”تیسرا“

42

شہرہِ آفاق سپنر، ثقلین مشتاق کی اختراع کردہ ایک منفرد گیند، کرکٹ کی دنیا میں ”دوسرا“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ گیند آف سپن ہونے کے بجائے، بلّے باز کو جُل دے کر دوسری طرف مڑ جاتی ہے۔ ثقلین نے اپنے پہلے ٹیسٹ کی پہلی وکٹ اِسی گیند پر لی۔ ثقلین کا کہنا ہے کہ جب وہ گیند کر رہا ہوتا تو وکٹ کیپر معین خان ہانک لگاتا ”ثقی دوسرا“۔ رفتہ رفتہ تمام ملکوں کے کھلاڑی ”دوسرا“ سے واقف ہو گئے۔ اب کرکٹ کمنٹری کسی بھی زبان میں ہو رہی ہو، ثقلین کی متعارف کردہ یہ گیند ’دوسرا‘ ہی کہلاتی ہے۔ کاش ثقلین نے اصطلاح کا درجہ حاصل کر لینے والا لفظ ”دوسرا“ اپنے نام رجسٹر کرا لیا ہوتا۔ آج یہ لفظ کثرت سے بولا تو جاتا ہے لیکن ثقلین کا حوالہ کم کم آتا ہے۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ”تیسرا“ کا ذکر کیا تھا۔ عزیزی مونس الٰہی نے کچھ دن قبل انکشاف کیا کہ 2018 کے انتخابات میں جب وہ ٹکٹ دینے والی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو تحریک انصاف کے دو راہنماؤں کے ساتھ ایک ”تیسرا“ بھی تھا۔ انہوں نے دو راہنماؤں کے نام تو بتا دئیے لیکن ٹی وی میزبان کے اصرار کے باوجود ”تیسرے“ کا نام لینے کے بجائے ایشیائی دوشیزہ کی طرح مُسکرا کے رہ گئے۔ کالم چھپنے کے بعد ”تیسرا“ کی معنویت کے حوالے سے مجھے کئی فون اور پیغامات آئے۔ کئی ایک نے تو ”تیسرا“ کی نہایت پُرمغز، معنی خیز، آسان فہم اور سادہ و معصوم اصطلاح پر تحسین بھی کی۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ ”تیسرا“ کو اپنے نام سے رجسٹر کرا لوں تاکہ جب بھی یہ اصطلاح سیاسی اظہاریوں اور تحریروں کا حصہ بنے تو کوئی دوسرا اسے خود سے منسوب نہ کر سکے۔
عرصے سے اس مفہوم کے لیے اسٹیبلشمنٹ، خلائی مخلوق، نامعلوم اور محکمہ زراعت جیسی ناملائم، کھردری، اَن گڑھ اور بے ذوق سی اصطلاحات استعمال ہو رہی ہیں۔ ان سے ایک طرح کی بیگانگی اور پرایا پن بھی جھلکتا ہے۔ وقت کا تقاضا تھا کہ بدلتے موسموں میں اِن فرسودہ اصطلاحات کے میل خوردہ پیراہن اتار پھینکے جائیں اور اُن کے مفہوم کو کسی نئی خوش وضع اصطلاح کا جامہِ خوش رنگ پہنایا جائے جس میں کسی نوع کے منفی تاثر کا شائبہ تک نہ ہو۔ اِسے قدرت کی عطا ہی کہنا چاہئے کہ عزیزی مونس الٰہی نے میری فکر کا ایک نیا دریچہ کھول دیا۔ اِس حوالے سے میں نے ”تیسرا“ پر غور شروع کیا تو افق تا افق ایک نیا جہان معنی کھُلتا چلاگیا۔ مجھے لگا کہ ”تیسرا“ محض ایک شماریہ، ایک لفظ، ایک اصطلاح، ایک استعارہ یا ایک ضر ب المثل نہیں، ابلاغیات کی ایک کائنات ہے۔
”تیسرا“ سات دہائیوں میں کبھی فارغ نہیں بیٹھا لیکن گزشتہ چھ برس وہ بے حد مصروف رہا۔ کسی خاص لمحے اُس نے ٹھان لی کہ فلاحِ ملک و قوم کے لیے، نوازشریف کو اقتدار سے فارغ کر کے نمونہِ عبرت بنانا اور پاکستان کے تاج میں عمران خان نامی نگینہ سجانا، ضروری ہے، سو وہ سرگرم ہو گیا۔ مونس الٰہی کی انتخابی کمیٹی میں ہی نہیں، پاکستان بھر کے حلقوں میں ٹکٹوں کی بانٹ اور موزوں امیدواروں کے انتخاب میں ”تیسرا“ موجود رہا۔ 25 جولائی کی شام جب لگا کہ سرکوبی کے باوجود نوازشریف کی جماعت سر اٹھا رہی ہے تو ”تیسرے“ نے آنِ واحد میں آر ٹی ایس کی تاریں کھینچ لیں۔ جب یقین ہو گیا کہ ”کانِ انتخابات“ سے گوہر مقصود حاصل ہو گیا ہے تو مستی و سرشاری کے عالم میں اس نے ٹویٹ کیا ”(اللہ) جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے۔“ فتح مبین کے بعد بھی ”تیسرا“ اپنے گوہر مقصود کی چھتر چھایا بنا رہا۔ جب بھی لوگ ٹوٹنے لگے، اتحادی روٹھنے لگے، کسی بل یا بجٹ کی منظوری کے لیے گنتی پوری کرنا پڑی، کسی جج کو راہِ راست پر لانا پڑا، عدلیہ سے کسی مخصوص فیصلے کی ضرورت پڑی، گوہرِ مقصود کے کسی غنیم کو شکنجے میں کسنا پڑا، روپے پیسے کی حاجت ہوئی، میڈیا کو نکیل ڈالنے کی ضرورت پیش آئی، تو ”تیسرا“ سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا اعتراف خود گوہر مقصود نے بھی کیا ہے۔
مافوق الفطرت صلاحیتوں کے باوجود، ”تیسرا“ بہرحال گوشت پوست کا بنا انسان تھا۔ دِل اور دماغ بھی رکھتا تھا۔ سو کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک دِن وہ ”گوہر مقصود“ کی ناکردہ کاریوں سے اوبھ گیا اور کنارہ کر لیا۔ چھتر چھایا ہٹتے ہی سورج سوا نیزے پہ آ کھڑا ہوا۔ مُشکبو ہوائیں آندھیوں میں بدل گئیں۔ خیمہِ اقتدار اُکھڑ گیا۔ طنابیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ قناتیں دھجیاں ہو گئیں۔ دیکھتے دیکھتے فتوحات کے پھریرے لہراتی لشکر گاہ میں شامِ غریباں اتر آئی۔ گوہر مقصود ”تیسرے“ کا مرہونِ احسان ہونے اور اپنی نااہلیوں کا جائزہ لینے کے بجائے، اُسے بُرا بھلا کہنے لگا۔ اُسے جانور کہا، سازشی قرار دیا، امریکی سہولت کار ٹھہرایا۔ میر جعفر اور میر صادق کا نام دیا۔ کرپشن کا محافظ ہونے کا الزام لگایا۔ ”تیسرا“ اِسے خود کاشتہ و خود پرداختہ شجر کا کڑوا کسِیلا پھل جان کر چُپ رہا۔ اَب گوہر مقصود کی تازہ ترین تحقیق یہ ہے کہ ”تیسرے سے لڑائی پاگل پن ہے“۔ کوئی کیسے سمجھائے کہ پارلیمنٹ سے فرار اور اسمبلیوں کو ریت کے گھروندوں کی طرح توڑنا بھی طفلانہ پن ہے۔ بہرحال، گوہر مقصود درست نتیجے پر پہنچا ہے۔ اُس نے سیاست میں جو کچھ بھی پایا۔ ”تیسرے“ کے فیض ہی سے پایا۔ وہ جانتا ہے کہ اگر آئندہ بھی کچھ ہاتھ آئے گا تو وہ ”تیسرے“ ہی کے دستِ معجز نما کا اعجاز ہو گا۔ سو
دِل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویران کیے ہوئے
مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ برسوں کی مشقِ رائیگاں کے بعد، ”تیسرا“ بھی درست نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ وہ سیاسی آلائشوں سے دُور رہے گا۔ چودھری پرویز الٰہی پر اعتمادکا ووٹ، ”تیسرے“ کے اِس عہد کی تصدیق کرتا ہے۔ اس صورتحال پر گوہر مقصود سوچ رہا ہے کہ
ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ اپنا مذہب چھوڑ کر
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
آئین روند کر عشروں حکمرانی کرنے، قوم کی پشت پر تازیانے برسانے اور وطن کی رگوں میں تیزاب بھرنے والا ہر ”تیسرا“ رِزق خس و خاشاک ہو چکا ہے۔ کسی کے مزار پر پھول چڑھتے ہیں نہ سلامیاں دی جاتی ہیں، بگل بجتے ہیں نہ اُن کے دِن منائے جاتے ہیں۔ اپنی مٹی کو اپنے لہو میں نہلا دینے والے شہدا کے مزار شہدا ہی کی طرح زندگی و تابندگی کے درخشاں مظہر ہیں۔ ”تیسرا“ جان گیا ہے کہ اُس کا اپنا کام بہت مقدس، بہت عظیم اور پُروقار ہے۔ اللہ کرے ”تیسرا“ اپنے عزم پر قائم رہے۔

تبصرے بند ہیں.