”عوام زندہ باد“

68

امیروں اورکبیروں کاکیا۔؟ان کاتوٹائم پہلے بھی سکون سے پاس ہورہاتھااوراب بھی پاس ہورہاہے لیکن ایک ایک وقت کی روٹی کے لئے دردرکی ٹھوکریں کھانے والے غریبوں کاٹائم کیسے پاس ہوگا۔؟غریبوں پرتوروٹی کی تلاش میں ایک ایک لمحہ پہلے ہی قیامت بن کرگزررہاتھااب قیامت کی ان گھڑیوں میں ان کاکیابنے گا۔؟ ہمارے ان سارے بڑوں اوران کے ساتھیوں ودوستوں کوتوہرجگہ سے ریلیف مل ہی جائے گالیکن غریب عوام کو ریلیف کہاں سے ملے گا۔؟نفسانفسی کے اس دورمیں آج بھی اس ملک کے اندر ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ نوازشریف، شہباز شریف، آصف زرداری، مولانافضل الرحمن، عمران خان، سراج الحق اورچوہدری شجاعت زندہ بادکے نعرے لگارہے ہیں لیکن سوال صرف یہ ہے کہ ”عوام زندہ باد“کانعرہ کون لگائے گا۔؟ لیڈروں اورسیاستدانوں کی سیاست وحکومت کے لئے توعوام جان کی بازی لگادیتے ہیں لیکن عوام کے حقوق اورمفادات کے لئے جان کی بازی کون لگائے گا۔؟اس سوال کاجواب آج بھی کسی کے پاس نہیں۔ جن کے لئے عوام لڑتے،جھگڑتے اور مرتے ہیں وہ سیاستدان اورلیڈرانہی عوام کے لئے کیاکرتے ہیں یہ سب دنیاکے سامنے ہے۔ ملک اس وقت تاریخ کے مشکل دورسے گزررہاہے یا نہیں لیکن یہ پوری دنیاکوپتہ ہے کہ کمرتوڑ مہنگائی اور معاشی بدحالی کے باعث اس دیس میں رہنے والے بائیس کروڑ عوام اس وقت مشکل کیا مشکل ترحالات سے گزرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی کمرتوڑکررکھ دی ہے،دوکی جگہ ایک روٹی پر گزارہ کرنے والے عوام کوبڑھتی مہنگائی کے باعث اب جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ چھ سات سوروپے والے آٹے کے تھیلے کا بارہ سو روپے تک پہنچنا شائد کہ یہ وزیراعظم شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اورعمران خان کے لئے کوئی بڑی بات نہ ہولیکن ماہانہ بیس سے تیس ہزارروپے میں پوراگھرچلانے اور خاندان پالنے والے غریبوں کے لئے یہ کسی قیامت سے کم نہیں۔ پھر صرف ایک آٹا نہیں، یہاں چینی، گھی، دال، دودھ، پٹرول، سبزی اورچاول خریدتے ہوئے غریب لوگ ہرروز قیامت پر
قیامت سے گزررہے ہیں۔ اب تویہاں ہردن اورہررات غریبوں کے لئے قیامت ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قیامت میں بھی انسانیت کو چھوڑ اور بھول کر سیاست سیاست کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ لوگ بھوک سے مررہے ہیں مگر لیڈروں، سیاستدانوں اورحکمرانوں میں کسی کواس کی کوئی پروا نہیں۔ عمران خان سے لیکر مولانا تک ہر لیڈر اور سیاستدان کو صرف اور صرف اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے۔ ساڑھے تین چارسال تک ملک وقوم سے کھیلنے والے عمران خان آج بھی اس فکروکوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ اسے دوبارہ اقتدار کیسے ملے۔ اس مقصدکے لئے خان صاحب نے زمان پارک میں خیمے وتمبولگاکراس وقت پورے ملک کو تماشا بنایا ہوا ہے۔ اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کے لئے کپتان اگرہزاروں کارکنوں کو زمان پارک میں جمع کرسکتے ہیں توکیاوہ مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کے خلاف چندلوگ اکٹھے نہیں کر سکتے۔؟ جوجدوجہداورکوششیں وہ دوبارہ اقتدارمیں آنے کے لئے کررہے ہیں کیااس طرح کی جدوجہد اور کوششیں وہ عوام کومہنگائی سے نجات اورریلیف دینے کے لئے نہیں کرسکتے۔؟ مولانا اینڈکمپنی کو تواب اقتدارکے بچاؤکی کوششوں اورسوچ سے فرصت نہیں۔لگتاہے مولاناجی کے ہاں کل تک جومہنگائی حرام تھی اب وہ بھی حلال ہوگئی ہے کیونکہ سال سے زیادہ ہونے کوہے کہ مولانا صاحب کی طرف سے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خلاف کوئی مارچ ہوااورنہ کوئی ملین مارچ۔ آصف زرداری کی تو بات ہی الگ ہے وہ تو جوڑتوڑ کی سیاست سے فارغ ہی نہیں ہوتے۔ ایسے میں عوام کس کی طرف دیکھیں یاکس سے امیدیں باندھیں فی الحال ایسی کوئی امیداور روشنی تو کہیں نظرنہیں آ رہی۔ جہاں سیاست انسانیت پرغالب ہووہاں پھرعوام کااسی طرح کچھ نہیں ہوتا۔دوسری بات جہاں صرف لیڈر،سیاستدان اورحکمران زندہ بادکے نعرے لگتے ہیں وہاں پھرعوام پیچھے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔اس ملک میں بھی لیڈر،سیاستدان اورحکمران زندہ بادکے اتنے نعرے لگ چکے ہیں کہ اب عوام کسی کو یاد نہیں۔ اپنی ذات، مفاد اور سیاست کے لئے عوام عوام توسب کرتے ہیں لیکن جب عوام کی ذات اورمفادکی بات آتی ہے تو پھر شہبازشریف سے آصف زرداری اورعمران خان سے مولاناتک سب اندھے،گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں۔ان لیڈروں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ عوام کے ساتھ ہاتھ کیا پر افسوس یہ عوام ان لیڈروں اور سیاستدانوں کوپھربھی پہچان نہ سکے۔آج بھی کمرتوڑ مہنگائی، غربت اوربیروزگاری کے باعث اکثر گھروں میں فاقے اورکئی کے چولہے بجھے ہوئے ہیں لیکن نادان پھربھی روٹی،کپڑا،مکان اورعوام زندہ بادکاایک نعرہ لگانے کے بجائے عمران، شہباز، زرداری اور مولانازندہ بادکے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔ کہتے ہیں بچہ جب تک روئے ناماں اسے بھی دودھ نہیں دیتی۔زمان پارک، رائیونڈ اور بلاول ہاؤس کے گردجمع ہو کر عمران، شہباز اور بھٹوزندہ بادکے نعرے لگانے والے جب تک ”عوام زندہ باد“ کانعرہ نہیں لگائیں گے تب تک یہ مہنگائی کم ہوگی اورنہ ہی اس ملک سے غربت اوربیروزگاری کاکبھی خاتمہ ہوگا۔عوام نے لیڈروں اورسیاستدانوں کے بارے میں بہت سوچا۔ اب ایک منٹ کے لئے انہیں اپنے اوراپنے بچوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ آج جو لوگ زمان پارک کے گرد جمع ہو کر یہ فلاں زندہ باد اور فلاں مردہ بادکے نعرے لگارہے ہیں،انڈے اورڈنڈے کھارہے ہیں۔یہ کام توانہوں نے پہلے بھی کیابلکہ ان کے آباؤاجدادنے بھی کیا۔سوچنے کی بات ہے کہ بدلے میں انہیں کیا ملا۔؟ چالیس نہیں بچاس سالہ تاریخ اٹھاکردیکھیں سیاسی پارٹیوں، لیڈروں اورسیاستدانوں کی خاطر ڈنڈوں پرڈنڈے ہمیشہ عوام نے ہی کھائے، جیلوں اورتھانوں میں بھی یہ گئے،پرچے بھی ان پرکٹے،انتقامی سیاست میں پرخچے بھی ان ہی کے اڑائے گئے لیکن بدلے میں انہیں پھربھی مہنگائی، غربت،بیروزگاری اوربھوک وافلاس کے سوا کچھ نہیں ملا۔آج کپتان کی محبت اورعشق میں یہ جوزمان پارک کے اردگردناچ ناچ کر پاگل ہورہے ہیں کل کوعمران خان اگر اقتدار میں آئے بھی توبھی انہیں مہنگائی، غربت، بیروزگاری اوربھوک وافلاس سے زیادہ کچھ نہیں ملے گا۔ اس لئے فلاں زندہ باداورفلاں مردہ بادکے نعرے لگا کر اپنے گلے خشک کرنے کے بجائے تمام سیاسی پارٹیوں کے کارکن اور سارے لیڈروں وسیاستدانوں کے پیروکار اگر ایک۔ہاں صرف ایک بار اجتماعی طور پر ”عوام زندہ باد“ کا نعرہ لگا دیں توشائدنہ صرف اس قوم بلکہ اس ملک کابھی کچھ بن سکے۔

تبصرے بند ہیں.