مائی لارڈ، انصاف

130

ارشاد امین بزرگ صحافی ہیں اور ایک خاص نقظہ نظر کے حامی ہیں۔ نپی تلی بات کرتے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی۔ پوسٹ بھارتی عدلیہ کے حوالے سے تھی جس میں انہوں نے بتایا کہ "انڈین ریاست مدھیہ پردیش ہائیکورٹ کے جج جسٹس اتل سریدھرن نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے درخواست کی ہے کہ انکا تبادلہ کسی اور ریاستی ہائیکورٹ میں کردیا جائے۔ وجہ یہ بیان کی ہے کہ آئندہ برس انکی بڑی بیٹی اسی ریاست کی ڈسٹرکٹ و ہائی کورٹ میں وکالت کا آغاز کر رہی ہے۔ انکا بطور جج اسی ریاست میں رہنا مفادات کا ٹکراو ہوگا۔ سپریم کورٹ نے یہ استدعا منظور کرتے انکا تبادلہ جموں و کشمیر ہائیکورٹ کردیا ہے۔” یہ پوسٹ آج کے ملکی حالات کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ آج کل عدلیہ شدید دباؤ میں ہے اور تحریک انصاف کی ہر روز نت نئی درخواستوں پر جس تیزی سے کارروائی ہو رہی ہے اس نے عدلیہ کی سست روی کے تاثر کو ختم کیا ہے اور اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت عدلیہ انصاف کی فراہمی کے لیے ایکسپریس موڈ میں ہے۔ جس تیزی سے انصاف دیا جا رہا ہے اس کے بعد یہ تنقید بند ہونی چاہیے کہ عدالت میں کارروائی سست روی کا شکار رہتی ہے۔ پہلے اس بات پر تنقید ہوتی تھی کہ عدالتیں مقدمات کا فیصلہ تاخیر سے کر رہی ہیں اور آج اس پر تنقید ہو رہی ہے کہ اتنی تیزی سے مقدمات سنے جا رہے ہیں اور ملزمان کی گھر بیٹھے ضمانتیں مل رہی ہیں۔
عدل و انصاف کی باتیں کرنے والے باہر کے ججز کی مثالیں دیتے ہیں لیکن خود پاکستان کی عدلیہ میں بھی ایسے لوگ موجود رہے ہیں جن کی مثال دی جا سکتی ہے۔ بہرحال جج بھی گوشت پوست کے انسان ہیں ان کے بھی جذبات اور احساسات ہیں۔ وہ ضرب المثل تو ماضی کے اوراق میں دفن ہو گئی کہ جج نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں آج کے جج بھی بولتے ہیں اور ان کے فیصلے بھی۔ وہ ٹی وی پر ہونے والے تبصروں کو بھی دیکھتے ہیں اور سوشل میڈیا کے استعمال سے بھی واقف ہیں۔ عدلیہ کے حوالے سے ماضی کے اصول اور روایات کو اپ ڈیٹ ہونا چاہیے۔
ماضی میں کیا ہوا وہ تاریخ کے اوراق میں دفن ہو گیا۔ تاریخ کو اپ ڈیٹ کریں اور نئے تاریخ دان بھرتی کریں جو اس تاثر کو ختم کریں کہ ملک کو اتنا نقصان فوجی مارشل لا نے نہیں پہنچایا جتنا معزز عدلیہ کے ججوں نے کیا اور یہ عدالتیں تھیں جنہوں نے ہر طالع آزما کو من مانی کرنے کا موقع فراہم کیا۔
ہماری عدالتی تاریخ بالکل درخشاں نہیں۔ جسٹس منیر سے شروع کریں اور ثاقب نثار تک آ جائیں کیا کچھ نہیں ہوا۔ ایک چیف جسٹس نے تو وردی والے صدر کو آئین میں ازخود ترمیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ آئین کی تشریح کا اختیار اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہے اور اس کا سہارا لے کر من چاہی تشریح کی جاتی رہی ہے۔ کبھی نظریہ ضرورت تو کبھی کچھ۔ بہت اچھے جج بھی گذرے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اختیارات میں توسیع کے نشے اور اپنی ذاتی اور خاندانی مفادات کے تحت ہماری عدلیہ کے معزز جج فوجی حکومتوں کے تحفظ کے لیے ہمیشہ موجود رہے۔ اگر جج ہمت کرتے تو کسی کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی ہمت نہ ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ مراعات حاصل کرنے میں پاکستان کی عدلیہ کا نمبر پانچواں اور انصاف کی فراہمی میں پاکستان کی عدلیہ 128 ویں نمبر پر ہے۔ اس رینکنگ میں سارا قصور عدلیہ کا بھی نہیں بلکہ ایگزیکٹو بھی اس میں برابر کی ذمہ دار ہے۔
آئینی اور قانونی معاملات اس عدلیہ کے سامنے بھی موجود ہیں، ایک کے بعد دوسرا بنچ ٹوٹ رہا ہے۔ پیر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک تین رکنی بنچ دوبارہ سے دو صوبائی اسمبلیوں کی تاریخ کے حوالے سے پی ٹی آئی کی درخواستوں پر اپنی سماعت کا آغاز کرے گا جس کے بارے میں ن لیگ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ ان تین ججوں کے فیصلے کو قبول نہیں کرے گی۔ سیاسی اکھاڑہ کیا کم تھا کہ عدلیہ کے اندر بھی دنگل شروع ہو گیا ہے۔ عدلیہ میں موجود تقسیم اب سب کے سامنے ہے اور ان حالات میں اگر کوئی اہم فیصلہ کیا جائے گا تو اس پر انگلیاں ضرور اٹھیں گی۔
جہاں تک انتخابات 90 روز میں کرانے کا سوال ہے تو آئین اور قانون کو ماننے والا کوئی بھی شخص اسکی مخالفت نہیں کر سکتا۔ میرا استدلال تو یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر ہوں۔ بہت سے ممالک ہیں جہاں پر مختلف اوقات میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کا موقف اس حوالے سے درست ہے۔ انتخابات کو ملتوی کریں یا کچھ اور سامنے آئے لیکن اس معاملے پر تحریک انصاف کی قانونی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آئے یا خلاف دونوں میں اس کا سیاسی فائدہ ہے اس لیے تحریک انصاف کو بھی فل بنچ کے مطالبے کی حمایت کرنی چاہیئے۔
یہ آج کی پوزیشن ہے لیکن یہ مکمل بات نہیں ہے اس سے پہلے کچھ اور کام کرنے ضرورت ہے اور وہ کام ہماری عدلیہ کے بس میں ہے نہ ہی ایگزیکٹو اتنی با اختیار کہ وہ پہل کرے۔کیا اس بات میں کوئی ابہام رہ گیا ہے کہ پروجیکٹ عمران شروع کرنے والے کون تھے۔ کیا اس معاملے کے تہہ تک نہیں جانا چاہیے کہ ڈان لیکس کا مقصد ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ کیا ایک منتخب حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار فوج اور عدلیہ کے پاس تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جو گفتگو سامنے آئی ہے کیا اسے ریکارڈ کا حصہ بنا کر ان تمام کرداروں کا احتساب نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے سیاسی نظام پر شب خون مارا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے اس انٹرویو کو کہاں دفن کریں کہ انتخابات سے قبل انہیں وزیراعظم بننے کی پیش کش ہوئی اور یہ کہا گیا کہ وہ نواز شریف سے بغاوت کریں۔ ان کے ساتھ کابینہ تک ڈسکس ہوئی۔ کیا یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ وہ کس قانون اور آئین کے تحت ملک کی قسمت کا فیصلہ کر رہے تھے اور کیا آئین میں ترمیم کر کے طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں کہ جگہ کچھ اور نہیں لکھا جانا چاہیے۔ کیا ان سب کرداروں جنہوں نے آئین کے بے حرمتی کی اور عوامی مینڈیٹ کو زمین بوس کر کے عوامی خواہشات کی بجائے اپنی خواہشات کی تکمیل کی ان سے جواب دہی کا عمل شروع نہیں ہونا چاہیے۔ جو خرابی ان لوگوں نے کی کیا نظام کو ایک بار پھر سے واپس اس مقام پر نہیں لانا چاہیے جہاں عمران خان سے محبت کرنے والے جرنیلوں نے نقب لگائی تھی۔ کیا عوام کے ٹیکسوں سے کسی سیاسی جماعت کا بیانیہ بنانے اور ایک شخصیت کو ہیرو بنانے والوں سے سرزنش نہیں ہونی چاہیے۔ ادھوری بات نہیں مکمل بات کرنے کے لیے حوصلہ اور جرات درکار ہے جو اس حکومت میں بالکل بھی نہیں ہے۔ جنرل فیض کے خلاف تحقیقات کا اشارہ وزیر داخلہ نے دیا ہے کیا وہ یہ اعلان بھی کریں گے کہ ان تمام جرنیلوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی جنہوں نے پروجیکٹ عمران خان شروع کیا ہے اور اسے مکمل کیا۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو والی روش نہیں چل سکتی۔ ویسے بھی بھان متی کے اس کنبے سے کوئی امید نہیں ہے۔
جسٹس وقار شیخ اللہ ان کی مغفرت کرے انہوں نے جو فیصلے دیے اس کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ انہیں سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا گیا۔ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ہوئے انہیں سپریم کورٹ میں یہ درخواست دینا پڑی کہ ان کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ انہیں یہ استدعا کرنا پڑی کہ سینیارٹی اور میرٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے تعیناتی ان کا حق ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے ان سے جونیئر جج کی عدالتِ عظمی میں تعیناتی آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہ وہی جج تھے جنہوں نے ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ 70 سے زیادہ افراد کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف تمام درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔جسٹس سیٹھ نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کے بڑے منصوبے بی آر ٹی یا بس ریپڈ ٹرانزٹ کے بارے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے کو حکم دیا تھا کہ اس بارے میں انکوائری مکمل کریں اور رپورٹ 45 دنوں کے اندر پیش کریں۔جسٹس وقار سیٹھ اس خصوصی عدالت کے بھی رکن تھے جس نے سابق صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی تاہم اس فیصلے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو ہی کالعدم قرار دے دیا اور یہ فیصلہ اپنی موت آپ مر گیا لیکن عدالتی تاریخ میں جسٹس وقار سیٹھ کا نام ہمیشہ کے لیے درج ہو گیا۔ اس فیصلے کا پیرا گراف 66 بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے۔
پیراگراف 66 میں بینچ کے سربراہ جسٹس سیٹھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ جنرل مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔پیراگراف 67 میں اپنے اس حکم کی توجیہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا، اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عملدرآمد ہو گا یا نہیں اور کیسے ہوگا۔حکومتی وزرا نے جسٹس وقار سیٹھ کو پاگل شخص قرار دیا، واقعی وہ پاگل تھا ورنہ یہ فیصلہ تحریر کرتا۔ آج جسٹس سیٹھ وقار اور پرویز مشرف دونوں اس دنیا میں موجود نہیں لیکن تاریخ کی درست سمت کون کھڑا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ 2017 میں تحریک لبیک کا اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کا ازخود نوٹس سپریم کورٹ نے لیا اور اسی دھرنے سے نئے معانی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کا فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ’پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان وزارتِ دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے‘۔فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے لیے فوج کے کردار پر اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت عدالت نے کہا تھا کہ فیض آباد دھرنے میں آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیض حمید نے کیسے معاہدہ پر دستخط کیے؟ باوردی فوجی افسر کی دھرنے کی شرکا کو پیسے تقسیم کرنے کی تصویر نے پوری دنیا کو دکھایا کہ پاکستان میں طاقت کا سر چشمہ کون ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کیا ہوتا، الٹا جنرل فیض کو ترقی مل گئی اور انہیں آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ جسٹس فائز عیسی اور ان کے خاندان کو دو برس تک عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑی۔ آج چیف جسٹس عمر عطا بندیال یہ فرماتے ہیں کہ معزز جج جسٹس مظاہر علی نقوی کی آڈیو ٹیپس آنے کے بعد انہوں نے انہیں اپنے بنچ میں بٹھا کر کچھ قوتوں کو پیغام دیا تھا۔ مائی لارڈ کس کو پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔
مائی لارڈ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ناموں کی فہرست خاصی طویل ہے، آپ کی عزت ایک قابل جج کے طور پر موجود ہے اور ہر فرد کی خواہش ہو گی کہ تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے۔ نواز شریف، شہباز شریف اور عمران خان اپنا اپنا سیاسی کھیل رچا کر بیٹھے ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کے کندھوں پر بڑی ذمہ داری ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ پیر کا سورج نوید لے کر طلوع ہو گا۔ عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے آپ ہر ممکن وہ کام کریں جس سے یہ تاثر ختم ہو کہ جج ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں اور عدلیہ میں ایک واضح تقسیم موجود ہے۔ جب ہر روز اس تاثر کو تقویت مل رہی ہو کہ یہ تحریک انصاف کی جج ہیں اور یہ مسلم لیگ کے تو پھر انصاف ہوتا ہوا کیسے نظر آئے گا۔
برادر بزرگ ارشاد امین سے انتہائی ادب سے گذارش ہے کہ عدلیہ کی اچھی روایات کے حوالے سے بھارتی جج کی مثال اپنی جگہ پاکستان کے پاس بھی ایسے جج موجود ہیں جن کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ارشاد امین صاحب ہمارے پاس اچھی اور بری مثالیں بکثرت موجود ہیں۔

تبصرے بند ہیں.