پاکستان: اگست 1947 سے دسمبر 1947 تک کی خبریں

73

ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اخبار اگلے دن پُرانا ہو جاتا ہے۔ مگر گرامی قدر محمد سعید نے نہایت محنت کے ساتھ انہی پرانے اخبارات سے جن خبروں کا انتخاب کیا ہے، آج انہیں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسی دور میں رہ رہے ہیں۔ محمد سعید صاحب ایک ریٹائرڈ سرکاری سی ایس ایس افسر ہیں۔ روایت یہ ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری افسران اور خاص کر سی ایس ایس افسران اپنی یادداشتیں لکھتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، یا پھر کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں حال کے مسائل کا حل تجویز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر محمد سعید صاحب نے منفرد کام یہ کیا ہے کہ یکم اگست 1947 سے لے کر 31 دسمبر 1947 تک کے اخبارات سے خبروں کا انتخاب کر کے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ اس کتاب کی تدوین کا جذبہ محرکہ سعید صاحب اس خیال کو بتاتے ہیں جو ان کے ذہن میں 2014 میں آیا کہ قیامِ پاکستان کے دنوں میں پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات کا مطالعہ کر کے یہ جاننا چاہیے کہ تقسیم ہند اور اس سے متعلقہ مسائل سے متعلق (پاکستان اور انڈیا) کے سیاسی رہنماو¿ں، مقامی آبادی اور مہاجرین کی سوچ کیا تھی۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے National Archives اسلام آباد کا رُخ کیا جہاں دو سو سال پُرانے اخبارات، رسائل و جرائد موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خبروں کے انتخاب میں تنوع کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ سیاسی خبریں بھی ہیں، بازاروں کے نرخ بھی ہیں، عمارتوں کے کرائے کے اشتہارات بھی موجود ہیں، فلموں کے اشتہارات بھی ہیں اور ایڈیٹر کے نام خطوط تو خاصے دلچسپ ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست اور معیشت تب بھی ویسے ہی تھیں جیسی کہ آج ہیں۔ غالب تو اپنے بارے میں کہہ گئے کہ: شعروں کے انتخاب نے رسوا
کیا مجھے، مگر محمد سعیدصاحب خبروں کے انتخاب سے سرخرو ہوئے ہیں۔ جس سلسلے کا آغاز سعید صاحب نے کیا ہے میری رائے تو یہ ہے کہ اگر ہم ان پُرانے اخبارات کا مطالعہ ہی کر لیں تو ماضی بعید اور ماضی قریب کے بہت سے بت ٹوٹ جائیں گے اور ہمیں اندازہ ہو گا کہ سیاست پر قابض طبقات نے کس طرح ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے۔
طالب علم کو کتاب کے مطالعے کے دوران جن خبروں نے متوجہ کیا ان میں سے چند کالم کے تنگ دامانی کے لحاظ سے پیش ہیں:
مسٹر عبدالجلیل صدر کانپور جمعیت علمائے ہند (انڈیا) نے کہا ہے کہ اگرچہ تقسیم ہند کے فیصلے سے ہم سب دُکھی ہیں تاہم یہ ذہن نشین رہے کہ یہ ایک عارضی فیصلہ ہے جو کہ برطانوی حکومت نے کیا ہے۔ ایک دن انڈیا پھر United ہو جائے گا۔
پاکستان کا نیا پرچم: ڈیلی گزٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں مسٹر جمشید نسروان جی نے کہا ہے کہ مجوزہ پاکستانی پرچم کے ڈیزائن میں چاند اور ستارے کے ساتھ سورج کا بھی اضافہ کر لیا جائے تو اس کا عالمی احترام بڑھے گا اور یوں یہ پرچم اختلافات سے بالاتر ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چوں کہ سورج روشنی اور زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اس لیے دنیا بھر کے تمام مذاہب کے پیرو کاروں کے لیے یہ پرچم قابل احترام قرار پائے گا۔
مسٹر جناح کا سیکریٹریٹ ایک سیکرٹری، ایک ملٹری سیکرٹری اور تین ADCs پر مشتمل ہو گا جو کہ برّی، بحری اور فضائی افواج سے ہوں گے۔ تاہم ابھی تک اے ڈی سیز کے ناموں کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
انڈیا کے سوشلسٹ لیڈر مسٹر جئے پرکاش نارائن نے کہا ہے کہ سوشلسٹ پارٹی پاکستان میں بھی قائم رہے گی اور کام کرے گی۔
با خبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی پرچم میں ایک تہائی سفید پٹی شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی ہندو کمیونٹی نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب سے اپیل کی ہے کہ حالیہ فسادات میں اُن کی کمیونٹی کے جلائے گئے مکانات اور دکانوں کی تعمیر نو کے لیے ایک کروڑ روپے کے فنڈز منظور کیے جائیں۔
لیٹر ٹو ایڈیٹر:
جناب والا! مغربی پنجاب کے دارالحکومت کے لیے لاہور، راولپنڈی اور ملتان کے بارے میں تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔ میں نے بھی اس معاملے پر بہت غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ موزوں ترین شہر لائل پور ہے جسے پنجاب کا دارالحکومت بنا دیا جائے۔ (نذیر احمد انسپکٹر سنٹرل ایکسائز جھنگ)۔
جنابِ والا! پاکستان کے صوبوں میں انگریز گورنروں کا تقرر؟ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ یہ پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔ (عبدالوحید۔ بہار شریف)۔
جنابِ والا! جب سے (1940) قرارداد پاکستان منظور ہوئی مسلمان یہ توقع کر رہے ہیں کہ اب وہ ہندوو¿ں کی سرمایہ دارانہ ذہنیت سے معاشی اور معاشرتی طور پر آزادی پائیں گے۔ اب جب کہ ملک آزاد ہونے جا رہا ہے میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے گزارش کروں گا کہ وہ ضروری اقدامات کرے۔ کیونکہ فیوڈل ازم اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اگر اس تجویز پر عمل نہ کیا گیا تو پھر اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ (بشیر حسین ظفر۔ لا کالج۔ لاہور)۔
آج نئی دہلی میں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انڈین آرمی کی طرف سے پاکستان آرمی کے لیے الوداعی تقریب منعقد ہوئی۔ انڈین آرمی کے جنرل کری آپا نے اُمید ظاہر کی ہے کہ دونوں فوجیں مل کر اپنے دونوں ممالک کا دفاع کریں گی۔ اُنہوں نے کہا کہ دوستو ہم نے اکٹھے کام کیا ہے۔ اکٹھے رہے ہیں۔ اکٹھے کھیلے ہیں اور اکٹھے ہی دشمن سے لڑے ہیں۔ جنگی میدانوں کے ہمارے یہ احساسات اور جذبات برقرار رہنے چاہئیں۔ اگر ہم یہ بات سمجھ لیں کہ ہم نے بیرونی جارحیت کا باہم مقابلہ کرنا ہے تو ہمارے لیڈر پوری توجہ کے ساتھ اپنے اپنے ممالک کی فلاح اور بہتری کے لیے کام کر سکیں گے۔

تبصرے بند ہیں.