نظام کا جبر

29

پاکستان کے نامور فلم سٹار رنگیلا (مرحوم) کے بار ے میں یہ کہنا یقینا بجا ہوگا کہ وہ اپنے فن کی اُن بلندیوں پرفائز تھے جہاں بعد میں آنے والوں کے لئے پہنچنا تو درکنا ر،اسکی تمنا بھی خواہش ناتمام کی مانند ہے۔رنگیلا بس ایک ہی تھا دوسرا رنگیلا آج تک پیدا ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ شائقین کے چہروں پر ہنسی بکھیرنے والے تو بہت سے آئے اور آج بھی ہیں تاہم جس منفرد انداز کو رنگیلے نے اپنایا وہ بے مثل ہے۔ رنگیلا مرحوم سے کبھی ملنے کا اتفاق نہ ہوسکا کہ یہ جان سکتا کہ پردہ سکرین کے ذریعے اپنے فن کا لوہا منوانے اورافسردہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والا رنگیلا بحیثیت انسان کیسا ہے۔ یہ بھی دُرست ہے کہ پردہ سکرین پر مختلف کردار ادا کرنے والے فنکار بہت حساس ہوتے ہیں انہیں معاشرتی ناہمواریوں اور مخلوق ِ خدا کے دکھ درد کا اکثر اوقات دوسروں سے زیادہ اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ فنکار دُنیا میں بسنے والے بہت سے حقیقی کرداروں کو پردہ سکرین پر اپنے فن کی بدولت زندہ و جاوید کردیتے ہیں۔گزشتہ دنوں مرحوم فلم سٹاررنگیلا کی دختر فرح دیبا جو سابقہ رکن پنجاب اسمبلی بھی ہیں،سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ ملاقات کے دوران مرحوم رنگیلا کے بارے میں ایک ایسی بات کا انکشاف ہوا جس کی بدولت میرے دل میں پہلے سے موجود انکے لیے عزت و احترام میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ خدائے بزرگ وبرتر کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ رنگیلا مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنائیت فرمائے اور انکی آخرت کی منزلوں کو آسان بنائے۔معلوم ہوا کہ وہ فنکار ہونے کے ساتھ کتنے بڑے انسان بھی تھے۔ فرح دیبا کا کہنا تھا کہ ایک واقعہ نے انکی نہ صرف بطور سیاستدان بلکہ بحثیت انسان ساری زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ وہ آج انسانوں کو جس زاویے سے دیکھتی ہیں اس کی بنیاد انکے مرحوم والد نے ایک سبق آموز واقعہ کے ذریعے فراہم کی۔ اس واقعہ کے متعلق وہ اس طرح گویا ہوئیں۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایم پی اے منتخب ہونے سے قبل اپنے علاقہ سے محض ایک کونسلر منتخب ہوئی تھی۔ میدان سیاست میں ابھی قدم رکھا تھا اور مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا تھا۔ تاہم روایتی سیاستدانوں کے طرزِ عمل کا بغور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ الیکشن کے وقت تو سیاستدان عوام کے سامنے بچھے چلے جاتے ہیں اور ان کے لئے دودھ
کی نہریں بہانے کے دعویدار ہوتے ہیں تاہم جیسے ہی وہ منتخب ہوتے ہیں عوام تو درکنار اکثر اپنے حلقہ کے ووٹرز کے لئے بھی عید کے چاند بن جاتے ہیں۔اپنے ٹیلی فون نمبرز تک تبدیل کرلیتے ہیں۔ایسے میں اگر کوئی ان سے ملنے کے لئے انکی رہائش گاہ پہنچنے کی ہمت جُٹا ہی لے تو دروازے پر موجود سیکورٹی گارڈاپنے روایتی سخت لہجے میں کہہ دیتا ہے کہ صاحب یا صاحبہ گھر پر موجود نہیں۔نتیجتاًمجبور اورمایوس جہاں سے آتا ہے وہیں کی راہ لیتا ہے۔ میں نے بھی کہ سوچا کہ شاید یہی طریقہ کار درست ہے۔بڑا سیاستدان غالباً اسی طرح بنتا ہے۔ چنانچہ ایک روز جب میں صبح تیار ہوکر کہیں جانے والی تھی کہ دروازے پر گھنٹی بجی اور مجھے میرے چوکیدار نے بتا یا کہ کوئی شخص ہے جو کسی کام کے سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ میں نے چوکیدار سے فوراً کہا کہ جاؤ اور اسے جاکر کہہ دو کہ میں گھر پر موجود نہیں ہوں۔ چوکیدار نے آنے والے شخص سے جب یہ کہا تو وہ الٹے قدم واپس چل پڑا۔ میرے مرحوم والد یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے وہ فوراً گھر سے باہر نکلے اور جاتے ہوئے اس شخص کو آواز دی کہ کہاں جارہے ہو۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ چونکہ میڈیم گھر میں نہیں ہے اسلئے اسکا اب یہاں کوئی کام نہیں ہے۔ میرے والد نے اس موقع پر جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا اس نے نہ صرف مجھے ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا بلکہ وقتی طور پر میں سخت پریشان بھی ہوئی۔ رنگیلا مرحوم نے اس شخص سے کہا کہ چوکیدار نے غلط بیانی سے کام لیا ہے، میڈیا گھر پر ہی موجود ہیں۔چلو تم میرے ساتھ اندر آؤ۔ اس شخص کو ڈرائنگ روم میں بیٹھا کر میرے والد نے مجھ سے کہا کہ جاؤ اس سے جاکر ملو اور اس کی داد رسی کرو۔آپ جان سکتے ہیں کہ اس لمحہ میری کیا حالت ہوئی ہو گی۔ میں جیسے تیسے اس شخص سے ملی اور اپنے والد محترم سے تقریباً اشکبار ہوتے ہوئے استفسار کیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے۔ انکے اس عمل سے میری آج بہت بے عزتی ہوئی۔ میرے والد محترم نے مجھ سے کہا کہ تم پر الللہ رب العزت مہربان ہوئے ہیں جو انہوں نے مصیبت میں مبتلا ایک شخص کو تمہارے پاس بھیجا ہے۔تمہیں کونسلر کا عہدہ بھی اسی ذات باری تعالی کی مشیت کی بنا پر ملا ہے۔تم کیوں اپنی قسمت کو گھر سے دہتکار رہی ہو۔لوگوں کی حقیقی خدمت کرو اوپر والا تم پر مہربان ہو گا۔
آج سے لگ بھگ 4 سال قبل وزیر اعظم عمران خان پر قسمت اسی طرح مہربان ہوئی تھی تاکہ وہ عوام کی حقیقی خدمت کرسکیں۔انہوں نے بہت دعوے کیے اور شاید آج بھی کر رہے ہیں۔تاہم تمام اعدادوشماراور حقائق بتارہے ہیں وہ اپنے کسی بھی دعوے یا وعدہ کو عملی جامع نہ پہنا سکے۔کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں چھتوں کا وعدہ محض ایک جھانسے سے کم نہیں۔ان کے دور میں لیا گیا قرضہ جو کہ ملکی تاریخ کا اسی فیصد بنتا ہے درحقیقت وہ بڑی وجہ ہے جسکی وجہ سے آج عوام مصائب کا شکار ہے۔
نظام کا جبر آبلہ پا عوام کوچکی کے دو پاٹوں میں پیس کر رکھ دے تو سکھ کا سانس لینا ممکن نہیں رہتا۔ چار کھونٹ محض روزِ اسود ہی نظر آتا ہے گویا
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اگر ایسے میں آنگن میں ہر سو بھوک بھی ڈیرے ڈال لے تو عقل و دانش اورشعور و فہم کے قیمتی موتی ریت کے ذرے بن کر مٹھی سے پھسلنے لگتے ہیں۔پھر آنے والی ممکنہ تباہی کے سامنے بھلا کون بند باندھے۔ملک آج جس دوہرائے پر کھڑا ہے وہ یقینا ارباب ِ خاص و عام کی بھرپور توجہ کا طالب ہے۔یقیناماضی میں بھی بہت سے مدو جزر آئے اور ہر آنے والا بحران پہلے سے زیادہ سنگین نظر آیا تاہم ملک ِ خدادِ پاکستان ان دنوں جن نازک حالات سے نبرد آزما ہے وہ یقینا ذرا مختلف نوعیت کے ہیں۔کیا ملک میں ففتھ جنریشن وار فئیر جس کا بہت تذکرہ سنتے آئے ہیں،شروع ہونے کو ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو بھلا وہ کون سے عوامل اور عناصر ہیں جو اس جنگ کی چنگاری کو ایک بڑے الاؤ میں بدلنے کی صلاحیت و طاقت رکھتے ہیں؟شنید تویہی ہے کہ اس بار جو ہونے جارہا ہے اور جو ممکنہ طور پر ہوسکتا ہے، اسکی تیاری تیزی سے کی جاری ہے۔
یہ ایک بڑا ٹریپ بھی ہو سکتا ہے۔تاہم یہ سوال ہنوز حل طلب ہے کہ کیا اس بار ملک دُشمن استعماری طاقتوں کی آلہ کار بننے ملک کے وہ سیاسی عناصر جارہے ہیں جنہیں طاقتور حلقوں نے اپنے چھتر چھایہ میں پالا پوسا اور اب وہی ان مقتدر حلقوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے جارہے ہیں؟ یہ تھوڑی باریک گیم ہے جس کا پورا ادراک کیا جانا بہت ضروری ہے۔یقینا ملک کے معروضی حالات ان عناصر کے حق میں نظر آتے ہیں۔ملک کی معیشت ڈوبی ہوئی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگار کا جن بوتل سے باہر آکر کسی بھی صورت پر واپس جانے کو تیار نہیں۔ ملک قرضوں کے بے پناہ بوجھ تلے دبا ہے۔ ایسے میں وزیر ِ اعظم شہباز شریف نے جن حالات میں حکومت کا زمام اختیار سنبھالی ہے وہ بھی یقینا بہت نازک۔اگر وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے حکومت معاشی بحران پر قابو پانا اشد ضروری ہے۔

تبصرے بند ہیں.