باکمال تصنیف ”آواز دوست“ میں مختار مسعود نے کیا خوب لکھا ہے کہ ”صرف رزق ہی نہیں کچھ کتابیں بھی ایسی ہیں جن کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آ جاتی ہے“ ہمارے کتب خانے ایسی انگنت کتابوں سے اٹے پڑے ہیں۔جنہوں نے ہماری نسلوں کو اُن رستوں پر ڈال رکھا ہے جہاں سے راہ پر آتے آتے بھی ہمیں دہائیوں کا سفر درکار ہوگا۔ عدل سیاسی مسئلہ نہیں مستقل اخلاقی مطالبہ ہے جس سے کسی صورت انسانی فطرت دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔ انسانی معاشروں سے جہالت کی ہجرت کے بغیرعلم کی گنجائش کسی طور ممکن نہیں۔مصائبِ وقت اور مفاسدِ زمانہ سے بچنے کی راہ ٗ کسی عارضی یا جزوی تدبیر سے کسی طرح ممکن نہیں بلکہ کسی مخصوص گروہ یا طبقے کے اغراض پر ریاست کی بنیاد رکھنے کے بجائے اگر اس کی اساس حقیقت پسندی ٗ عقلی رجحانات ٗ معاشی برتری اور اخلاقی تعلیم پر رکھی جائے توحالات بہترہونے کی امید نہیں یقین کیا جا سکتا ہے لیکن شاید ہم گمان میں زندگی گزارنے والے لوگ ہیں اور یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کرتے۔ فرد کی زندگی ایک دن کی ہو سکتی ہے لیکن ریاست مستقل ادارہ ہے جس نے آنے والی نسلوں کی نہ صرف حفاظت کرنا ہوتی ہے بلکہ انہیں ایک بہترین مستقبل بھی فراہم کرنا ہوتا ہے اور ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ریاست کو چلانے والی ہر جماعت اور فرد روزانہ کی بنیاد پر اِس مسلمہ اصول کو مد نظر رکھے۔پاکستان کو درپیش مسائل میں اِس کانظام عدل سب سے اہم ترین ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم عدل کو صرف عدالت سے منسوب کرکے اپنی انفرادی ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ عدل تو زندگی کے ہر معاملہ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور اِس کے دائرہ کار سے باہر نہ تو ریاست کا کوئی ادارہ ہوتا ہے اور نہ ہی انفرادی طور پرکسی کو اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ کسی فرد کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ کسی ریاست میں رہتے ہوئے کسی خود ساختہ انفرادی عدل کے تحت زندگی گزارنے کی سعی فرمانے کی کوشش کرے۔ عملی سیاست کی کوشش نے افلاطون جیسے فلاسفر کو غلام بنوا کر بکوا دیا۔ وہ محلاتی سازشوں کا شکار ہوا اور اُ س کے بعد اپنی”اکیڈمی“ بنا کر عمر بھر فلسفے کی ترویج کیلئے سرگرداں رہا۔ اُ سکی اکیڈمی نے تقریبا نو سو سال تک دنیا میں حکمرانی کی اور دنیا بھر کے انسانوں کو فلسفے سے روشناس کروایا۔ گو کہ فلسفے سے عشق یونانیوں کی زندگیو ں میں شامل تھا لیکن سقراط تک فلسفہ کتابو ں اور گفتگووں تک محدود تھا افلاطون پہلا انسان ہے جس نے اسے ادارے کی شکل دی۔وطنِ عزیزمیں امروز سے آنکھیں بند کرکے فردا سے لولگانے کے دن بھی گزر چکے کہ اب آنکھیں بند کرنے کا مطلب ریاست کے وجود سے دستبرداری کے مترادف ہے۔
اس مسلمہ اصول کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ اچھا آدمی اچھی ریاست میں ہی پیدا ہو سکتا ہے۔انسان محض انفرادی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اپنی تمام صلاحیتوں کو اوج ِکمال تک پہنچانے کیلئے کسی جماعت یا کسی ریاست کی رکنیت کا محتاج ہوتا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اچھی ریاست بنانا تو دورکی بات ٗ ہم اچھی ریاست کا خاکہ بنانے میں بھی بُری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ گلہ یہ نہیں کہ جن کے سپرد یہ کارِ محال کیا تھا انہوں نے یہ کام دیانتداری سے نہیں کیا المیہ یہ ہے کہ وہ ایسا
کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ جن لوگوں کو پڑھ کر ہم جوان اور اب ادھیڑ عمر ہو چکے ہیں انہوں نے ہمیں زبانیں لکھنی اور پڑھنی ضرور سکھائی ہیں یا پھردوسروں کا علم اپنی معلومات کے ذریعے ہم تک ضرور پہنچایا ہے لیکن اپنی مٹی سے جڑی عقل کاایسا فقدان ہے کہ پاکستانی معاشرہ بدترین قحط الرجال کا شکار ہو چکا ہے۔ ہماری مٹی ہے کہ بنجر ہونے کے بالکل نزدیک ہے یا پھر بنجر ہو چکی ہے اور صرف اعلان ہونا باقی ہے لیکن عقل نام کا کوئی پرندہ ہمیں اپنی فضاؤں میں محوِ پرواز ابھی تک نظر نہیں آ رہا۔ ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں کہ اقتدارسیاسی شخصی آرزؤں کا وسیلہ بن کر رہ گیا ہے اور انفرادیت کا بھوت ہے کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں برہنہ رقص میں مصروف ہے۔ معاصرانہ سیاست کے خلاف فلاح کا واحد رستہ جہاد بالقلم اوراُس کی تعبیر کیلئے جسمانی جدوجہد (Physical Sturggle) کی اشد ضرورت ہے جس سے سب بھاگ رہے ہیں اورچاہتے ہیں کہ فرشتے قطار اندر قطار اتریں اور اِن کے تمام مسائل حل کرجائیں لیکن وہ دور گزر گیا۔ موجودہ انفرادیت پسند جمہوریت کے بجائے ہمیں ”اجتماعی تعاون“ کو”فرض عین“ سمجھ کرمتعاراف کروانا ہوگا اوراجتماعی زندگی کا سچا اصول صرف عدل کے ستونوں پرکھڑا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ریاست کا دوسرا نام ”تحقیق عدل“ بھی ہے۔ پاکستان کے تمام اداروں اور اِس ریاست میں بسنے والوں کو یہ باور کروا نا ہو گا کہ عدل کوئی ہنر مندی یا مہارت نہیں بلکہ روح کی ایک اعلیٰ ترین صفت اور ذہن کی عادت فی الموت ہے۔جس کا حامل صرف ایک ہی طریقہ کار پر عمل پیرا ہوتا ہے اور وہ طریقہ کار ہرگز ایسا نہیں ہوتا کہ انسانوں کے ایک گروہ کو دشمن اوردوسرے کو دوست بنا کر عدل کی الگ الگ تشریخ سے فائدہ یا نقصان پہنچایا جائے۔ عدل کے بغیر ریاست میں حقیقی مسرت کی فراہمی کا ہر تصور بے کار اور بیہودہ ہے۔ہمیں یہ بات ذہنوں میں رکھنی ہو گی کہ عدل کمزور کی ضرورت نہیں اُس کا طاقتور پر حق ہوتا ہے جو کمزور کو صرف ریاست دلا سکتی ہے کیونکہ ریاست سے طاقتور کوئی نہیں ہوتا اورجہاں فرد ریاست سے طاقتور ہو جائے وہاں عدل نام کا کوئی ادارہ رہتا ہی نہیں اورریاست نمرود کی خدائی بن کر رہ جاتی ہے جہاں بندگی میں بھی کسی کا بھلا نہیں ہوتا۔
کسی زمانے میں پاکستانی عوام کا پسندیدہ موضوع جمہوریت اور آمریت ہوتا تھا لیکن اللہ عمران خان کو لمبی زندگی دے اُس نے ہر ادارے کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔آج پاکستانی معاشرہ بدترین صورت حال سے دوچار ہے۔اللہ کے بعد عدالت ہی ایک ایسا فورم ہوتا ہے جہاں وکیل چیخ چیخ کر ’’می لارڈ۔۔۔ می لارڈ“ (میرے خداوند۔۔۔میرے خداوند)کی صدائیں دے رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ عدالت میں موجود عادل سے توقع کررہاہوتا ہے کہ عادل اُسے وہی انصاف فراہم کرئے گا جس کی توقع وہ خداوند سے کرتا ہے۔ عادل ہی زمین پر خداکا حقیقی نمائندہ تصور ہوتا ہے لیکن جن ریاستوں میں عام آدمی کا عادل سے اعتماد اٹھ جائے۔جج ملزم کا انتظار کررہاہو ٗجہاں ملزم عادل کو اپنی حفاظت کا مشورہ دے رہا ہوں ٗ جہاں ”جان کو خطرہ“ جان کا خطرہ بنا کر پیش بھی کیا جائے اور ریلیف بھی لیا جائے وہاں سکون اور بربادی کے درمیان صرف لوگوں کا صبر کھڑا ہوتا ہے۔ پاکستان کو ریاست سے سیاسی سرکس بنا دیا گیا ہے ہر طرف کھیل تماشے ہیں۔ آج جیل روڈ سے گزرتے ہوئے ہمایوں اختر کے دیو ہیکل فیلیکس دیکھ کر میں رک گیا اور مجھے ضیاء دور کے ایام اسیری یاد آ گئے جب ایک آرمی میجر کا لکھا ہوا فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی نہیں سن سکتا تھا اوراُس وقت یہی ہمایوں اختر تھا جس کا باپ جنرل اختر عبد الرحمان فاتح افغانستان پاکستان کے شہریوں پر ہلاکو کی طرح نازل تھا لیکن آج اُس کا بیٹا عدلیہ بچانے کیلئے نکل رہا ہے۔ جو کل افغانستان وار میں مال بنانے کے مجرم ہیں وہ آج اُس فو ج کے خلاف کھڑے ہیں جس نے انہیں کل سب کچھ دیا تھا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اُس عدلیہ کی شکل کیسی ہو گی جس کو بچانے کیلئے ضیا ء الحق اور اُس کے جرنیلوں کے بچے میدان کارزار میں اتر رہے ہیں۔ مختار مسعو د نے اپنی کتاب”آواز دوست“میں د وسری جگہ لکھا ہے کہ ”وہ زمانے گئے جب عیسی علیہ سلام مردے زندہ کیا کرتے تھے اورخضر علیہ سلام رستہ دکھایا کرتے تھے۔ اب جو زندہ رہنے دے وہ عیسی اورجو رستہ دیدے وہ خضر ہے۔“افلاطون جب سقراط کی شاگردی میں آیا تو اُس نے اپنی تمام شاعر ی جلا دی ممکن ہے اس سے عالمی ادب کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہو لیکن شاعری پر تنقید میں و ہ اس بات پر بڑے اُجلے خیالات رکھتا ہے کہ جو شاعری حقیقت سے نہ جڑی ہو وہ بیکار ہی نہیں ریاست کیلئے نقصان دہ بھی ہوتی ہے۔ یقینا عدل کے حوالے سے بھی یہی قانون لاگو ہوتا ہے کیونکہ افلاطو ن کا کہنا ہے کہ جو عدل بننے کی خواہش ظاہر کرے وہ کبھی عدل کرنے کے لائق نہیں ہوتا اوراپنے ہاں تو عادل خواہش نہیں چیمبرز کی سفارش پر لگتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.