مرد قلندر اور قبضہ مافیاز

23

قبضہ مافیاز نے اپنا کام تو اس وقت ہی دکھانا شروع کر دیا تھا جب لاکھوں افراد اپنی بھاری بھر جائیدادیں ہندوستان میں ہجرت کے موقع پر چھوڑ آئے تھے،اور یہاں سے سکھ اور ہندو سرحد پا ر چلے گئے، انکی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد پر اس نوع کے مافیاز نے ہاتھ صاف کئے جن کی برُی نظر ہر سرکاری اراضی پر آج بھی ہے، مافیاز کے حوصلے اب بھی بلند ہیں ، لاچار، کمزور، سادہ لوح فرد کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لئے یہ بے تاب رہتا ہے،ان کے طریقہ واردات بھی میڈیا پر نمایاں رہتے ہیں ،اس کے باوجود وہ اپنی سرگرمیاں اُسی شدو مد سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔بیوگان اورتارکین وطن کی جائیدادیں انکے خاص حدف ہیں۔
حلقہ احباب میں سے ایک کے عزیز برطانیہ میں مقیم تھے، انھوں نے شہر لاہور میں اپنا گھر اپنی بہن کو واجبی سے کرایہ پر دیا،کچھ مدت کے بعد اس کے شوہر کی نیت خراب ہوگئی،اس نے کرایہ دینا بند کر دیا،بار بار مطالبہ پربھی ادائیگی نہ ہوئی تو ایک روز انھیں عدالت کی طرف سے نوٹس ملا کہ وہ اپنی بہن کو اس جائیداد میں سے حصہ دیں ، ورنہ قانونی چارہ جوئی ہو گی ،اُس وقت تک کرایہ کی ادائیگی ہو گی نہ ہی مکان فروخت ہو سکے گا، نوٹس پا کر انھوں نے اپنے دیس کا رخت سفر باندھا اور عدالت کوتمام دستاویزات دکھا دیں، بہن کو حصہ دینے کے ثبوت فراہم کر دیئے، اس کے بعد اس پر جرح کا آغاز ہوا، کیس طوالت پکڑ گیا، پردیسی کو چھٹی کے خاتمے پر واپسی کی فکر لاحق ہوئی، وہاں جا کر اس نے تارکین وطن کے لئے بنائی گئی خصوصی عدالت میں درخواست دائر کی، جب شنوائی کا موقع آیا،تو نئی بحث کا آغاز کرا دیا گیا۔ اس موقع پر معزز منصف نے رازداری سے انھیں کہا کہ آپ کے پاس اتنی دولت ہے آپ یہ مکان ان کے نام کرا کیوں نہیں دیتے، وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے یہ جج کیا انصاف کرے گا۔
دوبارہ کیس لڑنے اور آخری معرکہ مارنے کے لئے دوبارہ وطن پہنچے، عدالتی موشگافیوں نے انکے چودہ طبق روشن کر دیئے فیصلہ ان کے حق میں یوں ہوا کہ انھیں گذشتہ مدت کے سارے کرایہ سے محروم ہونا پڑا، آخر انھوں نے اپنے مکان کو بیچنے کا فیصلہ کر لیا،مجبوراً مارکیٹ سے کم قیمت پر سمجھوتہ کرنا پڑا، جس روز انھوں نے بیرون ملک جانا تھا، انھیں مقامی
تھانے سے فون آیا کہ فوراً تھانے پہنچیں اِنکے خلاف رقم کے مطالبہ کی درخواست انکے بہنوئی نے دی ہے ،موصوف وہاں پہنچے اور تھانیدار کی مٹھی گرم کرتے ہوئے بولے میں اسے ایک پیسہ نہیں دینا چاہتا ،آپ ہی اس مقدمہ کو نمٹائیں، یوں کئی سال کی ریاضت کے بعد پردیسی اپنا مکان خالی کرا کر کم لاگت پر فروخت کر نے میں کامیاب ہوا۔
گذشتہ دنوں ایک ایسا ہی کیس شہر ملتان سے راقم کے علم میں آیا ،والدین کی وفات کے بعد خاتون جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ ملازمت کے سلسلہ میں دوسرے شہر گئی تو قریبی رشتہ داروں نے وراثتی مکان پر قبضہ کر لیا، کرایہ داروں کو یہ کہہ کر اٹھا دیا گیا کہ مکان مالکہ سے خرید لیا گیا ہے، خاتون کی مداخلت پر بات لڑائی جھگڑے تک پہنچائی گئی ،اسکی عزت کو بھی پامال کیا گیا،جان بوجھ کر بات عدالت تک لے جائی گئی، فوج داری اور سول مقدمات درج کرائے گئے، باوجود اس کے تمام دستاویزات اکیلی خاتون کی ملکیت ظاہر کرتی تھیں،اب چونکہ معاملات عدالت میں زیر بحث ہیں لہٰذا فیصلہ ہونے تک متاثرہ خاتون اس کا قبضہ حاصل کر سکتی ہے نہ ہی فروخت کر سکتی ہے مذکورہ مکان انتہائی ارزاں قیمت پر خرید نے کے پیچھے بد نیتی پر مبنی کارستانی ہے، تاکہ خاتون کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاسکے۔
اس مافیا نے مکان سے ملحقہ دکان پر لکھ کر لگا دیا ہے، مشتری ہوشیار باش! کہ یہ مکان فلاں فرد کی ملکیت اور متنازع ہے مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لئے کوئی بھی شخص اسکی حیثیت تبدیل کرے گا تو توہین عدالت کا مرتکب ہو گاِ،جبکہ خاتون نے جو کاغذات دکھائے اس میں مکان اور دکان کا سرے سے کوئی دوسرا مالک ہے ہی نہیں ،ایسے مکانات انتہائی کم قیمت پر ہتھیانے کا یہ بھی” طریقہ واردات“ ہے۔
قبضہ مافیاز کے حوصلے اس لئے بلند ہوتے ہیں کہ طویل قانونی جنگ ہر فرد لڑ نہیں سکتا پھر کچہری، عدالت کا ماحول خواتین کے لئے تو بہت اجنبی ہوتا ہے، اس لئے وہ دلبرداشتہ ہو کر اپنے ذاتی حق سے دستبردار ہونے ہی کو غنیمت جانتی ہیں۔
قبضہ مافیاز کے حرکارے ہر شہر میں اب بھی موجود ہیں جو سرکاری اور نیم سرکاری پراپرٹی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں،انکے ریکارڈ کی پڑتال کے بعد اس میں ردو بدل کے لئے اپنے ہمنواﺅں کی خدمات حاصل کرتے ہیں، کامیابی کے بعد رات کی تاریکی میں اس پر قابض ہو تے ہیں۔
اب تک اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ انکی پشت پر سماج کے بااثر افراد اور سرکاری افسران ہوتے ہیں،ہر شہر، ٹاو¾ن میں انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے اس کے باوجود انتظامیہ ایسے مافیاز کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے، ارض پاک کا شائد ہی کوئی شہر اس مافیا کے ہاتھوں محفوظ ہو، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ عدالت عظمیٰ نے کراچی میں نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم صادر فرمایا تھا، محکمہ انہار ہو یا ریلوے،آبپاشی سب کی زمینوں پر یہ مافیا قابض ہے، بھاری بھر دعووں کے باوجود سرکار ان سے ریاستی زمین واگذار نہیں کرا سکی ہے۔
ملتان میں ایک مرد قلندر جو پنجاب کی نگران کابینہ کے وزیر ہیں نے نئی تاریخ رقم کر دی، شہر کی خوبصورتی میں بڑا کردار انکی قلم کی نوک سے جاری احکامات کا ہے، برس ہا برس سے سرکاری زمین پر دکانیں بنا کر بیٹھے لوگوں کو اٹھا کر گھنٹہ گھر کو نیا چہرہ دیا ، اس کے باوجود امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، اہل ملتان انکی دیدہ دلیری کو یاد کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے اس وقت ان کے تبادلہ کی وجہ بھی یہ مافیاز بنے،تاہم انھوں نے بہت سے گروہ بے نقاب کر دیئے۔ایک لمحہ کے لئے سوچیں کہ اگر کسی کی عمر بھر کی کمائی سے بنا مکان کسی قبضہ مافیاز کی نذر ہوجائے تو اس پر کیا بیتے گی، ہمارا عدالتی نظام اس قدر فرسودہ ہے کہ اس نوع کے مقدمات کا فیصلہ لینے اور اس پر عمل درآمد کے لئے عمر خضر درکار ہے۔
یوں تو ہر سرکار یہ دعویٰ کرتی ہے کہ تارکین وطن کو وہ ہر قسم کا تحفظ دے گی، مگر تاحال وہ اس مافیاز سے انھیں رہائی دلانے میں ناکام رہی ہے، سوال یہ ہے شہر میں عوامی نمائدگان کی فوج ظفر موج کے علاوہ مقامی عمائدین،علماءاساتذہ کرام ،مذہبی شخصیات،میڈیا کی موجودگی کے ساتھ مٹھی بھر جرائم پیشہ افراد کے سامنے شہری اس قدر بے بس کیوں ہیں؟
افسر شاہی کے ذمہ داران جن کے نام سے جرائم پیشہ لوگ کبھی کانپتے تھے ،وہ بھی ریاستی زمین کے تحفظ میں ناکام نظر آتے ہیں،تو کوئی بے بس لاچار شہری ان سے ریلیف کی کیا توقع رکھے گا۔ قبضہ مافیاز کی دیدہ دلیری کی ایک وجہ تو صاحب ثروت کا اِن پر دست شفقت ہے، دوسرا بدیشی قانون میں سقم اور تیسرا ناجائز اسلحہ کی فراوانی ہے،مذکورہ واقعات قانون کی حکمرانی کے سامنے سوال بن کر کھڑے ہیں کہ کب کوئی مرد قلندر آئے گا اور ان قبضہ مافیاز سے نجات دلائے گا۔

تبصرے بند ہیں.