ہم اگر اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ جو شخص بھی بزرگوں کی عزت و احترام کرتا ہے اس کو دنیا کی تمام نعمتیں ملتی ہیں۔ ادب ہی کی بنا پر وہ دنیا میں کامیابی کی منازل طے کرتا ہے اور جو ان سے محروم ہے وہ حقیقتاً ایسا شخص ہے جو دنیا کی ہر نعمت سے محروم ہے۔ شاید اسی لئے دانشور کہہ گئے ہیں کہ باادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب۔ الغرض اپنے بزرگوں کا ادب کرنا ہی ایسی صفت ہے کہ جو کسی انسان کو ممتاز بناتی ہے۔ دوسرے لوگوں سے جس طرح ریت کے ذرے موتیوںکی مانند ہمیشہ اپنی چمک دمک قائم رکھتے ہیں اسی طرح مودب شخص کبھی لوگوں کے دلوں سے اپنی عزت و احترام نہیں کھوتا۔ دنیا میں لوگ اسے عزت و احترام کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں۔بزرگوں کے احترام کو بڑھانے، انہیں معاشر ے میں عزت دینے اور ان کا سہارا بننے کے لیے ہی میں نے ”سایہ فاﺅنڈیشن“ کی بنیاد رکھی تھی۔ جس کا واحد مقصد بزرگوں کی عزت و احترام اور خدمت کرنا تھا۔ وہ بزرگ لوگ جو گھر سے بے گھر ہو جاتے ہیں اور جن کے اپنے انھیں گمنام راہوں پر چھوڑ جاتے ہیں، جن کے سر سے گھر کا سایہ چھن جاتا ہے تو ایسے بے سہارا بزرگوں کو” سایہ فاﺅنڈیشن“ سہارا دیتا ہے، بے سہارا بزرگ حضرات یہاں تین وقت کا کھانا کھاتے ہیں، انھیں ادویات ملتی ہیں اور انکی صحت کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے، لہٰذامیری کوشش ہوتی ہے کہ میں اس نیک مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ساتھ ملاﺅں اور انہیں بھی اس طرف راغب کرنے کی کوشش کروں۔
اسی سلسلے میں میرا ابھی حال ہی میں دبئی جانا ہوا ، جہاں کی میزبانی پاکستان یونائیٹڈ فورم کے صدر میاں منیر ہانس صاحب نے کی ، انہوں نے ہمارا بھرپور استقبال کیا، اور ہمیں کسی قسم کی پریشانی نہیں اٹھانا پڑی۔ انہوں نے سایہ فاؤنڈیشن جیسے نیک کاز کے لیے آواز بلند کرنے اور کام کرنے پر ہمیں خوبصورت القابات سے بھی نوازا اور ہمارے اس کارخیر میں حصہ ڈالنے کے لیے اور اس نیک مقصد کو آگے تک پھیلانے کے لیے وہاں کی کمیونٹی سے رابطے کیے اور ہمارے مقصد کو آگے تک پھیلایا۔ انہوں نے اس دوران اپنے قیمتی وقت کی پروا کیے بغیر ہماری ہر طرح سے
مدد کی۔ انہوں نے ہماری وجہ سے اپنی کئی میٹنگز منسوخ کیں۔ یہ ان کا بڑا پن بھی ہے اور ان کا انسانیت کے ساتھ پیار کا عملی ثبوت بھی۔
پھر میاں منیر ہی کی وساطت سے میری ملاقات کاروباری شخصیات سے ہوئی جن میں سے ایک عبدالرحمن رضا صاحب بھی تھے، جو وہاں کی نامور شخصیت اور فلاحی کاموں میں بلاتاخیر ناصرف حصہ لیتے ہیں بلکہ اسے پایہ تکمیل تک بھی پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے سایہ فاﺅنڈیشن میں بھی خاصی دلچسپی دکھائی اور ہر طرح کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے علاوہ وہاں ہم نے شیخ راشد الملاکے آفس کا یاد گار وزٹ بھی کیا۔ جہاں چوہدری حماد صاحب نے ہمارا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ اور ہمارے پراجیکٹس میں خصوصی دلچسپی دکھائی۔ بہرحال اس پورے دورے کے دوران بہت سی شخصیات سے ملنے کے بعد مجھے اس حوالے سے امید جاگی ہے کہ ہم پاکستان میں اپنے پراجیکٹس کی توسیع اور پاکستانیوں کے لیے اس مہنگائی کے دور میں مزید ا±ن کی فلاح کے لیے کام کر سکیں گے۔
اور پھر اس وقت پاکستان میں جو مہنگائی کا عالم ہے، اور جو غریب طبقہ غریب سے غریب ہوتا جا رہا ہے ، ہمیں ان کا خیال کرنا چاہیے، ہمیں اس سفید پوش طبقے کا بھی خیال رکھنا چاہیے جو اس وقت سخت ترین حالات سے گزر رہے ہیں، بلکہ 25، 30یا 50ہزار کمانے والا تو دور کی بات ایک لاکھ روپے کمانے والے شخص کے گھر بھی فاقہ کشی کی صورتحال ہوچکی ہے۔ لیکن ہر حکومت ہے کہ امیر زادوں پر ٹیکسز بڑھانے ایف بی آر سسٹم کو بہتر بنانے، ٹیکس چوری کو روکنے یا دیگر جگہوں سے ٹیکس حاصل کرنے کے بجائے عام عوام سے پیسہ وصول کرنے کو اہمیت دیتی ہے۔ اور یہ ٹیکسز صرف پٹرولیم مصنوعات میں سے ہی نہیں بلکہ ہر وہ جگہ جہاں سے لیے جا سکیں لیے جارہے ہیں۔ مثلاً آپ اگر موٹر وے ایم ٹو پر اسلام آباد کی طرف سے لاہور آئیں تو ٹول پلازہ پر ایک درجن سے زیادہ بوتھ ہیں ، ہر بوتھ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک منٹ میں چھ گاڑیاں گزرتی ہیں ،اور یہی ایک بوتھ ایک گھنٹے میں 360 گاڑیوں کی گزر گاہ ہے، اسی طرح بارہ عدد بوتھ سے 4320 گاڑیاں ایک گھنٹے میں گذرتی ہیں ،اور چوبیس گھنٹوں میں 103680 گاڑیاں گزرتی ہیں ، اسلام آباد سے لاہور تک ایک کار کا ٹیکس 1000 ہزار روپے ہے اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا چار پانچ ہزار تک یہ ٹیکس چلا جاتا ہے ،ہم اگر ایوریج ایک گاڑی کا ٹیکس صرف 1000 ہزار بھی لگائیں ، تو اس حساب سے 24 گھنٹے میں یہ پلازہ کم از کم ساڑھے دس کروڑ روپے وصول کرتاہے ، اسی طرح ملک بھر کے موٹر ویز اور ہائی ویز پر ان ٹول پلازوں کی تعد گن لیں اور پھر ان کو کروڑوں سے ضرب دیں تو صرف ٹول ٹیکس کی مد میں روزانہ کے حساب سے اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جمع ہو جاتے ہیں۔
پھر آپ جس گاڑی میں سفر کر رہے ہیں ، اس کو جب خریدا جاتا ہے ، تو جتنی گاڑی کی قیمت ہوتی ہے ، اتنا ہی اس پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی بھرنا پڑتی ہے۔آپ جس گاڑی کو اپنے پاس رکھتے ہیں ، اس کی سالانہ ایکسائز ڈیوٹی بھی اربوں میں جمع ہوتی ہے۔آپ کی بجلی کا بل اگر دس ہزار روپے ہے ،تو اصل بجلی کی قیمت تین ہزار نکال کر بقایا سات ہزار روپے ٹیکس ہے ،جو ماہانہ ہر کنزیومر سے کاٹا جاتا ہے اور اربوں کے حساب سے حکومت کے خزانے میں جمع ہوتا ہے۔اسی طرح گیس کے بل پر بھی اسی شرح سے ٹیکس لگ رہا ہے ،اور خزانے میں جمع ہو رہا ہے۔آپ ایک میڈیکل سٹور سے تین سو روپے کی دوائی خرید رہے ہیں ، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس پر تقریباََ چالیس سے پچاس روپے تک سیلز ٹیکس ہے ،جو کہ خزانے میں جا رہا ہے۔آپ ہوٹل میں کھانا کھا رہے ہیں اور آپ کا پانچ ہزار بل آگیا ہے ، تو اس پر تقریباََ پانچ سو کے قریب آپ سے ٹیکس کاٹا جائے گا۔آپ اپنے مکان کا نقشہ پاس کرا رہے ہیں۔ الغرض آپ کو کیا کیا سنائیں کہ عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ ایسے میں جب عام آدمی کی اپنا پیٹ کاٹنا مشکل ہے تو وہ کیسے اپنے بڑوں کی خدمت کر سکتا ہے۔ انہیں اچھا کھلانے کے لیے، اچھا پہنانے کے لیے یقینا روپے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اس وقت عام آدمی کا پاکستان میں خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔
لہٰذا حکومتوں کو چاہیے کہ ملک کے مشکل حالات میں مہنگائی ضرور کریں ! مگر عوام کی آمدنی تو بڑھائیں، اسے راشن کارڈ ہی جاری کردیں، یا اسے پٹرول کارڈ ہی جا ری کردیں ورنہ سنا ہے کہ 2022ءمیں 21ہزار پاکستانیوں نے مہنگائی کی وجہ سے خودکشی کی تھی اور یہ تعداد 2023میں کئی گنا بڑھ بھی سکتی ہے جس میں سارا قصور ہی ہمارے سیاستدانوں کا ہو گا۔ اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا!
Prev Post
تبصرے بند ہیں.