صدیوں کا بیٹا ایم اے راحت کی شاہکار تحریروں میں سے ایک تحریر تھی ۔ جو ستر کی دہائی میں جاسوسی ڈائجسٹ میں قسط وار شائع ہوئی اور بعد پانچ جلدوں میں ناول کی شکل میں شائع کی گئی ۔صدیوں کا بیٹا مذہب کو زیر بحث لائے بغیر انسانی تہذیب و تمدن کی ایسی کہانی ہے کہ جس کی ابتدا وہاں سے کی گئی کہ جب سائنس کی رو سے انسان کا وجود ابھی کرنوں کی شکل میں اس کائنات میں اپنی تخلیق کا سفر طے کر رہا تھا ۔ اس کے بعد قبل از تاریخ کے انسانی دور سے لے کر دور حاضر تک اور پھر مستقبل کے مشینی دور کہ جس میں ذہانت کی حامل مشینیں انسانوں کو غلام بنا کر بھیڑ بکریوں کی طرح زنجیروں میں جکڑ کر قید رکھنے تک کے ادوار کی داستان سنائی ہے ۔ اس عجیب داستان میں درجنوں انسانی ادوار اور ان ادوار کے انسانی معاشروں میں رائج تہذیب و تمدن اور انسانی معاشرتی رویوں کو پیش کیا گیا ہے ۔ انہی ادوار میں صدیوں کا بیٹا جس کی عمر اس دلکش تصوراتی داستان میں لاکھوں کروڑوں سال دکھائی گئی ہے اور جو اپنی پراسرار زندگی کے حالات و واقعات کا داستان گو بھی ہے ایک دور میں وہ ایک ایسی بستی میں جا پہنچتا ہے کہ جہاں پر ایک انتہائی خوبصورت ملکوتی حسن کی مالک ملکہ حکمرانی کرتی ہے ۔ اس وقت کے قبائلی معاشرے میں اس ملکہ کو ایک آسمانی دیوی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور لوگ اس کی باقاعدہ پرستش کرتے ہیں اور ملکہ اپنے تمام احکام کی تعمیل مذہبی ٹھیکیداروں سے کراتی تھی جنھیں اس سماج میں ہیگوں کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ بظاہر تو حکمرانی ملکہ کی ہوتی تھی لیکن وہ ملکہ در حقیقت انھی ہیگوں کی ایک کٹھ پتلی ہوتی ہے ۔ ہیگے اس ملکہ کو شیر خوارگی کی عمر سے ہی اس کے گھر سے اغوا کرنے کے بعد پرورش کرتے ہیں اور ان کا ملکہ پر اس حد تک اثر ہوتا ہے اور وہ ان سے اس حد تک خوف زدہ ہوتی ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر آنکھ بھی نہیںجھپک سکتی ۔ ہمیں یہ داستان پاکستان کی سیاسی تاریخ اور خاص طور پر موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں یاد آ گئی کہ جو پیش منظر میں ہے وہ سب کٹھ پتلیاں ہیں اور ان کی ڈوریں پس منظر میں بیٹھے ہیگوں کے ہاتھ میں ہیں جو ان کٹھ پتلیوں کو جس طرح چاہیں نچاتے ہیں اوریہ ان کے خوف سے ان کے بیانیہ کی ترویج و تدریج کے لئے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے میں مگن رہتے ہیں ۔
اب یہی دیکھ لیں کہ 17جولائی کو پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے پہلے نتائج کے حوالے سے دونوں فریقین کی جانب سے اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کئے جا رہے تھے لیکن غیر جانبدار تجزیہ کاروں کے مطابق مقابلہ انیس 20کا تھا لیکن پھر ایک دم کیا ہوا کہ تمام حلقوں کی جانب سے ان نتائج کے ساتھ تین ہی الفاظ استعمال ہوئے کہ ’’غیر متوقع نتائج‘‘ ۔ یہ تین الفاظ ہی حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لئے کافی تھے لیکن اس کے باوجود نتائج کے فوری بعد ایک بیانیہ تخلیق کیاگیا کہ نواز لیگ کا وجود پنجاب سے ختم ہو گیا حالانکہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ تو فقط بیس صوبائی نشستوں کے نتائج تھے لیکن چند دن پہلے پورے دیہی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے فیز ون میں تحریک انصاف چند حلقوں کے سوا کہیں سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی لیکن ان نتائج کے حوالے سے ہیگوں کی جانب سے کسی بیانیہ کی تخلیق مقصود نہیں تھی اس لئے میڈیا میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ اندرون سندھ سے تحریک انصاف کا صفایا ہو گیا ہے اور یہ بات اس وقت بھی نہیں کہی گئی کہ جب خود تحریک انصاف کے دور میں پنجاب کے ایک آدھ کے سوا تمام ضمنی الیکشن میں نواز لیگ کو کامیابی ملی تھی اور تحریک انصاف کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد میڈیا میں ایک بیانیہ پیش کیا گیا کہ جس کا ڈھنڈورہ اس زور و شور کے ساتھ پیٹا جا رہا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔اس انتہائی مضحکہ خیز بیانیہ کو پیش کرنے والوں سے کوئی سوال کرے کہ آپ نے پنجاب اسمبلی کی 371میں سے صرف بیس نشستوں کے نتائج پر کس کلیہ اور اصول کے تحت فیصلہ کر لیا کہ پنجاب سے نواز لیگ کا خاتمہ ہو گیا ہے اور وہ بھی ان بیس نشستوں پر کہ جو نواز لیگ کی نہیں بلکہ ان میں سے دس پی ٹی آئی کی تھیں اور دس آزاد نے جیت کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اب اس میں سے اگر پانچ سیٹیں نواز لیگ نے لے لی ہیں تو کیا یہ بات نواز لیگ کے حق میں جاتی ہے یا اس کے خاتمہ کی خبر دیتی ہے ۔ در حقیقت بات یہ نہیں ہے بلکہ یہ بیانیہ ہیگوں کے اس پلان کو تقویت پہنچانے کے لئے پیش کیا جا رہا ہے کہ جس کے تحت عمران خان کو اگلے الیکشن میں دو تہائی اکثریت سے واپس لانا مقصود ہے ۔
تحریک انصاف کے حق میں اسی طرح کا پروپیگنڈا 2018کے الیکشن سے پہلے بھی کیا گیا تھا اوراس طرح سے کیا گیا تھا کہ الامان و الحفیظ لیکن پھر کیا ہوا کہ تمام الیکٹ ایبلز کو ملا نے اور آر ٹی ایس کی طلسماتی دنیا تک اور الیکٹرانک میڈیا کے بھرپور استعمال سے لے کر جہانگیر ترین کے ذاتی جہاز کی آنیوں اور جانیوں تک تمام معروف اور غیر معروف ہتھکنڈوں کے باوجود بھی نہ پنجاب فتح ہو سکا اور نہ ہی وفاق میں سادہ اکثریت مل سکی ۔ یہ تو پنجاب کی بات ہے اور سندھ کے متعلق تو 2018کے الیکشن سے ایک ہفتہ پہلے تک حسب روایت پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہونے کے امکانات پر بحث ہوتی رہی لیکن نتائج پھر بھی ہیگوں کی کٹھ پتلیوں کے پروپیگنڈا کے مطابق حاصل نہیں کئے جا سکے ۔ایک دوست سے بات ہو رہی تھی انھوں نے بڑی پیاری بات کی کہ کیا تحریک انصاف کے دور میں نواز لیگ دور کے اورنج ٹرین ، موٹر وے ، میٹرو اور سی پیک پر تیز رفتار عملدرآمد ایسے کام ہوئے ملک سے لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہوا ، دہشت گردی کا دور ختم ہوا یا پنجاب میں جس طرح کے ترقیاتی کام ہوئے اور ہسپتال ، سکول اور کالج یونیورٹیز بنیں یا پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جس طرح 18ویں ترمیم کے ذریعے تجدید آئین کر کے آئین کا حلیہ درست کیا گیا ، سی پیک پر دستخط کئے گئے حقوق بلوچستان بل پاس کیا گیا ، گلگت بلتستان کا ایک نیا یونٹ بنایا، خیبر پختوخوا کو نیا نام دیا اور پورے سندھ میں جس طرح میڈیکل کے شعبہ میں بین الاقوامی معیار کے جدید ترین ہسپتال بنائے کہ جس میں جگر ٹرانسپلانٹ اور کینسر کے سائبر نائف ایسے ہسپتال بھی شامل ہیں ۔اس کے مقابلہ میں کے پی کے میں نو سالہ اقتداراور وفا ق میں پونے چار سال میں ایک پیج پر مثالی ہم آہنگی کے باوجود بھی کوئی ایک ایسا کام نہیں ہو سکا ۔اس لئے ہمارے خیال میں ماضی کی طرح اب بھی عمران خان کے حق میں جتنے مرضی جعلی بیانیہ بنا لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے اس لئے کہ ایک تو پروپیگنڈا کی عمر بھی زیادہ نہیں ہوتی اور دوسرا اس سے زمینی حقائق بھی تبدیل نہیں ہوتے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.