ممتاز ناول نگار علی نواز شاہ کیلئے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ

17

تحریک ِ احیائے اردو ادب ڈاکٹر تنویر احمد خان، سجاد احمد سابق کنٹرولر پی ٹی وی تمغہ امتیاز اور ان کے رفقائے کار کا جنون ہے۔ وہ سب مل کے اردو ادب کی خدمت کے لیے کوشاں ہیں۔ ڈاکٹر تنویر احمد خان پیشے کے اعتبار سے معالج اور مزاج کے اعتبار سے رائٹر ہیں۔ تحریک احیائے اردو ادب نے اکتیس جنوری 2023 کو تنظیم کا پہلا ایوارڈ عہد حاضر کے کثیر الجہات ناول نگار علی نواز شاہ کو عطا کیا۔
علی نواز شاہ کا شمار پاکستان کے ممتاز ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک باکمال انسان ہے۔ ایسا صلح جُو انسان ادبوں میں کم کم نظر آتا ہے۔ سالہا سال سے حلقہ ارباب ذوق سمیت مختلف پلیٹ فارمز سے ادب اور ادیب کی خدمت اور ترویج کے لیے مسلسل انتھک محنت کرنے والا علی نواز شاہ اپنے آبائی شہر میں فری ہسپتال چلاتا ہے۔ اس نے اپنے کردار اور برتاؤ سے خود کو بڑا انسان ثابت کیا ہے۔ وہ گزشتہ تیس سال میں افسانوں کے پانچ مجموعوں کے علاوہ سات ناول تخلیق کر چکا ہے۔ اس کے ناولوں کے موضوعات انتہائی اچھوتے اور بولڈ ہیں۔ منٹو نے معاشرے کی جس طرح کی جراحی اپنے افسانوں میں کی اس سے کہیں زیادہ جراحی ہمیں علی نوازشاہ کے ناولوں میں نظر آتی ہے۔ ہم جنس پرستی کے موضوع پر نوے کی دہائی میں شائع ہونے والے ناول ”کالک“ نے اردو پڑھنے والے بین الاقوامی قارئین میں باقاعدہ تھرتھلی مچا دی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کو فون کر کے پوچھ رہے تھے کہ کیا تم نے علی نواز شاہ کا ناول کالک پڑھا ہے۔ نہیں
پڑھا تو ضرور پڑھو۔ اس ناول کا بنیادی مقصد ماں باپ کی تربیت تھی کہ معصوم بچوں سے غفلت برتنے کے باعث معاشرتی ناسور کس طرح ان کو ایکسپلائٹ کرتے ہیں۔ سندھی زبان میں اس ناول کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ اس کے بعد عورتوں میں ہم جنس پرستی کے موضوع پر اس کا ایک ناول ”فیمیل“ شائع ہوا۔ یہ ناول اپنی کلیت میں ایک نفسیاتی ناول ہے جس میں لڑکیوں کے نفسیاتی بگاڑ اور ہوسٹل لائف کے تکلیف دہ پہلوو¿ں کو نہایت عمدہ کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ علی نوازشاہ کا تیسرا ناول ”گُرو ماں“ تھا جس میں خواجہ سراو¿ں کی دردناک زندگی کے نہاں خانوں میں لکھی عبارتوں کی کہانی ہے۔ اس ناول پر امریکہ کے کسی ادارے نے ریسرچ ورک کے بعد ناول نگار کا انٹرویو کیا اور ہیجڑوں کے موضوع پر بنائی جانے والی ٹیلی فلم میں مواد کو شامل کرنے کی اجازت لی۔ علی نواز کا ناول خون پاکستان میں ہونے والی فرقہ واریت پر ہے۔ عجیب ناول ہے یہ جس میں ناول نگار نے ملک میں شہید ساز فیکٹریوں کے پس پردہ حقائق کو بڑی درد مندی سے پیش کیا ہے۔ ناول دہشت زدہ افغان وار کے بین الاقوامی محرکات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عام انسانوں اور معاشروں کی مشکلات، تصادم اور بے چینی کی داستان ہے۔ ناول پتلے ذہنی معذور بچوں کے المیے کے موضوع پر ہے۔ علی نواز شاہ کے افسانوں کے موضوعات بھی ایسے ہی منفرد اور گہری جڑوں والے ہیں۔ گوپی چند نارنگ اور قرة العین کے ناولوں میں پھنسے ہوئے تدریسی ناقدین و محققین کو شعور ہی نہیں کہ اردو ناول اپنے موضوعات کے حوالے سے کہاں پہنچ چکا ہے۔ ان کی قدامت پرستی ہماری زبان اور ادب کو پچھلے عہد میں دھکیل رکھنے پر بضد ہے۔ جب سے تدریسیوں نے تخلیق کاروں کو نظر انداز کر کے خود کو ہر منصب پر فائز کر دیا ہے سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کتاب سے دور ہو گئی ہے جبکہ حقیقی تخلیق کاروں کی جگہ تدریسیوں کے آ بیٹھنے سے لوگوں کے دلوں میں رائٹر کی وہ عزت بھی نہیں رہی یا ان کے نزدیک وہ اہمیت نہیں رہی جو چار دہائیاں پہلے تھی۔ خاص طور پر پچھلے بیس سال سے تو تدریسیوں کی مشروم گروتھ نے بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ تحقیق و تنقید کا حال بھی بہت بُرا ہے۔ یہی حال ادبی اداروں کا بھی ہو چکا ہے۔ پچھلے سال اکیڈمی آف لیٹرز میں ناول پر ایک تحقیقی کتاب شائع کی گئی جس میں علی نواز شاہ اور کتنے ہی جید بڑے ناول نگاروں کا نام تک نہیں ہے۔ ہر طرف زیادہ سے زیادہ تنخواہ والی نوکریوں کی دوڑ اور بغیر کام کیے نام بنانے کا مقابلہ جاری ہے لیکن احساس ذمہ داری جیسی کسی چڑیا کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ اس پر ان نوکری پرست غیر علمی و ادبی مزاج کے حامل ادبا کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ ہر جگہ ان کی اجارہ داری قائم ہے اور اجتماعی ٹاسک صرف جینوئن ادیبوں کو پیچھے دھکیل کر غیر ادیبوں کو بڑے ادیب بنا کر ان کا ڈھول پیٹنا ہے۔ شکریہ تحریک احیائے اردو ادب جیسی تنظیموں کا جو تلاش کر کے حقیقی اور بڑے ادیبوں کی عزت افزائی کرتی ہیں۔ علی نواز شاہ کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے پر ساری ادیب برادری تحریک کی ممنون ہے۔ امید ہے کہ وہ آئندہ بھی ایسے ہی ادیبوں کی عزت افزائی فرماتے رہیں گے جنہوں نے نہ صرف زندگی کا بڑا حصہ ادب کی خدمت میں گزارا بلکہ سیر حاصل اور قابل ِ قدر کام بھی کیا۔

تبصرے بند ہیں.