اسحق ڈار سے امیدیں

61

مسلم لیگ نواز کی حکومت کی بقا کی بحث دو حصوں میں مکمل ہوتی ہے، اول، مقتدر حلقوں سے تعلقات، دوم، مہنگائی پر قابو۔ میری پختہ رائے ہے کہ شہباز شریف مقتدر حلقوں سے تعلقات خراب نہیں ہونے دیں گے، وہ اس حوالے سے واضح رائے اور حکمت عملی رکھتے ہیں۔اب وہ وزیراعظم اور پارٹی صدر کے طور پر کسی حد تک ڈرائیونگ سیٹ پر بھی ہیں۔ محتاط لفظوں میں کہنے دیجئے کہ مقتدر حلقوں کو عمران خان کی رخصتی کے بعدعالمی برادری سے جو ’وارم ویلکم‘ مل رہا ہے اس کا مزا اور نشہ ہی کچھ اور ہے ورنہ جناب عمران خان کے دور میں ایک ہی کام ہوتا تھا اور وہ تھا غلطیوں اور بدتہذیبی کی وضاحتیں اورمعافیاں۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں اندرونی اور بیرونی سطح پر ایک بہترین کمبی نیشن بنا دیا گیا ہے۔ بہت سارے حلقے ایک ناگوار تجربے کے بعد جان گئے ہیں کہ اگر کیک کا سائز بڑا ہو گا تو عوام سمیت سب کا شیئر بڑھ جائے گا کہ اگر اپروچ کا یہ فرق نہ آتا تو اسحق ڈار ہی واپس نہ آتے، ان کی واپسی بڑا پیغام ہے کہ بہت کچھ واپس ہو گیا ہے اور نواز شریف بھی واپس آنے والے ہیں۔
پی ڈی ایم یا نواز لیگ کی حکومت کو عوامی سطح پر جس بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ مہنگائی کا خاتمہ ہے۔ ہم ایک درامدی معیشت والے ملک ہیں اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جو برامد کرتے ہیں اس کے خام مال کا بڑا حصہ بھی درامد کرنا پڑتا ہے سوجب روپے کی قیمت گرتی ہے اور ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے۔ مفتاح اسماعیل دو مرتبہ وزیرخزانہ رہے اور ان کی دونوں مرتبہ ہی پالیسی یہ رہی کہ ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا جائے اوریہی وجہ ہے کہ وہ اسحق ڈار کے لندن جانے کے بعد نگران حکومت آنے اور پی ٹی آئی کی حکومت کے بننے تک ڈالر کو بیس روپے کے لگ بھگ اوپر لے گئے۔ یہ درست ہے کہ مفتاح نے شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ میں جب وزارت خزانہ سنبھالی تو ملک کو ڈیفالٹ کا خطرہ تھا مگر اس کے باوجود ڈالر کی قیمت میں ساٹھ روپوں تک کا اضافہ معمولی نہیں تھا۔
اسحق ڈار سے امیدوں سے پہلے مجھے ایک سوال کا جواب تلاش کرنا ہے اور وہ یہ کہ اگر اسحق ڈار کی آمد کے بعد ڈالر پندرہ، سولہ روپے کم ہوا ہے تو اس میں پچاس سے ساٹھ روپوں تک کا اضافہ کس نے کیا تھا تواس کا جواب بظاہر تو یہ ہے کہ مفتاح اسماعیل نے مگر اس کا حقیقی جواب یہ ہے کہ یہ اضافہ عمران خان کی حکومت کے آئی ایم ایف سے کئے ہوئے معاہدوں اور پھر ان معاہدوں کی خلاف ورزیوں نے کیا۔ ان کے معاہدوں کے نتیجے میں شہباز شریف کی حکومت کو بجلی اور پٹرول کے نرخ بڑھانے پڑے، سب سڈی ختم کرنا پڑی، ان پر سیلز ٹیکس اور لیویز عائد کرنا پڑیں۔ معاہدوں کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے جب آئی ایم ایف نے قسط کی فراہمی روکی تو اس کے نتیجے میں ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا۔ پاکستان کے پاس ڈالروں کے وہی ذخائر رہ گئے جو دوست ممالک نے ’پارک‘ کر رکھے تھے اور ناقابل استعمال تھے یعنی عملی طور پر ملک ڈیفالٹ کر گیا۔ڈالر کی شارٹیج نے ڈالر کو مہنگا کیا کیونکہ اب ڈالر صرف ایک کرنسی ہی نہیں بلکہ تجارتی مال بن چکا ہے، اس پر منافع کمایا جاتا ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ ہم لفظی طور پر تو بہت بڑے محب وطن بنتے ہیں اور اس کے لئے جانیں لینے دینے تک کی باتیں کرتے ہیں مگر جب ہما را پیارا پاکستان فنانشل ڈیتھ کی طرف بڑھ رہا تھا اور ڈالر اس کی لائف لائن تھے تو بہت سارے پاکستانیوں نے ’آکسیجن‘کی اس پائپ لائن پر پاؤں رکھ دیا۔ جس کے پاس بھی دس، بیس لاکھ روپے تھے اس نے ڈالر خریدے اور مہنگے بیچنے کے چکر میں سٹاک کر لئے۔ سب کو علم تھا کہ دو سو والا ڈالر اڑھائی سو پر جائے گا اور یہ تین سو پر جانے کی بھی افواہیں تھیں لہٰذا ڈالر کم یاب ہوا، اکنامکس کے اصول کے تحت مہنگا ہواجس نے ہر شے ہی مہنگی کر دی۔
میں نے اسحق ڈار کو سنا ہے، وہ ڈالر کے حوالے سے بہت محتاط ہیں اور اس سے بڑھ کے کچھ بات نہیں کر رہے کہ وہ دو سو روپوں سے نیچے جائے گا حالانکہ اگر نواز لیگ کی حکومت کوئی چھکا لگانا چاہتی ہے تو اسے ڈالر کو واپس ایک سو ساٹھ سے ایک سو ستر کے درمیان لانا ہوگا تاکہ عمران خان کے دور کے ڈالر کے ریٹ کو شکست دی جا سکے۔ میں جانتا ہوں کہ ڈالر کے ساتھ کھیلنے میں اسحق ڈار بہت ماہر ہیں مگر مجھے کہنا ہے کہ شائد انہیں اس کھیل میں ’فنانشل پچ‘ بڑے چوکے چھکے مارنے نہ دے۔ پہلی رکاوٹ یہ ہے کہ اب سٹیٹ بنک آزاد نہیں، وہ مارکیٹ میں ڈالر پھینک کے ڈالر کو اس کی حقیقی قیمت فروخت پر نہیں لا سکتے مگر مجھے یہاں بھی ایک مارجن نظر آتا ہے کہ پاکستان میں ہر آزاد ادارہ بھی درحقیقت حکومت کے تابع ہی ہوتا ہے لہٰذا وہ اپنے کانفیڈنس کے ساتھ اس پر کھیل سکتے ہیں۔ دوسرا ایشو یہ ہے کہ ڈالر صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر یورو، پونڈ اور ریال کے مقابلے میں بھی مسلسل طاقتور ہو رہا ہے لہٰذا روپے بے چارے کی کیا مجال کہ وہ اکیلے میں الگ سے مقابلہ کر کے جیت سکے۔ تیسرا ایشو اس سے بھی سنگین ہے اور وہ پاکستان پر ادائیگیوں کا دباؤ ہے۔ بین الاقوامی قرضوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے اڑھائی ہزار ارب سے تجاوز کرچکے ہیں جو عمران خان کو صرف پانچ سو ارب ملے تھے۔ چوتھا معاملہ سیلاب اور اس کے نتیجے میں پیداوار کے کم ہونے کا ہے جو براہ راست جی ڈی پی کو متاثرکر رہا ہے اور پانچویں رکاوٹ بذات خود آئی ایم ایف ہے جس سے پوچھے بغیر عمران خان کے دور کے معاہدوں کے مطابق آپ کچھ نہیں کرسکتے۔سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کا دور اقتصادی حوالوں سے سیاہ ترین دور تھا۔ اس نے پاکستان کی اندرونی اور بیرونی مشکلات میں اضافہ کیا۔ ا ن کی حکومت محلے کے لوفر کے طور پر بی ہیو کرتی رہی، یہ لوفر سستی، تھرڈ کلاس فارمولہ فلموں میں تو ارب پتی ہوجاتا ہے مگر حقیقت میں اس کی اوراس پر انحصار کرنے والوں کی زندگیاں قابل رحم ہوتی ہیں۔
مان لیجئے،’ہم کوئی غلام ہیں‘ جیسے نعرے عملی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ پریکٹیکل لائف آپ سے ذمے دار ہونا مانگتی ہے۔ آپ کے منہ اور ہاتھ چلانے کی آزادی کامطلب یہ نہیں کہ آپ جو چاہے بکتے چلے جائیں اور اپنا ہاتھ چلاتے ہوئے دوسرے کے ناک پر مکا دے ماریں۔ کسی بہت ہی سیانے بندے سے منسوب قول ہے کہ کسی بھی شخص کی قیمت اس سے ہے کہ اس کے اندر احساس ذمہ داری کتنا ہے، جو شخص جتنا ذمے دار ہے وہ اتنا ہی قیمتی ہے اور یہی فارمولہ ریاستوں پر اپلائی ہوتا ہے۔اللہ کرے ہم ایک فلمی بدمعاشو ں جیسے نعرے لگانے والوں کی بجائے ایک حقیقی ذمے دارریاست کے طور پر اپنا امیج دوبارہ بنا سکیں، آمین۔

تبصرے بند ہیں.