علامہ اقبالؒ امت مسلمہ کی زبوں حالی پر فکرمند تھے

318

علامہ اقبالؒ کی شاعری کا مطمع نظر مسلم اْمّہ کی بیداری ہے۔وہ امت مسلمہ کی زبوں حالی پر فکر مند تھے۔ ان کی شاعری میں قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں متعدد بصیرت افروز نکات ملتے ہیں لیکن شاعری کا اصل اور نچوڑ دیکھا جائے تو وہ ملت بیضاکی عظمت رفتہ کی بحالی ہے۔ انکا یہ ایمان تھا کہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دین و دنیا کی فلاح ہے اور اسی جذبہ سے ملت بیضاکی عظمت رفتہ کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی عزت و سربلندی کے حصول کے لیے وہ شریعت کے اولین سرچشموں سے سیرابی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثالی زندگیوں کوسامنے رکھتے ہوئے نوجوانان ملت کو بیدارکرتے ہیں۔
عالمی مجلس بیداری فکراقبالؒ کی ادبی نشست،منعقدہ7دسمبر2022ء میں ”عقل غیاب و جستجو(نصف اول)“کے عنوان پرڈاکٹرفارحہ جمشید نے بتایاکہ یہ شعرعلامہؒ کی نظم”ذوق و شوق“سے لیاگیاہے جودورہ یورپ کے بعدلکھی گئی۔ علامہؒ گول میزکانفرنس میں مسلم لیگ کی نمائندگی کرنے لندن گئے تھے،واپسی پر انہوں نے مسلمانوں کے تاریخی مقامات کادورہ کیااورخاص طورپر مسجدقرطبہ کودیکھ کروہ جذباتی ہوئے اورامت مسلمہ کی تڑپ ان کے اندرپیداہوگئی۔ مسجدقرطبہ کے دورے کے بعد علامہ میں مسلمانوں کو زبوں حالی کی فکرپیداہوئی اورانہوں نے چاہاکہ کسی طرح سے امت مسلمہ اپنے شاندارماضی کی طرف لوٹ جائے اوردنیامیں پھرسے شان و شوکت مسلمانوں کامقدر بنے۔ علامہ نے اپنے کلام میں بتایاکہ انسان کو عشق خداوندی ہی معرف و حقیقت تک پہنچاسکتے ہیں اورجب یہ وصف امت میں پیدا ہو جائے گاتو دنیاو آخرت میں کامیابی اس کامقدر ہوگی۔
اقبالؒ کے فلسفہ عشق وعقل کو قرآن و احادیث اورعلامہ کے اشعارسے ثابت کیاکہ عشق کوعقل پرفوقیت ہے۔ محترمہ نے مولائے روم کے فارسی
اشعار بھی پیش کیے جوعلامہ کے موقف کی تائیدکرتے تھے۔ عقل صرف حواس خمسہ تک محدودہے جب کہ عشق وجدان تک معرفت رکھتاہے۔ علامہ عقل کے خلاف نہیں تھے لیکن خداتک پہنچنے کے لیے عقل کوناکافی سمجھتے تھے۔علامہ نے عقل و عشق کافلسفہ مولائے روم کے کلام سے اخذکیا۔
ملت اسلامیہ کو اس کے شاندار ماضی کا آئینہ دکھاتے ہوئے اقبالؒ اسے اپنے ماضی پر فخر کرنے کا درس دیتے ہیں اور اس میں سے اس کی نشاۃ ثانیہ کیلئے راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اقبالؒ کو ایک تو اسلامی روایات بہت عزیز ہیں دوسرا ان کے نزدیک کوئی قوم اقوام عالم میں اس وقت تک اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکتی جب تک کہ وہ اپنی تاریخ، روایات، اقدار اور ملی خصوصیات کا تحفظ نہ کرے۔
بیداری ملت کے لیے علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں کبھی تو افراد ملت کو ان کا شاندار ماضی دکھایا تو کبھی اتحاد و یقین کی دعوت دی۔ کبھی تو اسکی غلامی پہ رضامندی، سستی و کاہلی اور عمل سے فراغت پر کڑی تنقید کی تو کبھی مغربی تہذیب سے بچنے کا درس دیا۔انھوں نے ایک طرف مومن کو پختہ عزمی، اسلاف سے روحانی نسبت اور خودی کا درس دیا تو دوسری طرف منافقت، مادہ پرستی، بنیاد پرستی سے بچنے کی تلقین کی۔
ہمیں خوب جان لینا چاہیے کہ ہماری آج کی زبوں حالی کی وجہ اقبالؒ کے پیغام ہی کو تو فراموش کرنا ہے۔ اقبالؒ تو اس قوم کے نوجوان کو قلندر، جسورو غیور، او ر شاہین سے مخاطب کریں لیکن یہ اسلام کا باغی بن کر مغربی تہذیب کا ایسا دلدادہ ہوجائے کہ الامان الحفیظ”کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا“۔یاد کیجیے! وہ وقت جب کارل مارکس نے کہا تھا کہ، ”اسلام ایک چلا ہوا کارتوس ہے“۔ لیکن وہ اقبالؒ ہی تھے جنہوں نے مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کابار بار موازنہ پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کیا تاکہ وہ خود کو پہچان سکیں:۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ِ ہاشمی
اْدھر اقبالؒ کی فکر کا خورشید ِ روشن، ادھر تاریک راتوں میں کھڑے ہم، ادھر کلمہ توحید کا اقبالؒی مفہوم، اِدھر شرک و بدعت کی دلدل میں پھنسے ہم،اْدھر اقبالؒ کا پیغامِ اتحاد، اِدھرفرقہ بندی اور ذاتیں، اْدھر پیامِ مشرق، اِدھر تہذیبِ مغرب،اْدھر بانگِ درا، اِدھر مرضِ لادوا، اْدھر بالِ جبریل،اِدھر تماشہ عذرئیل۔ آج ابوالکلام آزاد کی بات مرے جگر پر چرکے لگا رہی ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ:۔ ”ہمیں وہ اسلام نہیں چاہیے جو بوقتِ نکاح خطبہ اور بوقتِ نزع یٰسین پڑھنے کے کام آئے اور باقی تمام معاملاتِ زندگی میں یورپ کے دسترخوان کی چچورٹی ہوئی ہڈیوں پر گزارہ کریں“۔بھول گئے ہم اقبالؒ کو اور چل پڑے مغرب کی روش پر، بھول گئے ہم پیغامِ اقبالؒ کو غلام ہوگئے اغیار کے۔ بھول گئے ہم پیغامِ اقبالؒ کو اور جھک گئے طاغوت کے سامنے، بھول گئے ہم پیغامِ اقبالؒ کو اور بک گئے بڑے ہی سستے داموں، بھول گئے ہم پیغامِ اقبالؒ کو اور ہوگئے ناکارہ، لاچار، بے کار اور ابدی بیمار اور ذلیل و خوار۔
امت مسلمہ کی بیداری کے لیے علامہ اقبالؒؒ کے تصور خودی کو ہمیں اپنے اوپر لاگو کرنا ہو گا۔ وطن عزیز کی سالمیت و بقا کے لیے علامہ اقبالؒؒ کے ان فرمودات پر عمل کرنا ہوگا جن میں وہ مسلمانوں کو باہم ہونے کا درس دیتے ہیں۔یہی حقیقی اسلام ہے جو لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان نفرت اور دوریاں پیدا کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
علامہ اقبالؒؒ عوامی شاعر تھے انہوں نے مسلمانوں کی بیداری کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ عالمی سامراج کے چنگل میں فکری، نظری، ثقافتی اور سیاسی تسلط میں گرفتار امت مسلمہ کے لئے علامہ محمد اقبالؒؒ نے جو چراغ روشن کئے، ان کی کرنیں آج بھی بآسانی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں علامہ اقبالؒؒ کے کلام اور فکر کے پیغام پر عمل کرنے کے لئے رنگ، نسل، فرقے کی عصبیتوں کو ختم کرکے ایک ملت کے تصور کو عام کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کو علامہ اقبالؒؒ کے خواب کی تعبیر بنائیں۔ اسلام کی حقیقی تصویر علامہ اقبالؒؒ کے کلام میں ملتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.