لاہور جمخانہ اور سلمان صدیق

62

محمد پرویز مسعود کئی بار پنجاب کے چیف سیکرٹری اورچیئرمین لاہور جمخانہ کلب رہے ہیں،جب وہ چیف سیکرٹری تھے تو ان کا دفتر ہر خاص و عام کے لئے کھلا رہتا تھا،ان کا رعب اور دبدبہ بہت زیادہ تھا مگر ان کی شفقت بھی دیدنی ہوتی تھی،ملنے والے افسروں اور لوگوں کی بات سنتے، افسروں کو ڈانٹ پلاتے مگر کام کر دیتے تھے،اب ان جیسے افسر اور انسان چراغ لے کر ڈھونڈیں بھی تو کم ہی ملیں گے،نوے کی دہائی میں نوائے وقت کی طرف سے میں، بیوروکریسی،اسٹیبلشمنٹ او ر سول سیکرٹریٹ کے امور کی رپورٹنگ پر مامورتھا اور ہفتے میں کئی بار ان سے ملنااور کافی پینا میرا معمول تھا،بہت شفقت کرتے،میرے سوالات کا بڑے پیار سے جواب دیتے۔ایک دفعہ میں نے پوچھا سر،سینئر وفاقی افسران پنجاب سے مرکز یا دوسرے صوبوں میں جانا کیوں پسند نہیں کرتے حالانکہ یہ ان کی سروس کا حصہ ہے تو ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ اس کی تین وجوہات ہیں،لاہور جمخانہ کلب،ایچیسن کالج اور جی او آرز،اب شاید حالات بدل چکے ہیں مگر جمخانہ کلب کی اہمیت اور چارم اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
آپ دیہات میں چلے جائیں تو وہاں ”ڈیرہ“ سسٹم ہوتا ہے،جہاں لوگ مل بیٹھ کر خوش گپیاں، مختلف سرگرمیاں اور بسا اوقات وقت گزاری کرتے ہیں، جبکہ شہر میں یہی ڈیرہ سسٹم ”کلب“ میں بدل جاتا ہے۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے، صرف سہولیات میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ ہر شہر میں چھوٹے بڑے کلب موجود ہیں، مثلاََ لاہور جیسے تاریخی شہر میں جمخانہ کلب، رائل پام گالف اینڈ کنٹری کلب، ائیر فورس کلب، گریژن کنٹری کلب اور پریس کلب میں ہمہ وقت رونقیں بحال رہتی ہیں مگر لاہور جمخانہ کلب کی بات ہی اور ہے، کلب کا ممبر ہونے کے ناطے، دوستوں اور فیملی کے ساتھ ہفتے میں دو چار دن یہاں آنا ہی ہوتا ہے، لیکن گزشتہ ایک ماہ سے تو اگر مہینے میں 30دن ہوتے ہیں تو مجھے غالباََ60دن آنا پڑا ہوگا۔ اْس کی بڑی وجہ یہاں کے سالانہ الیکشن تھے۔اس بار بھی یہ انتخاب بہت پرامن ہوا جس میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سمیت دیگر شخصیات نے ووٹ ڈالا، سلمان صدیق اور ضیا الرحمن پینل کے درمیان مقابلہ ہوا۔
فتح سلمان صدیق و میاں مصبا ح گروپ کا مقدر ٹھہر ی اور سلمان صدیق ایک بار پھر چیئرمین لاہور جمخانہ منتخب ہوگئے، سلمان صدیق قبل ازیں اس وقت لاہور جمخانہ کے چیئرمین بنے تھے جب وہ چیف سیکرٹری پنجاب تھے اور انہوں نے اس تاریخی کلب پر چھائے ہوئے جمود کو نہ صرف توڑا بلکہ اسے ایک حد تک عوامی ٹچ بھی دیا،ان سے پہلے اس کلب کی ممبرشپ بیوروکریٹس اور چند بڑے خاندانوں تک محدود تھی عام لوگوں کے لئے یہ ایک شجر ممنوعہ تھی اور لوگ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے کوئی دوسری ہی دنیا سمجھتے تھے۔اس کلب کے ہر چیئرمین نے اپنی بساط کے مطابق کلب کو بہتر بنایا،میاں مصباح الرحمنٰ،کامران لاشاری اور دوسرے بے شمار نام اس میں شامل ہیں۔حالیہ الیکشن سے پہلے کلب ممبرز میں سلمان صدیق کو ایک بار پھر لانے کی ایک تحریک تھی اور کہا جا رہا تھا کہ اس کلب کو سلمان صدیق کی ضرورت ہے،سلمان صدیق کو اس کلب کی چیئرمینی کی ضرورت نہیں ہے۔کلب ممبرز نے اس بات کو سچ ثابت کیا اور ایک طویل عرصے بعد ان کے گروپ کو بڑی اکثریت دی،وہ یقینا قابل شخصیت ہیں اور اْمید ہے وہ پہلے کی طرح اس کلب اور ممبران کے لیے مثبت اقدامات کرتے رہیں گے۔سلمان صدیق ایک محبت اور شفقت کرنے والے اچھے انسان ہیں،وہ پنجاب میں ڈپٹی کمشنر،کمشنر،سیکرٹری رہے مگر انہوں نے چیف سیکرٹری اور چئیرمین جمخانہ کی حیثیت سے بہت عزت سمیٹی،میاں مصباح الرحمنٰ،شوکت جاوید،ڈاکٹر علی رزاق،واجد عزیزخان،سرمد ندیم،میاں پرویز بھنڈارہ،میاں وقار الدین،سردار قاسم فاروق،مسزسمیرا نذیرکی ہمراہی میں وہ اپنی موجودہ ٹرم کو ضرور تاریخی بنائیں گے۔
جمخانہ اور اس کی تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو اس وقت پورے پاکستان میں اس سے بہتر کلب نہیں ملے گا، ویسے تو یہ کلب انگریز دور میں یعنی 1878میں بطور سپورٹس کلب بنایا گیا تھا، جس میں گالف، سوئمنگ، کرکٹ، سکواش، ٹینس، سنوکراور جم وغیرہ جیسی سہولیات رکھی گئیں، لیکن 1906ء میں یہ جمخانہ کلب میں بدل گیا، 1981 میں اس کی نئی عمارت کی تعمیر و مرمت کا کام شروع ہوا۔اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ یہ کلب پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے، جیسے6ستمبر 1965 کی صبح منہ اندھیرے بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اس خوش فہمی میں بھارتی افواج کے کمانڈر انچیف نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ آج لاہور جمخانہ میں محفل سجائیں گے۔ مگر صرف ایک سو دس جوانوں نے لاہور پر قبضہ کرنے والا وہ بھارتی خواب ہی ملیا میٹ کر دیا۔
آج بھی اس کلب میں سات آٹھ ریستوران ہیں۔ ورزش کے لیے بہترین Gym ہے۔ 18ہولز کا گولف کورس، ٹینس کورٹس، سیومنگ پول ہیں۔کارڈ ز روم اور بلیئرڈ روم ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی سہولیات ہیں۔عمر رسیدہ ممبران نے کلب کو سیکنڈ ہوم کا درجہ دے رکھا ہے۔ وہ دوپہر کو یہاں آ کر رات گئے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ان سب میں سب سے زیادہ اہمیت یہاں کے کرکٹ گراؤنڈ کی ہے۔ جمخانہ کرکٹ گراؤنڈ پاکستان کی سب سے پرانی اور برصغیر کی دوسری سب سے پرانی گراؤنڈ مانی جاتی ہے۔اس کا قیام 1880ء میں عمل میں لایا گیا۔ برصغیر کی سب سے پہلی کرکٹ گراؤنڈ کلکتہ کی ایڈن گارڈن تھی جو کہ1864 میں بنائی گئی تھی۔1882ء میں پچ کیلئے ورسٹر شائر سے خاص مٹی منگوائی گئی۔ 1955ء میں پاک بھارت ٹیسٹ میچ یہیں کھیلا گیا۔ پاکستانی قومی کھلاڑیوں کے علاوہ سر گیری سوبرز، آئن بوتھم، سچن ٹنڈولکر، جیک کیلس اور کیون پیٹرسن بھی یہاں کھیل چکے ہیں۔دائرہ نما کرکٹ گراؤنڈ کے اردگرد لوہے کا جنگلا لگا ہوا ہے، جبکہ ایک طرف پویلین ہے جس میں شاہ بلوط کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ پویلین کی تعمیر میں برطانوی راج کے مشہور آرکیٹکٹ جی سٹون اوربھائی رام سنگھ کا اہم کردار ہے۔ شروع شروع میں گورنر ہاؤس کا عملہ یہاں پر میچز کھیلا کرتا تھا۔ تاہم 1911ء میں برٹش آرمی اور ورلڈ الیون کے درمیان پہلا آفیشل میچ کھیلا گیا، 1923ء میں پہلا فرسٹ کلاس میچ کھیلا گیا جبکہ پہلا انٹرنیشنل میچ 1926 میں ایم سی سی اور برٹش آرمی کے درمیان ہوا۔ 1934ء میں برٹش آرمی اور نارتھ انڈین کی ٹیموں کے درمیان رانجھی ٹرافی کا میچ کھیلا گیا۔1936ء کا سال اس گراؤنڈ کیلئے اس لئے بھی یادگار ہے کہ اس سال انڈیا کی کرکٹ ٹیم نے سید وزیر علیٰ کی قیادت میں آسٹریلیا کیخلاف پہلا ٹیسٹ میچ جیتا تھا۔قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں یہاں پر پاکستان نے ویسٹ انڈیز، سری لنکا، ایم سی سی اور کامن ویلتھ الیون کی ٹیموں کے خلاف چار غیر سرکاری ٹیسٹ میچز بھی کھیلے۔اس گراؤنڈ کو باقاعدہ ٹیسٹ سنٹر کا اعزاز اس وقت حاصل ہوا جب 1955ء میں پاکستان اور انڈیا کی ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ اْمید ہے سلمان صدیق کی قیادت میں نئی منتخب شدہ باڈی اس گراونڈ میں لگی گھاس کی خوشبو کو بھی برقرار رکھے گی۔

تبصرے بند ہیں.