درس گاہیں یا نشے کی محفوظ پناہ گاہیں

12

اپنے بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں بھیج کر اور بھاری فیس دے کر یہ نہ سمجھیں کہ وہ انسان بن جائیں گے۔ برٹش، امریکن، گرائمر اور نجی تعلیمی اداروں میں بھیج کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے بچے باقی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں سے زیادہ قابل اور مہذب بن جائیں گے۔ یہ اور بات کہ آپ کے نزدیک قابلیت کا معیار انگریزی زبان اور وہ کلچر ہو جس میں حیا باقی ہے نہ لحاظ اور مہذب صرف اُسے سمجھتے ہوں جو دولت کے نشے میں دُھت سوری اور تھینک یو کہہ کر خود کو تمیزدار سمجھے۔ بچوں کو سکول بھیج کر مطمئن ہو کر نہ بیٹھ جائیں کہ تربیت سکول کرے گا، اخلاق، تہذیب، آداب سکول سکھائے الا یہ کہ آپ کے نزدیک تربیت کی کوئی دو ٹکے کی قدر ہی نہ ہو۔ وہ چھ سے آٹھ گھنٹے جو سکول میں گزاریں اُس میں اُن کی جذباتی، نفسیاتی کیفیات پر نظر ضرور رکھیں یہ اور بات کہ آپ کے اپنے جذبات و احساس کبھی کسی نے اکنالج نہ کیے اور آپ اپنے بچوں کو بھی ایسی مر کھپ کر خود سے لڑ لڑ کر فولاد بنانا چاہ رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ آپ اپنی زندگی کے ٹراما سے خود باہر نہیں نکلے۔ اگر آپ کے پاس روپیہ پیسہ ہے (یہ بحث نہیں کرتے کہ حلال ہے یا حرام) تو اپنی اولاد کو اس پیسے سے انسان بننے کی تربیت بھی دی جا سکتی ہے۔۔۔ یہ اور بات کہ کچھ لوگوں نے دولت، روپے پیسے کو اپنے بچوں کے پاو¿ں کی جوتی بنا رکھا ہے اور وہ زمین پر دندناتے پھرتے اور اپنی دولت اور حیثیت کے غرور میں انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل رہے ہیں۔
پچھلے دنوں تھانہ ڈیفنس اے، لاہور میں درج ایف آئی آر نمبر 109/23 ایک اور معاشرتی بگاڑ کی غمازی کر رہی ہے کہ جس کے مطابق عمران یونس نامی شخص کی بیٹی علیحہ عمران ڈی۔ ایچ۔ اے لاہور میں واقع غیر سرکاری تعلیمی اداروں کی ایک معروف
اور مہنگی چین کی طالبہ ہے۔ مذکورہ سکول میں علیحہ عمران کو اس کی ہم مکتب طالبات کائنات ملک اور اس کی بہن امامہ ملک نے زد و کوب کیا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ اس دوران سکول کے دوسرے طالب علم اس واقعے کی ویڈیو بھی بناتے رہے جو بعد ازاں سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی۔ تشدد کے واقعے کے پیچھے یہ کہانی ہے کہ علیحہ عمران آج کل کے بگڑے رئیس زادوں اور امیر زادیوں کی طرح نشہ کی لت کا شکار نہیں ہوئی اس بات کا جنت ملک کو قلق تھا کہ وہ بُرائی کے اس فعل میں اس کی ہم رکاب کیوں نہیں بنتی؟
مزید یہ کہ علیحہ کے والد نے جنت ملک کے والد کو اس کی صاحبزادی کی منفی سرگرمیوں سے آگاہ کر دیا تھا، جنت ملک کو اس کا بھی رنج تھا اس نے 16 جنوری کو موقع ملتے ہی علیحہ کو نشانے پر رکھ لیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو لڑکیاں علیحہ عمران کے اوپر بیٹھی ہوئی ہیں اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ مار کٹائی اور تشدد کے دوران وہ دونوں لڑکیاں باآوازِ بلند مسلسل مغلظات بھی بک رہی ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق تشدد کے دوران علیحہ عمران کو اڑھائی تولے زیورات سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ مذکورہ سونے کی قیمت چار لاکھ کے قریب درج کرائی گئی ہے۔ ویڈیو بنانے والے یا دیگر کسی لڑکے کی آواز آتی ہے کہ ”اب چھوڑ دو“ لیکن بگڑی امیر زادی گالیاں بکتے ہوئے جواب دیتی ہے کہ جب تک یہ معافی نہیں مانگے گی اس وقت تک نہیں چھوڑوں گی۔ نہیں معلوم کہ علیحہ کی جان اس شکنجے سے کیسے آزاد ہوئی مگر تشدد کی یہ کارروائی کئی ایک سوال چھوڑ گئی ہے کہ کیا ہم بطور معاشرہ، مہذب معاشرہ کہلانے کے قابل ہیں؟ کیا تعلیمی اداروں بالخصوص نجی تعلیمی اداروں اور مزید تخصیص کی جائے تو مہنگے نجی تعلیمی ادارے کیا اس قابل رہ گئے ہیں کہ معاشرہ ان پر بلا خوف اعتماد کرتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے وہاں بھیج سکے کیونکہ وہاں تعلیم کی آڑ میں کیا کچھ نہیں ہو رہا؟ نوجوان نسل بالخصوص طلبا و طالبات اور پھر سکول کی سطح پر طلبا کا نشے کی لت میں گرفتار ہونا انتہائی تشویش ناک عمل ہے، جس کی بیخ کنی ازحد ضروری ہے۔ گئے وقتوں کی بات ہے کہ نوجوان لڑکے مختلف قسم کا نشہ کرتے تھے۔ آج شاید نشے کے ذرائع اور دستیابی آسان ہو چکی ہے کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی اس بُرے اور بد نما فعل میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ یہاں مہنگے تعلیمی اداروں کے کردار پر بھی سوالیہ نشان اٹھتا ہے کہ کیا وہ درس گاہوں کے نام پر نشے کے لیے محفوظ پناہ گاہیں مہیا کر رہے ہیں؟
اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ انتہائی مہنگے تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کا پیمانہ اور معیار کیا رکھا گیا ہے؟ اس پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہے؟ کیا یہ اونچی دکان پھیکا پکوان تو نہیں؟ کیا تمام مہنگے تعلیمی ادارے اسی روش پر ہیں جس پر ڈبل سٹینڈرڈ کا حامل سکالرز ڈیل ہے؟ کیا ڈیل سکالرز ایسے ”دانش ور“ پیدا کر رہا ہے کہ سر شام تو کیا دن دیہاڑے سکول ایسی مقدس چار دیواری کو اپنی مذموم حرکات کے ذریعے پر اگندہ کریں؟ حکام بالا کو اس صورت احوال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تدراک کرنا چاہیے اور سکول انتظامیہ کے خلاف تادیبی کارروائی کر کے نشان عبرت بنانا چاہیے؟ کیا ان مہنگے تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں؟ کیا جس جگہ پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں تھے؟ کیا یہ مقدمہ اور معاشرتی بگاڑ کی یہ وجہ دوسری وجوہات کی طرح قصہ پارینہ بن جائے گی یا اصلاح معاشرہ کے لیے سٹیک ہولڈز مل بیٹھنے کی کوئی سبیل نکالیں گے۔ ایسے ”جنگی“ حالات جہاں اپوزیشن اور حکومت ملکی معاشی حالات میں بہتری اور دیوالیہ پن کے خطرے سے نکلنے کے اہم ترین اور قومی سلامتی سے متعلق مسئلے پر متفق نہیں ہو رہیں ”اٹ کھڑکے“ کے اس ماحول میں کوئی خوش گمانی قائم کرنا بھی جرا¿تِ رندانہ کے مترادف ہو گا۔ رہے نام اللہ کا۔

تبصرے بند ہیں.