس دل کا بٹن موڑنے کی دیر ہے کہ شعلہ بھڑکنے پر تلا بیٹھا ہے۔ جو فسق وفجور کے سبھی داعیے جلاکر بھسم کر دیتا ہے۔ قرآن ہر روح کی پیاس، اس کی ضرورت، اس کی غذا ہے۔
وہی چاند جو پہلے خود خدا تھا مشرکوں کا۔ آج وہ سائنس کا خدا ہے۔ ناسا کی اس چاند پر چہل قدمیاں اسے چاند کی حقیقت نہ بتا سکیں۔ اگرچہ ڈیوڈ موسیٰ ناسا کے سائنس دانوں کی فکر نارسا کے ذریعے خود چاند کے رب کو پا گیا۔ یہ وہ مغربی ہے جو کسی کے اصرار پر قرآن پڑھنے لگا مگر ایمان نہ لایا۔ اس نے شق القمر کا واقعہ سورۃ القمر سے پڑھا (انگریزی ترجمہ) اور حیرت زدہ ضرور ہوا، سمجھ نہ پایا۔ پھر ایک سائنسی ٹیلی وژنی مذاکرے میں اس نے ناسا کے سائنس دانوں کو یہ بتاتے سنا کہ چاند پر ہم نے ایک عجیب چیز دیکھی جس کی کوئی توجیہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اور وہ یہ کہ چاند کی زمین پر ایک طویل گہری لکیر ہے جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اس کے دو ٹکڑے ہوئے تھے اور پھر یہ دوبارہ جڑا تھا۔ ڈیوڈ موسیٰ کے دل کی چنگاری بھڑک کر اس کے پورے وجود کو ایمان کی حرارت سے گرما گئی۔ یہ ہے سورۃ القمر کی صداقت! ’قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا‘۔ (آیت: 1) گویا امریکی ناسا نے اربوں ڈالر اس دن کے لیے خرچ کیے کہ وہ قرآن کی تصدیق کرسکے؟ وہ چلّا اٹھا اور مسلمان ہوگیا!
رمضان ماہِ قرآن ہے۔ ماہِ صبر ماہِ تقویٰ ہے۔ ماہِ دعوت بھی تو ہے۔ گمراہ دنیا کی اکھڑتی روحانی سانسوں کا وینٹی لیٹر، سبھی نفسیاتی اذیتوں بے قراریوں کا مداوا۔ ’اور (اے نبیؐ) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘ (سبا۔ 28) ہمیں دنیا تک اس عظیم الشان نعمت کو پہنچانے کے لیے یہ ماہِ تربیت عطا ہوا۔ اے بندہئ مومن تو بشیری تو نذیری…… ہم اعتماد، فخر وانبساط سے یہ عظیم نعمت بشارتوں کے ٹوکرے لیے بھر بھر دنیا تک پہنچاتے۔ مگر ہم تو خود آئی ایم ایف کے سودی انذار کے ہاتھوں سہمے پڑے ہیں۔ امریکی بشارتوں پر عمران خانوں کی خوشی کا کوئی عالم نہیں کہ زلمے خلیل زاد کرسی کی کھلی چھپی یقین دہانی کروا رہا ہے…… وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔ عدلیہ ہاں میں ہاں ملاکر انہی امریکی بشیری نذیری گردابوں کا حصہ ہے۔ دیندار طبقہ بھی رمضان کی قیمتی راتوں میں مخلوط سیاسی جلسے منعقد کرتی تحریکِ انصاف کی بدستور پشت پناہی کر رہا ہے۔ قیمتی گھڑیوں کا ضیاع، حدود کی پامالی، رطب ویابس گلا پھاڑ تقاریر گراں کیونکر نہیں گزرتیں؟
ہماری کرتوتوں کے ہاتھوں ہوش جگہ پر لانے کو ہمیں زلزلے کا جھٹکا پڑا ہے۔ پلٹ ترا دھیان کدھر ہے! المیہ تو یہ ہے کہ اخبارات کے ایڈیشن بھی رمضان کا تقدس نظرانداز کیے زلزلہ خیز حیاسوز حسیناؤں کی تصاویر جوں کی توں لگا رہے ہیں۔ کالی اسکرینوں سے امڈتی سیاہیوں میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اللہ کی پناہ کہ ترکی شام میں ہم بچشمِ سر سب دیکھ چکے۔ عبرت انگیزی ہم کھو بیٹھے ہیں۔ ’تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیلِ روشن اور ہدایت اور رحمت آ گئی ہے۔ اب اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑے…… کیا اب لوگ اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے آ کھڑے ہوں، یا تمہارا رب خود آ جائے یا تمہارے رب کی بعض صریح نشانیاں نمودار ہو جائیں۔‘ (الانعام۔ 157)
ملکی سطح پر انتشار وافتراق کتاب اللہ سے روگردانی ہی کا نتیجہ ہے۔ دو مزید آفٹر شاک آ چکے ہیں۔ ہم کس دن کے منتظر ہیں؟ رمضان میں بھی قرآن نہ اٹھایا تو کب اٹھائیں گے؟ محاسبے اور تزکیے کی شدید ضرورت ہے۔ چینلوں پر اسلام کے نام پر رنگ رنگیلے تماشوں سے باز آئیے۔ قرآن چھوڑکر من مانا اسلام، کھیل اور مذاق ہے۔ اسے ترک کیجیے۔ ان ربی رحیم ودود (بے شک میرا رب رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔) اٹھیے! رب کو راضی کیجیے!
موت کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سن
عمر بھر کا خلاصہ اسی آواز میں ہے

تبصرے بند ہیں.