مسلم لیگ ن…… سب اچھا نہیں ہے!

73

مسلم لیگ ن کا شمار بلاشبہ ملک کی اہم ترین قومی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے۔ اسے ملک کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت اگر نہ سمجھا جائے تو دوسری بڑی قومی سیاسی جماعت ضرور سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے قائد میاں محمد نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں تو اس کے موجودہ صدر میاں شہباز شریف پچھلے تقریباً دس ماہ سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں۔ یوں تو ان کی مخلوط حکومت میں تیرہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے لیکن میاں شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کے منصب اور مسلم لیگ ن کے صف اول کے دوسرے قائدین کے اہم وزارتی عہدوں پر فائز ہونے کی بنا پر اس حکومت کو بڑی حد تک مسلم لیگ ن کی حکومت ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس حکومت کی اگر کچھ کارکردگی ہے تو اس کا کریڈیٹ جہاں مسلم لیگ ن کے حصے میں آرہاہے وہاں اس کی ناقص کارکردگی اور ملک کے مسائل کے حل اور عوام کی مشکلات اور مصائب میں کمی لانے میں ناکامی کا بوجھ بھی مسلم لیگ ن کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بلاشبہ دس ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود میاں شہباز شریف کی حکومت کسی بھی شعبے میں اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی ہے۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں اور جناب عمران خان کی سابقہ حکومت پر اس کی کتنی ہی ذمہ داری کیوں نہ عائد ہوتی ہو، حقیقت یہی ہے کہ موجودہ حکومت ملک کو درپیش اہم مسائل کا حل ڈھونڈنے اور عوام الناس کو درپیش مشکلات و مصائب کو دور کرنے یا کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عام آدمی کی مشکلات میں جہاں اضافہ ہو رہا ہے وہاں ملکی اورقومی سطح پر پہلے سے موجود مسائل زیادہ شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ معیشت کی زبوں حالی، زر مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی، ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط، مہنگائی میں ہوشربا اضافہ، دہشت گردی کا زور پکڑنا اور سیاسی عدم استحکام، غرضیکہ یہ سب پہلو ایسے ہیں جن کے حوالے سے موجودہ حکومت کچھ بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ ڈنگ ٹپاؤ قسم کے حکومتی اقدامات دیکھ کر لگتا ہے جیسے ملکی، قومی اور عوامی سطح پر درپیش ان مسائل، مشکلات اور مصائب سے عہدہ بر آہونے کے لیے حکومت کے پاس کوئی باقاعدہ منصوبہ یا پلان نہیں ہے۔
معروضی صورت حال کی یہ منظر کشی یقینا خوش کن نہیں سمجھی جا سکتی۔ اس سے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی حکومت کو جہاں تند و تیز تنقید کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے وہاں ان کی جماعت مسلم لیگ ن بھی سخت تنقید کی زد میں ہے۔ یقینا اس سے مسلم لیگ ن کی مقبولیت پر بھی زد پڑر ہی ہے۔مسلم لیگ ن کے حوالے سے جہاں یہ پہلو اہمیت کا حامل سمجھا جا سکتا ہے وہاں مسلم لیگ ن کے حوالے سے ایک اور پہلو بھی ایسا ہے جو اس کے لیے کسی نہ کسی حد تک باعث تشویش ہو سکتا ہے یا اس کی کمزوری کا سبب بن سکتا
ہے۔ یہ پہلو مسلم لیگ ن کی اعلیٰ ترین قیادت یا قائدین کی سطح پر یکسوئی نہ ہونے یا دوسرے لفظوں میں باہمی اختلاف موجود ہونے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس کا واضح اظہار مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور سابق وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کے مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر کے عہدے سے مستعفی ہونے کے فیصلے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جناب شاہد خاقان عباسی نے مستعفی ہونے کا فیصلہ محترمہ مریم نواز شریف کو مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائز رکے مناسب سونپے جانے کے بعد کیا ہے۔ جناب شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا ہے کہ وہ بدستور مسلم لیگ ن میں ہیں اور انھوں نے سینئر نائب صدر کے عہدے سے اس لیے استعفیٰ دیا ہے کہ وہ محترمہ مریم نواز کو جگہ Space دینا چاہتے ہیں کہ وہ کھل کر کام کرسکیں۔
جناب شاہد خاقان عباسی کا مسلم لیگ ن کی نائب صدارت سے مستعفی ہونا بظاہر کوئی بڑی بات نہیں کہ سیاسی جماعتوں میں بعض اوقات اس طرح کی صورت حال سامنے آتی رہتی ہے۔ کوئی کسی منصب پر فائز ہوتا ہے، وہ اس سے خود ہٹ جاتا ہے یا اسے ہٹا کر اس جگہ پر کسی دوسرے کو سامنے لایا جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف معاملات میں چھوٹے موٹے اختلافات کااظہار بھی سیاسی جماعتوں میں ایک معمول کی بات سمجھی جا سکتی ہے۔ تاہم جناب شاہد خاقان عباسی کا مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر کے عہدے سے مستعفی ہونا محض اختلاف رائے کا اظہار سمجھ کر رد نہیں کیا جا سکتا یقینا اس کے پس منظر اور پیش منظر سے کچھ اور باتیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ جناب شاہد خاقان عباسی کی صاف گو، باوقار، باکردار اور کسی حد تک سادہ مزاج شخصیت مسلم لیگ ن کے لیے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے۔مسلم لیگ ن سے ان کی دیرینہ وابستگی اور میاں برادران سے ان کے نیازمندانہ اور مخلصانہ تعلقات پر بھی کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ میاں صاحبان بھی ان پر ہمیشہ بھرپور اعتماد اوران سے گہری قربت کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر کے عہدے (جو پارٹی کے صدر کے عہدے کے بعد سب سے اونچا عہدہ سمجھا جا سکتا ہے) سے استعفی دیا ہے اور مریم نواز کو کھل کر کام کرنے کی جگہ دینے کواس کا جواز بنایا ہے توبظاہر اسے رد نہیں کیا جا سکتا تاہم بین السطور یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اس سے مسلم لیگ ن کی قیادت کی اعلیٰ ترین سطح پر کہیں نہ کہیں شکر رنجی، ناراضگی یا باہمی خفگی کے موجود ہونے کا تاثر ضرور جھلکتا ہے جس کی بنا پرشاہد خاقان عباسی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس سے قبل مفتاح اسماعیل کو وزارت خزانہ کے منصب سے کسی حد تک ہتک آمیز انداز میں ہٹا کر جناب اسحاق ڈار کو ان پر فوقیت دی گئی تو شاہد خاقان عباسی سمیت مسلم لیگ ن میں بعض حلقوں نے اس پر دبے لفظوں میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو محترمہ مریم نواز مسلم لیگ ن کی نائب صدر تو پہلے ہی تھیں اب انہیں سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنایا گیا ہے تو بلاشبہ وہ ان ذمہ داریوں کے لیے انتہائی مناسب اور موزوں سمجھی جا سکتی ہیں۔اس کے باوجو دبھی پارٹی کے سینئر قائدین کے اگر کچھ تحفظات سامنے آئے ہیں تو انہیں اہمیت دینے کی بجائے یکسر رد کرنا بھی کوئی مناسب انداز فکر و نظر نہیں ہو سکتا۔ چند دن قبل بہاولپور میں ورکرز کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے محترمہ مریم نواز نے جہاں اپنے مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کے عہدوں کو سنبھالنے کا دفاع کیا وہاں انھوں نے اس بارے میں تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کرنے والوں کا ذکر جس لب و لہجے میں کیا وہ بھی کوئی ایسا مناسب انداز نہیں تھا۔محترمہ مریم نواز کے لب و لہجے اورچہرے کے اتار چڑھاؤسے جس غم و غصے کا اظہار ہو رہا تھا کہ لگتا تھا جیسے تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کرنے والے ان کے نزدیک پسندیدہ شخصیات نہیں ہیں۔
مسلم لیگ ن بلاشبہ ایک بڑی قومی جماعت ہے۔ اس کے قائدین بذات خود جائزہ لے سکتے ہیں کہ کونسے فیصلے ان کے اور ان کی جماعت کے حق میں بہتر ہیں اور کونسے بہتر نہیں ہیں تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ سینئر قائدین کو عزت اور ان کا جائز مقام دے کر ہی  آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.