گزرا ہوا ہر لمحہ ماضی بنتا جاتا ہے اور ماضی بڑا سنگدل ہوا کرتا ہے۔ یہ اگر روئے تو رلاتا چلا جاتا ہے اور ہنسائے تو ہنساتا چلا جاتا ہے۔ غرض کہ اس کو واپس نہیں آنا ہوتا۔ گزرے ہوئے لمحات کی جب ورق گردانی کرنے لگتا ہوں۔ تو آج سے ٹھیک 35 سال قبل مینار پاکستان کے سائے تلے ایک خون چکاں واقعہ پیش آیا جس تاریخ کو ہمارے آبا و اجداد نے آج سے پورے 76 سال پہلے اس مینار کے سایہ تلے جمع ہو کر اسلام اور پاکستان کی عظمت و رفعت کے تحفظ کی قسم کھائی تھی۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ 23 مارچ 1987 کو دشمنان اسلام اور نظریہ پاکستان کے مخالفوں نے مینار پاکستان قرب لچھمن سنگھ کے چوک میں جمعیت اہلحدیث کے جلسہ عام میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا ٹائم بم کا دھماکہ کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تشدد کی ایک نئی مثال قائم کی جس کے نتیجے میں عالم اسلام کی عظیم شخصیت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ سمیت علامہ حبیب الر حمن یزدانی، مولانا عبد الخالق قدوسی اور مولانا محمد خان نجیب جیسے راسخ العقیدہ علمائے کرام اور دیگر دینی علم کی تڑپ رکھنے والے علما کرام لقمہ اجل بن گئے۔ جمعیت اہل حدیث اور شہدا کے سپہ سالار علامہ احسان الٰہی ظہیر اس وقت اپنی خطابت کے جوہر دکھا رہے تھے اور یہ شعر انکی نوک زبان پر تھا۔ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ/ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ گویا اس مرد مومن نے بے تیغ لڑنے کی نہ صرف مثال قائم کی بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا۔ دیو بند عالم دین و محقق مولانا یوسف بنوری (مرحوم) نے شاہی مسجد کے باطل شکن اجتماع میں علامہ مرحوم کی خطابت کی جلوہ سامانیوں اور بگڑتے ہوئے حالات پر قابو پانے کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں پر آفرین کہتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اللہ کا شیر ہے۔ جسے اللہ تعالی نے دین کی خدمت کیلئے چن لیا ہے۔ علامہ شہید شیخ برادری کے مشہور سیٹھی خاندان میں 1940 میں پیدا ہوئے۔ والد بزرگوار حاجی ظہورالٰہی رحمہ اللہ عقیدہ توحید کے سپاہی نیک تہجد گزار بزرگ تھے۔ والد بزرگوار نے اپنے اس ہونہار برخوردار کو پہلے کسی سکول میں تعلیم نہیں دلائی بلکہ سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کرایا جو کہ علامہ نے 9 سال کی عمر میں مکمل کر لیا تھا۔ اس کے بعد گوجرانوالہ کے مشہور مدرسہ جامعہ اسلامیہ میں داخل کرایا جہاں انہوں نے جید اور نامور علما کرام
سے دینی علوم حاصل کیے۔ علامہ شہید نے ان سے کتب حدیث کی تعلیم حاصل کیے علامہ شہید کو انکی دامادی کا بھی شرف حاصل ہوا۔ مولانا ابو البرکات مدراسی رحمۃ اللہ سے صحیح بخاری پڑھ کر سند فراغت حاصل کرنے کے بعد دینی علوم کی اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کرنے کیلئے 1963 میں مدینہ کی بین الا قوامی یونیورسٹی الجامع الاسلامیہ میں داخلہ لیا۔ وہاں چار سال تک الشیخ فنقیطی امام العصر الحافظ محمد المحدث گوندلوی اور دوسرے علما کرام سے حدیث و تفسیر کا کسب کمال حاصل کیا۔ جامعہ سلفیہ اور مدینہ یونیورسٹی کی شہادت العالمیہ کے علاوہ آپ نے ایم اے اردو، ایم اے اسلامیات، ایم اے سیاسیات، ایم اے فلسفہ اور ایم او ایل (قانون) کی تعلیم بھی حاصل کی۔ انکی ذہانت و فطانت کا یہ عالم تھا کہ مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوتے ہوئے اپنے فاضل شیوخ کو قادیانت پر لیکچر دیتے رہے۔ پھر جب انکی پہلی کتاب ”القادنیت“ اشاعت کیلئے بھیجی گئی تو ادارہ کے مدیر نے کتاب کا مطالعہ کر کے رائے دی کہ اگر مصنف کے آگے فاضل مدینہ یونیورسٹی لکھ دیا جائے تو انکی کتاب کو چار چاند لگ جائیں گے۔ علامہ نے کہا کہ میں اپنے آپ کو فاضل مدینہ یونیورسٹی کیسے لکھ سکتا ہوں میں تو ابھی زیر تعلیم ہوں۔ لیکن جب یہ بات وائس چانسلر فضیل الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ تک پہنچی تو انہوں نے یونیورسٹی کی گورننگ باڈی سے مشورہ کر کے اسکی اجازت دے دی۔ علامہ مرحوم نے شیخ الجامعہ سے مشورہ کیا کہ اگر میں فیل ہو گیا تو آپکی اس اعلیٰ ڈگری کا کیا بنے گا۔ فضیل الشیخ نے کہا کہ پھر ہم یونیورسٹی بند کر دیں گے۔ 1967 کو مدینہ یونیورسٹی سے اعلیٰ ڈگری حاصل کر کے وطن واپس آئے تو مولانا محمد اسماعیل سلفی نے یکم ستمبر 1967 کو مسجد چنیانوالی کے منبر و محراب کا وارث بنا دیا۔ علامہ شہید نے 1968ء میں سیاست میں قدم رکھا اور بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس میں اپنے خطاب میں فرماتے ہیں۔ ہمیں بزدل ماؤں نے جنم نہیں دیا۔ ہمیں ان ماؤں نے جنم دیا ہے کہ اگر میں سرور کائنات ختم المرسلینؐ کیلئے پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جائے یا سولیوں پر چڑھایا جائے تو ہماری مائیں ماتم نہیں کریں گی بلکہ پلٹ کر کہیں گی کہ دیکھو ہمارے بیٹے زندہ کبھی خطیب تھے، مرنے کے بعد بھی منبر پر چڑھے ہوئے ہیں۔ کلمہ حق کہنے پر آئے تو نہ جنرل ایوب کا رعب داب آڑے آ سکا نہ ذوالفقار علی بھٹو اور کھر“ کی سخت گیری سے دبے اور نہ جنرل ضیا کو پلے باندھا، جو کہنا ہوتا تھا بے خوف کہہ دیتے۔ جب مئی 1974ء میں قادیانیوں کی شرارت کی وجہ سے تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو جماعت اہلحدیث نے آپ کی قیادت میں دوسری مذہبی جماعتوں کے دوش بہ دوش کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے اپنی تصانیف میں خداداد ذہانت و فطانت سے وہ جوہر و یا قوت کے موتی بکھیرے ہیں کہ جنہیں پڑھ کر علوم دینیہ کے شائقین قلبی اطمینان اختیار کیے ہوئی ہیں۔ علامہ مرحوم کی تمام تصانیف کا موضوع ”فرق“ ہے اور آپ نے اپنی قلیل زندگی میں ہر فرقہ کی تصانیف سے ان کے افکار و عقائد پر بحث کی ہے۔ علامہ شہید کی تصانیف اردو، عربی، انگریزی اور فارسی زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ نے جماعت اہلحدیث کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ان میں حرکت کی روح پھونکی۔ قلعہ لچھمن سنگھ کے چوک میں منعقدہ جمعیت اہلحدیث کے جلسہ عام میں جو بزدلانہ کارروائی کی گئی اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اس المناک حادثہ میں علامہ مرحوم کی بائیں ٹانگ اور دایاں بازو شدید زخمی ہوئے تھے مگر علامہ شہید کا صبر و تحمل دیکھ کر یہ امید بندھی تھی کہ آپ ان شاء اللہ تعالی صحت یاب ہو جائیں گے۔ علامہ صاحب لاہور کے میو ہسپتال میں زیر علاج تھے کہ سعودی فرماں روا شاہ فہد بن عبد العزیز مرحوم اور عراق کے صدر صدام حسین مرحوم کی طرف سے علاج کی پیشکشیں ہوئیں۔ شاہ فہد بن عبد العزیز مرحوم نے تو ساتھ ہی خصوصی طیارہ بھی روانہ کر دیا اور اس طرح علامہ شہید رحمۃ اللہ کو مورخہ 28 مارچ 1987 کو ریاض کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا جہاں معالجین کی خصوصی ٹیم نے آپ کا معائنہ کیا لیکن چونکہ آپ کے پورے جسم میں بم کا زہریلا مواد سرایت کر گیا تھا اس لیے آپ 30 مارچ 1987ء کو انتقال کر گئے۔ سعودی عرب میں آپ کا سرکاری طور پر سوگ منایا گیا اور آپ کی نماز جنازہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ نے پڑھائی اور پاکستان کے تمام شہروں دیگر ممالک میں غائبانہ نمازہ ادا کی گئی آپ جنت البقیع کے قبرستان میں صحابہ کرام کے ساتھ مدفون ہیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.