عمران خان قومی سیاست میں ایک جھگڑالو کھلاڑی کا روپ دھارتے نظر آ رہے ہیں ویسے تو وہ اپنے سیاسی کیریئر کے روزِ اوّل سے ہی منفی اور احتجاجی سیاست کرتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ طویل عرصہ تک تن تنہا سیاست کرتے رہے حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں گود لیا اور نوازشریف کو سیاست سے نکالنے کے لئے عمران خان کو میدان میں اتارا۔ 2018 کے عام انتخابات نے ہمارے مقتدر حلقوں کی اس حوالے سے جانبداری عیاں کر دی۔ آر ٹی ایس بٹھایا گیا۔ آزاد امیدواران اور دیگر لوگوں کو ہانک کر پی ٹی آئی میں دھکیلا گیا۔ عمران خان سر براہ اقتدار بنائے گئے لیکن انہوں نے 44 ماہ کے دوران ملک کو سیاسی، معاشی اور سفارتی ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچا دیا۔ سیاست میں انہوں نے وہ گند مچایا کہ الامان الحفیظ۔ سفارتی سطح پر پاکستان کو مکمل تنہائی کا شکار کر دیا۔ معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ قریب تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے۔ مقتدر حلقے غیر سیاسی ہوئے تو عمران خان حکومت کے خلاف، اپوزیشن اتحاد تحریک عدم اعتماد لایا اور عمران خان کو اقتدار سے باہر نکال دیا۔ اپریل 2022 میں اقتدار چھن جانے کے بعد سے لے کر ہنوز عمران خان انتقامی جذبات کی آگ میں جھلس رہے ہیں وہ ملک کے دیوالیہ ہونے، ڈیفالٹ کرنے سے لے کر ہر اس بات کا ذکر بلند آہنگ سے کر رہے ہیں جس سے نہ صرف حکومت کو ناکام بنایا جا سکے بلکہ ملک بھی دیوالیہ ہو جائے۔ عمران خان حکومت کے خلاف ہر حربہ استعمال کر چکے ہیں اولاً ان کی خواہش تھی کہ ان کی مرضی کا آرمی چیف لگایا جائے۔ آرمی چیف کی سلیکشن کے لئے ان سے مشورہ کیا جائے اس کے بعد انہوں نے کاوشیں کیں کہ جنرل عاصم منیر کو چیف نہ لگایا جائے وہ اس حوالے سے یہاں تک چلے گئے کہ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے دی جائے اور مستقل چیف کی تعیناتی آنے والی حکومت پر چھوڑ دی جائے لیکن انہیں کامیابی نہیں ہو سکی۔ حد یہ ہو گئی کہ جنرل عاصم منیر نہ صرف چیف لگا دیئے گئے بلکہ ان کی تعیناتی پر قوم نے خوشی و تشکر کے بلند آہنگ جذبات کا اظہار کیا۔ عمران خان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔
اس کے بعد انہوں نے اپنا ترپ کا پتا استعفوں کے اعلان کی صورت میں پھینک دیا۔ 26 نومبر کو انہوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا حکومتی اتحاد نے ان کے اعلان کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ استعفے دیں اور اسمبلیوں سے باہر آئیں اور ہم وہاں ضمنی انتخابات کرا دیں گے۔
اس بات کو دو ہفتے گزر چکے ہیں وہ تاریخیں دے رہے ہیں کہا جا رہا ہے کہ 20 یا 22 دسمبر تک مستعفی ہو جائیں گے۔ دھمکی دی جا رہی ہے کہ حکومت نے اگر 20/22 دسمبر تک انتخابات کی تاریخ نہ دی تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ حکومت برملا اعلان کر چکی ہے کہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی اور انتخابات وقت پر ہی ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن تو اسمبلی کی مدت میں 1 سال اضافے کی بات بھی کر چکے ہیں گویا عام انتخابات 2023 کے بجائے 2024 تک بھی جا سکتے ہیں۔
عمران خان ملک میں انتشار اور گومگو کی فضا قائم رکھنے بلکہ اسے پروان چڑھانے میں مصروف ہیں گزرے 8 ماہ کے دوران وہ اسی حکمت عملی پر گامزن رہے ہیں۔ حکومت کو کسی نہ کسی ایشو میں مصروف کر کے عوام کو ناامیدی اور بے یقینی کی کیفیت کا شکار بناتے رہے ہیں۔ پاکستان معاشی استحکام اور بقا کی جنگ لڑ رہا ہے عالمی معاشی بدحالی نے بھی پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں عمران خان کے 44 ماہی دورِ حکمرانی کے منفی اثرات معاشی منظر پر نمایاں ہیں ایسے میں حکومت کو ناکام بنانے کے لئے بے یقینی کی فضا قائم کرنے کی کوششیں ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے۔ عمران خان تواتر سے ڈیفالٹ کی باتیں کر رہے ہیں کبھی یہاں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہونے کی پیش گوئی کرتے ہیں کبھی آئی ایم ایف کے ناراض ہونے کی خبریں سنا کر اپنے من کو خوش کرتے ہیں۔
دوسری طرف حکومت اپنے تئیں ملک کو معاشی طور پر سنبھالنے اور مستحکم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے مشکلات زیادہ ہیں۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے معاشی ترقی سست روی کا شکار ہے تجارتی خسارہ بھی زیادہ ہے، مالیاتی عدم توازن بھی ہے حکومت نے ایک کام تو کر لیا ہے نظام میں مزید گراوٹ کو روک لیا ہے ڈالروں کی ضروریات پوری کرنے کی کامیاب کاوشیں ہو رہی ہیں۔ قدر زر پر بھی کسی حد تک قابو پا لیا ہے۔ سفارتی سطح پر بھی کامیابیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں برادر مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ، چین اور ایسے ہی دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ عمران خان نے تو تمام برادر اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا کر لیا تھا۔ حکومت تسلسل کے ساتھ معاملات میں بہتری لا رہی ہے لیکن عوام کی توقعات کہیں زیادہ اور بلند آہنگ ہیں عمران خان معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے کی مسلسل کاوشیں کر رہے ہیں گزرے آٹھ ماہ کے دوران انہوں نے کبھی لانگ مارچ، کبھی لانگ مارچ کی تیاری کبھی دھرنا اور کبھی ایف آئی آر درج کرانے کے حوالے سے سیاسی معاملات میں تناؤ پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کی شعوری کاوشیں کی ہیں ان کی ایسی ہی کاوشوں کے نتیجے میں معاملات میں، ماحول میں بے یقینی کی کیفیت طاری رہی ہے جو معاشی سرگرمیوں کے احیا کی رفتار پر اثرانداز ہو رہی ہے ہنوز ایسی ہی کیفیت طاری ہے۔ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے اعلان کے حوالے سے ایک نئی کیفیت طاری ہو چکی ہے۔ حکومت عمران خان کی ایسی حرکات و سکنات سے قطعاًمتاثر نظر نہیں آتی ہے لیکن ماحول کی بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے معاشی بحالی کی رفتار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہر تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان استعفوں کے حوالے سے کسی وقت بھی یوٹرن لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کے پی کے اسمبلی ممبران کی طرف سے وفاق کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کرا کر نئی سازش کا عندیہ دے دیا ہے استعفیٰ پروگرام کی ناکامی کے ساتھ ہی کے پی کے اسمبلی ممبران کی طرف سے وفاقی حکومت کے خلاف دھرنے کا اعلان عمران خان پارٹی کی ملک کے خلاف ایک نئی سازش قرار دی جا سکتی ہے جس کے جاری ملکی حالات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.