ماہ مقدس رمضان کی آمد قریب ہے۔ آج ہمارا ملک جن اندرونی و بیرونی خلفشار اور بدانتظامی، کرپشن، بے روزگاری، جہالت، عدم تحفظ، بدامنی، فرقہ واریت ، تعصب، اقرباءپروری، علاقائیت و دیگر برائیوں و مسائل کا شکار ہے اسکا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے رب کو راضی کرلیں۔ رب راضی تو سب راضی کے مصداق ہماری تمام تر پریشانیوں کا حل اپنے مالک کو منانے اور توبہ استغفار کرنے میں ہے۔ خاص کر رمضان المقدس جیسے مہینے کے آغاز سے پہلے ہی تمام مسلمانوں کو چار گناہ کبیرہ سے توبہ کرنی چاہئے کیوں کہ جو شخض ان گناہوں میں مبتلا ہے اس کی اس ماہ مقدس کے باعث بھی بخشش نہیں ہوتی جن میں والدین کا نافرمان، شراب نوشی کرنے والا، قطع رحمی اور قطع تعلقی کرنے والا اور بغض اور کینہ رکھنے والا۔ آج اگر ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو ہم میں سے اکثر شراب نوشی کے علاوہ دیگر تین گناہوں میں مبتلا ہیں جس کے باعث ہمارا عمل اللہ قبول نہیں کرتا۔ والدین کے آگے اولاد کو اف تک کہنے کا حکم نہیں ہے۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت بتائی گئی ہے۔ لیکن آج ہمارے نام نہاد تعلیمی اداروں میں جو تعلیم دی جارہی ہے وہ والدین کے فرمانبرداروں کی بجائے نافرمان پیدا کررہے ہیں۔ مغربی تعلیم کے ایجنڈے میں کیوں کہ والدین کے احترام کاکوئی ذکر نہیں ہے اسلئے ہماری کتابوں میں سے اسلامی اسباق، صحابہ کرام ؓ کے واقعات، اسوہ حسنہ پر مبنی مضامین بتدریج خارج کئے جارہے ہیں۔ دوسرے ہمارے گھروں میں موجود ڈش، کیبلز، کمپیوٹرز، موبائل فون و دیگر خرافات نے اولاد اور والدین کے درمیان ایک خلاء پیدا کردیاہے اولاد کو فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ والدین کی خبرگیری میں دلچسپی لے۔ مذکورہ خرافات نے بچوں کو نماز، روزہ، ذکر و اذکار، والدین کی خدمت، تلاوت وغیرہ جیسے اہم فرائض سے بھی دور کردیاہے۔ ان خرابیوں کے باعث گھروں کا سکون برباد ہوکر رہ گیاہے۔ والدین کے نافرمان ویسے ہی ماہ مقدس کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں اوپر سے روزہ کی حالت میں سحری نہ کھانا، تمام دن سوتے رہنے، نماز کو ضائع کرنا، فلموں اور ڈراموں کے ذریعے وقت کو پاس کرنا، غیبت کرنا، بدنظری کرنا، تراویح تلاوت کا اہتمام نہ کرنا، ایسے گناہ ہیں جو ویسے ہی روزے کی افادیت و ثواب سے ہمیں محروم کردیتے ہیں۔ قطع رحمی اور بغض کینہ ایسے گناہ کبیرہ ہیں جن سے شاید ہی کوئی بچا ہو۔ ہم معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے تعلق ختم کردینے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اس نے ہمیں سلام نہیں کیا، وہ ہماری شادی میں نہیں آیا، اس نے گالی دی، وغیرہ وغیرہ معمولی رنجشوں کے باعث برسوں سے تعلق ختم، دل میں نفرتیں، بغض و کینہ بھرا پڑا ہے۔ حالانکہ ہمارا مذہب تو ہمیں عفو و درگذر کا حکم دیتاہے۔ ہماری یہ نفرتیں نچلی سطح سے لیکر ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں ، علماءکرام، صوبوں، علاقوں ، قوموں، قبیلوں ، شہروں، محلوں ، اداروں تک پھیل گئی ہیں۔ ہم ہر وقت ایک دوسرے کے عیوب ڈھونڈنے اور انہیں اچھالنے میں لگتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا دین ہمیں اپنے عیب دیکھنے اور دوسروں کی اچھائیاں تلاش کرنے کی تاکید کرتاہے۔ ہمارا رب ہمیں پردہ پوشی کا حکم دیتاہے۔ لیکن عام شہری سے لیکر ہمارے حکمرانوں حتی کہ مذہبی جماعتوں کے اکابرین تک کسی کی برائی کو اچھالنے ، اسے نمک مرچ لگاکر پیش کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اگر وہ اپنی ان صلاحیتوں کو عوام کے دکھ درد جاننے اور انہیں حل کرنے ، انصاف، رواداری، ایمانداری، بھائی جارہ، اخوت ، عفوودرگذر پر مبنی معاشرے کی تشکیل کرنے میں صرف کریں تو ہمارے ملک کی آدھی خرابیاں ختم ہوسکتی ہیں۔آج ہم نے نفرتوں کا جو بیج قومیت، علاقائیت، رنگ و نسل، زبان کی بنیاد پر ڈالا ہے وہ دن بدن خطرناک حد تک بڑھتا جارہاہے۔ وہ نہ صرف ہمارے اسلامی تشخص کو اور دنیا و آخرت کو تباہ کر رہا ہے بلکہ ہماری جڑوں کو بھی کھوکھلا کر رہا ہے۔ آج 20کروڑ کی عوام ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث مختلف صوبوں، جماعتوں میں بٹ چکی ہے ہمیں ایکدوسرے کو معاف کرکے یہ سوچنا ہوگا کہ ہم وہ کام اور پالیسی اپنائیں جسمیں ہمارے مذہب، ملک کا فائدہ ہو۔ ہم خدا کیلئے ایک دوسرے کو معاف کریں او ر رمضان کے ماہ سے پہلے اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگ کرکے ایک امتی بن کر زندگی گذاریں ایسا امتی جو پڑوسیوں، بیماروں، غریبوں کے حقوق کا خیال رکھتا ہو جو والدین کا احترم اور بزرگوں کی عزت کرتاہو ، جو دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی بجائے انہیں حقوق دینے والا ہو۔ جو معمولی معمولی باتوں پر کہ اس نے میری دو انچ زمین مار لی، اس نے میرا پانی لگالیا، اسنے مجھے گالی دی، اسنے مجھے ووٹ نہ دیا، قطع تعلقی ، بعض کینہ کرنے کی بجائے ایکدوسرے کے دکھ درد بانٹنے والے بن جائیں۔ ہمیں نیچے سے اوپر تک اس سوچ کو ابھارنا اور پیدا کرنا ہوگا اس سلسلے میں ہمارا میڈیا جو منفی کردار ادا کررہاہے ، کو مثبت سوچ پیدا کرنے کیساتھ ساتھ یہود ونصاریٰ کے چنگل سے اپنے آپ اور حکمرانوں کو نکالنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ بدقسمتی سے رمضان کے ماہ کے آتے ہی ہمارے تاجر حضرات بھی اپنی چھریوں، چاقوں کو تیز کرلیتے ہیں۔ اشیاءضرورت کے نرخ آسمان کو چھونے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ ایمانداری سے تجارت کریں تو ان کا حشر بقول حدیث قیامت کے دن انبیاء، شہداءاور صالحین کیساتھ ہوگا۔ لیکن تاجر حضرات میں سے اکثر ناصرف ذخیرہ اندوزی، کساد بازاری، مصنوعی گرانی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، جھوٹ ، دو نمبر اشیاءکی فروخت جیسے گناہ کبیرہ میں مبتلا ہیں۔ دوسرے روزہ ، نماز تراویح کو چھوڑ کر اس ماہ مقدس کو کمائی کا ذریعہ بناکر گذارتے ہیں۔ ہمارے ان اعمال کے باعث ہماری تجارتی منڈیوں ، بازاروں میں آئے دن حادثات، دھماکے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ہر تاجر روتا او رپریشان حال نظر آتاہے۔ قوم شعیب علیہ السلام پر عذاب صرف اس لئے آیا تھا کہ وہ تجارت میں دھوکہ، جھوٹ سے کام لیتے تھے۔ ہم اپنے نبی کی دعاو¿ں کے باعث اجتماعی عذاب سے تو محفوظ ہیں لیکن ہماری بد اعمالیوں نے ہم پر کرپٹ ، بے ایمان، یہو د و نصاریٰ کے ایجنٹ حکمران گذشتہ 74 سالوں سے مسلط کر رکھے ہیں جو غریبوں کا خون چوس کر اپنی تجوریوں کو بھرنے اور اپنی تجارت، زمینداری اور سیاست کو پراون چڑھانے میں مصروف ہیں ہمیں نیک حکمران اور عدل و انصاف ، مساوات، صلہ رحمی، عفو و درگذر، بھائی چارے پر مبنی معاشرہ اس وقت تک نہیں مل سکتاجب تک ہم بحیثیت مسلمان ان اچھائیوں کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنالیتے۔ ہم حکمرانوں کا رونا روتے ہیں۔ ظلم و ستم ، ناانصافی کی دہائی دیتے رہیں۔ جب تک ہمارا اپنا قبلہ درست نہ ہو گا اللہ کی مددونصرت بھی ہماری طرف متوجہ نہ ہوگی۔ اللہ تعالی ہمیں رمضان کے مقدس ماہ سے پہلے معافی کی اور ماہ مقدس میں بلکہ پوری زندگی نیکی کرنے اور اسلام پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔
تبصرے بند ہیں.