کہیں خواب بکھر نہ جائیں

19

جب ملک عزیز وجود میں آیا تو لوگوں نے سہانے خواب دیکھنا شروع کر دیئے ان کے سیاسی رہنماؤں نے جو ان سے کہا وہ اس پر مکمل یقین کرنے لگے ان کے ذہنوں میں رتی بھر بھی شک موجود نہیں تھا۔ انہیں لگ رہا تھا کہ بس اب جلد ہی ان کی مشکلات ختم ہونے والی ہیں زندگی جو ہجرت کرتے وقت اذیت ناک ہو گئی تھی اس کو سکون و راحت میسر آنے والے ہیں۔ ان کے بچوں کو روشن مستقبل ملنے ہی والا ہے۔ اس طرح کے اور سپنے ان کی آنکھوں میں سج رہے تھے۔جوں جوں
وقت اپنی مخصوص چال رہا تھا لوگ ہجرت کی صعوبتوں کو دھیرے دھیرے بھول رہے تھے مگر انہیں یہ بھی احساس ہونے لگا تھا کہ جو خواب دیکھے گئے ہیں ان کے پورا ہونے کا ابھی آغاز تک نہیں ہوا مگر تب بھی آس و امید سے بھری آنکھیں طویل عرصہ تک منتظر رہیں پھر یہ ہوا کہ لوگوں نے سوچنا شروع کر دیا سوالات جنم لینے لگے۔ ان کے سیاسی قائدین انہیں حوصلہ دینے لگے وعدے کرنے لگے سبز باغ دکھانے لگے مگر سپنے‘ سپنے ہی رہے۔ حالات بدل نہیں رہے تھے۔ مسائل و مشکلات آکاس بیل کی طرح بڑھتے جا رہے تھے۔ ان کے حکمران خاموش تھے۔ حکومت کوئی بھی آتی ان کے دن نہیں پھر رہے تھے ایک مسئلہ حل ہوتا تو دو اور پیدا ہو جاتے مگر کسی بھی با اختیار و اقتدار کو اس کا کوئی غم نہیں تھا اسے اپنی کرسی کی فکر تھی اپنے بچوں کے لیے مال اکٹھا کر کے اسے محفوظ بنانا مقصود تھا لہٰذا یہ سلسلہ جاری رہنے سے قومی خزانہ بے چارا کیا کرتا پریشان رہنے لگا۔
ہمارے بڑوں نے اپنے لیے تو بہت کچھ کر لیا مگر عوام جو کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے چلے آرہے تھے انہیں خزاں کی آغوش میں ہی رہنا پڑا۔ وہ ہر حاکم سے یہ سوچ کر چمٹتے رہے کہ وہ ان کو غربت و افلاس سے نجات دلائے گا مگر معاملات تو کچھ اورتھے وہ اقتدار میں آتے تو مشروط مغرب کی ڈکٹیشن لے کر نظام حیات چلاتے اور جب کبھی ان کی لائن آف ایکشن سے پیچھے ہٹتے تھے تو اقتدار سے محروم ہو جاتے پھر کچھ عرصہ کے بعد اختیارات کے تخت پر متمکن ہوتے
انہیں عوام کی نہیں بڑی طاقتوں کی مرضی و منشا کو ملحوظ رکھنا ہوتا لہٰذا جب ہم دوسروں کے مزاج کو برہم نہ ہونے دینے کا خیال رکھتے رکھتے اقتصادی بحران سے دو چار ہو گئے ہیں تو ہماری آنکھ کھلی ہے۔
بہرحال اس وقت مہنگائی ہی نہیں بہت سی دوسری پریشانیاں عام آدمی کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں ہر طرف چیخ و پکار ہے خون واقعتا سفید ہو چکے ہیں کوئی کسی سے ہمدردی نہیں رکھتا ہر کوئی اپنے فائدے کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے انسانی اقدار کو یکسر انداز کر دیا گیا ہے۔ قانون کیا ہوتا ہے آئین کیا تقاضا کرتا ہے اس سے کوئی غرض نہیں رہی جو طاقتور ہیں ان کے لیے آسائشیں بھی ہیں آسانیاں بھی ہیں اور مراعات بھی مگر عام لوگ بلک رہے ہیں رو رہے ہیں ان کی فریاد اہل اختیار تک نہیں پہنچ پا رہی اگر پہنچتی بھی ہے تو وہ الو باٹے قرار دے کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس شعوری دنیا میں ان کو کیوں اہمیت نہیں دی جا رہی جبکہ وہی کارخانے چلاتے ہیں کھیتوں میں اناج اگاتے ہیں فیکٹریاں متحرک رکھتے ہیں ، عمارتیں بناتے ہیں اور سڑکیں بچھاتے ہیں ان کے اس عمل کو تحسین کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا گیا بس انہیں ہمیشہ بیوقوف بنانے کی طرف توجہ دی گئی اور اگر وہ نہیں بنے تو ان کو ماتھے پر تیوری دکھا کر بیوقوف بننے پر مجبور کیا گیا۔
بہر کیف اب وہ اپنے حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں پہلے تو محکمانہ طور سے سرکاری ملازمین سڑکوں پر آتے تھے اب عوام بھی ایسا کرنے لگے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ پچھہتر برس تک وہ اس آس میں رہے ہیں کہ ان کو انصاف، روزگار اور بنیادی حقوق بلا تفریق فراہم کیے جائیں گے مگر حالت یہ ہے کہ حکمران ان کی جمع پونجیاں بھی نہیں چھوڑ رہے۔ کیا خزانہ بھرنا غریب عوام کی ذمہ داری ہے کہ جسے ہر حکمران نے اپنے استعمال میں لا کر اس کو کسی غریب کے گھر کی طرح اجاڑ دیا لہٰذا ہونا تو یہ چاہے تھا کہ حکمران طبقات اپنے سرمایے کو کم ازکم پچاس فیصد ملکی خزانے میں منتقل کر دیتے۔ جب وہ عوام کا درد رکھتے ہیں تو انہیں اس مشکل گھڑی میں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تھا۔
وہ کیوں آئی ایم ایف سے قرضہ مانگ رہے ہیں اور وہ سکول نہ جاتے ہوئے بچے کی طرح ”اڑی“ کر رہا ہے کہ یہ بھی بات مانو یہ بھی شرط تسلیم کرو ایک بار یہ سب خزانہ بھر لیتے تو ملک کی معیشت پٹڑی پر آسکتی تھی مگر ایسا کون کرے سب طفل تسلیاں دیتے ہیں اب تو عوام کی طرح خود حکمران کہنے لگے ہیں کہ دیکھیں جی مہنگائی بہت ہو گئی ہے انصاف بھی مہنگا ہو گیا ہے، بیروزگاری بڑھ گئی ہے۔ رشوت کے دام سو گنا ہو گئے ہیں وغیرہ وغیر۔
یہ کیسی سیاست ہے اور کیسی حکمت عملی ہے۔حکومت مسائل بتاتی نہیں حل کیا کرتی ہے یہ سچ ہے کہ اب حالات بے قابو ہو گئے ہیں کسی ایک سے ان پر قابو پانا ممکن نہیں رہا تو پھر کیوں فریقین باہم مل بیٹھ نہیں جاتے کیوں ایک دوسرے سے نفرت کر رہے ہیں ہماری وزیراعظم سے گزارش ہے کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کو مسائل کے خاتمے کے لیے دعوت دیں۔ اگرچہ ان کا مطالبہ ہے کہ انتخابات کروائے جائیں مگر اس کے باوجود وہ مسائل کے حل کی طرف بڑھیں۔ خان صاحب بھی لچک پیدا کریں انتخابات آخر کار ہونے ہی ہیں لہٰذا جب تک قومی اسمبلی موجود ہے وہ صورتحال کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں۔ حکومت بھی سیاسی پکڑ دھکڑ سے متعلق غور کرے اس سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا کیونکہ اب بات ”پنچائیتیوں“ تک پہنچ چکی ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم اپنے معاملات خود نمٹائیں یہاں ہم یہ بھی عرض کر دیں کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں اس کی قیادت محض جذبات ہی رکھتی ہے اس نے ابھی تک اپنا منشور عام نہیں کیا پھر یہ جو معیشت ہے اسے مضبوط اور اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈر کا تعاون چاہیے ہوگا لہٰذا پی ٹی آئی اقتدار میں آبھی جاتی ہے تو اس سے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے اور پھر عوامی حمایت بھی اس طرح کی حاصل نہیں ہو گی جو آج اسے حاصل ہے۔
حرف آخر یہ کہ ان لوگوں کو ان غریبوں کو ان کمزوروں کو اب مزید اذیتوں سے بچانے کے لیے اہل اختیار نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو بھلا کر بغلگیر ہو جائیں کیونکہ حسین خواب دیکھنے والی آنکھیں تھک گئی ہیں انہیں مایوسی نے اپنے حصار میں لے لیا ہے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسی صورت میں آخرکار ان میں ایک ایسی چمک در آتی ہے کہ جس کا سامنا تخت پر بیٹھے حکمران نہیں کر پاتے اور پھر منظر بدل جاتے ہیں پس منظر بدل جاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.