مسٹر عرفان قادر سابقہ پراسیکیوٹر جنرل نیب، جج ہائی کورٹ لاہور اور سابقہ اٹارنی جنرل آف پاکستان، جسٹس (ر) علی اکبر قریشی، جسٹس (ر) شاہد مبین، خواجہ عمر مہدی (ر) کلکٹر کسٹم (بڑے بھائی جناب گلزار احمد بٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کے دوست) اور میں صرف کلاس فیلو ہی نہیں پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں بینچ فیلو بھی تھے۔ یہ حوالہ بھی نہ دیتا تو میرا کالم یا تحریر ہی ہوتی حوالہ دیا ہے کہ میں چشم دید گواہ ہوں، اللہ سلامت رکھے میرے سامنے ان کی زندگی ہے، دنیا بدل گئی اب سوشل میڈیا اور ٹوئٹر ہے۔ آج کل ہمیں بھی عادت پڑ گئی کہ ٹوئٹر دیکھیں کس نے کیا کہا کیا خبر ہے۔ چند صحافی، کالم نگار جن کے کالم تو کوئی پڑھتا نہیں، ذاتی دوستوں میں بینڈھا، باندری اور نام نہاد کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ کوئی مشرقی پاکستان کے سانحہ کی تاریخ مسخ، کوئی عاشق رسول ہونے مگر زبان اور کردار عبداللہ ابن ابی کا ہے، کوئی کئی سیاسی جماعتیں بدلنے والے اور کئی نوازشریف کی مخالفت میں اخلاقیات کی حدیں پار کرتے ہوئے بیرسٹر نظروں سے گزرے اور تو اور ایک ایسی عورت بھی مریم نواز پر اول فول لکھتی پائی گئی جس کے بدن پر کپڑے ہوں نہ ہوں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ایک کرپشن کی وجہ سے کسٹم کی نوکری سے نکلا ہوا انسان آج کل اینکر بنا ہوا ہے اس سے ہٹیں تو شہباز گل ہانڈی والے کی واہیاتیاں ہیں فواد چودھری اقتدار کے ایوانوں کے ساتھ بدلتے ہوئے تیور ہیں جس طرح جسٹس افتخار محمد چودھری کی تحریک جو دراصل اَن دیکھی قوتوں نے لانچ کی تھی کے بعد عدلیہ اور بار کی روایات پھر واپس اپنے وقار کو بحال نہ کر سکیں۔ اسی طرح عمران پراجیکٹ لانچ کرنے کے بعد ہر سُو پھیلی ہوئی بربادی معاشرت اب کبھی سابقہ اخلاقیات کو بحال نہ کر پائے گی۔ عمران نیازی جو پنجاب میں پرویز الٰہی کو سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے، بلیک میل نہ ہونے کے دعویدار تھے اس کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جو ان سے معصوم بیٹی ٹیریان کی ولدیت کا سوال کرتا تھا اس (بابر اعوان) کو اپنا وکیل مقرر کر دیا جو چپڑاسی کے قابل نہ تھا وہ سیاسی اثاثہ ٹھہرا، دین اور عشق رسولؐ کو تقریری ٹچ دینے والا، یوٹرن کو مسلمہ اصول قرار دیا اور جھوٹ کو منشور بنایا۔ نیازی صاحب کا طریقہ واردات ہے کہ جھوٹ بولتے ہیں اور جواب میں جب سچ آئے تو موضوع بنتا ہے اس طرح موصوف موضوع میں رہتے ہیں۔ آتے ہیں عنوان کی طرف جناب عرفان قادر چلتے لمحے میں وطن عزیز کے سب سے بڑے قانون دان کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ کلاس روم میں صرف عرفان قادر تھے جو پروفیسر یا ٹیچر کو وخت ڈال دینے والا سوال کیا کرتے۔ ایک معصوم، شریف النفس اور لاجواب شخصیت کے مالک ہیں میں نے لڑکپن میں ان کو جیسا معصوم، صاف گو، بے باک، دیانت دار دیکھا ملک کے بڑے بڑے عہدے بھگتانے اور وقت کے حکمرانوں میں برابری کی سطح پر تعلقات رکھنے کے باوجود معصوم اور عاجز پایا۔ ایک سچے کھرے اور دبنگ انسان ہیں۔ قانون کے حوالے سے ان کی رائے واضح دو ٹوک اور آئین اور قانون کے عین
مطابق ہوا کرتی ہے۔ انہوں نے بنچ میں بیٹھے جسٹس رمدے، جسٹس ثاقب نثار کوئی بھی ایسا جج جس میں تکبر کا شائبہ بھی انہیں محسوس ہوا انہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی حضرت موسیٰؑ کی سنت ادا کرنے میں تاخیر نہیں کی۔ اب فرماتے ہیں کہ عدالتوں میں رکھا ہوا قرآن شریف ملزم کے ہاتھوں میں دینے کے بجائے ججز کے ہاتھوں میں دیئے جائیں تو فیصلے بہتر ہو سکتے ہیں۔عرفان قادر جناب میاں عبدالقادر صاحب کے بیٹے ہیں جنہوں نے 1941 میں انڈین پبلک سروس کمیشن کی طرف سے منعقدہ آل انڈیا مقابلے میں کامیاب ہونے کے بعد 34 سال پر محیط اپنے شاندار کیریئر کا آغاز کیا۔ اسی سال کلکتہ میں انڈین ریلوے سروس میں شمولیت اختیار کی۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان ریلوے میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ 1958 میں حکومت کی جانب سے انہیں شاندار خدمات پر تمغہ پاکستان سے نوازا گیا۔ انہوں نے پاکستان ریلوے کے پہلے اور دوسرے پانچ سالہ منصوبے کی تصنیف کرنے کے علاوہ نقل و حمل سے متعلق موضوعات پر وسیع پیمانے پر تحریں بھی لکھیں۔ وہ 70 کی دہائی میں پاکستان آرٹس کونسل کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے 1977سے 1985 تک فیڈرل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ حالیہ وزیر اعلیٰ کیس میں ملک و قوم کا جو نقصان ہوا اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ ریاست کے تین ستونوں میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ تو آئینی طور پر دنیا میں لازمی طور پر موجود ہیں۔ حکومت کے خلاف تو لوگ اکثر مظاہرے کرتے ہیں اور تحریکیں چلا کر اسے چلتا کرتے رہے ہیں۔ غلاموں نے آزادیاں حاصل کی ہیں۔ مقننہ پر عدم اعتماد کر کے آئین میں تبدیلی کی تحریکیں چلیں نظام حکومت بدلے صدارتی و پارلیمانی آئے مگر دنیا کی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی ایک واقعہ نہیں جس میں عدلیہ پر جو ایک لازمی اور غیر جانبدار ستون ہے پر انتظامیہ (حکومت) اور پوری قوم نے عدم اعتماد کیا ہو، آپ سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز دیکھیں جس میں پی ٹی آئی کے لوگ عدالت عظمیٰ کے ججز کی تصویروں کے کار پر لگے پوسٹر پر جوتیاں مار رہے ہیں لیکن حالیہ فیصلے میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے کارکنان نے ایسا نہیں کیا۔ البتہ دوران سماعت فل بنچ کی استدعا کی گئی جو مسترد ہوئی مگر جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کر لیا جس میں ارکان پورے تھے اور چیف جسٹس کے فیصلہ کو پذیرائی نہ ملی۔ وزیر اعلیٰ کیس میں عدالت نے اپنے ہی فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا ایک سول جج سے بھی کہا جائے کہ ہم آپ کو اپنا مقدمہ نہیں سنانا چاہتے تو وہ اگلا لمحہ نہیں لگاتا اور مقدمہ کی سماعت روک دیتا ہے مگر عدالت عظمیٰ کے اس بنچ نے شائد سمجھ لیا کہ اگر پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ نہیں بنا تو اللہ نہ کرے پاکستان اگلا دن نہیں دیکھے گا۔ عرفان قادر جو کہ ایک جنگجو قسم کے وکیل ہیں جن کا ہتھیار آئین اور قانون ہے انتہائی محتاط اور دھیمے رہے مگر حالت یہ تھی کہ لوگ عدالت کا فیصلہ ایک دن پہلے ہی سمجھ چکے تھے ورنہ یہ پٹیشن تو قابل سماعت ہی نہ تھی کیونکہ پہلے ہی اس پر فیصلہ آ چکا تھا اور تفصیلی فیصلہ آنا باقی ہے۔ عمران نیازی تو یوٹرنیے مشہور ہیں اس فیصلہ میں عدالت کے بنچ نے بھی یوٹرن لیا۔ اب سپریم کورٹ کے تمام ججز کو اس ناقابل تلافی نقصان کے ازالے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مقننہ کو ایسے قوانین بنانے چاہئیں جن میں عدلیہ کی مداخلت کے تمام راہیں بند کر دی جائیں تاکہ آئندہ عدلیہ پر ایسا وقت نہ آئے جو آج ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا کہ ہم دوستوں نے سب کے نام رکھے ہوئے تھے۔ جیسے مجھے جی دار کہا کرتے تھے۔ ایک لڑکا تھا سیون اپ، اس کا اصل نام کوئی نہیں جانتا۔ جب ہم ایل ایل بی کے آخری دنوں میں تھے عرفان قادر نے مجھ اور علی اکبر سے پوچھا کہ میرا بھی کچھ نام رکھا ہو گا؟ میں نے کہا ہاں، پوچھنے لگے کیا نام رکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا ’’بلراج ساہنی‘‘ (بھارتی فلموں کا ہیرو تھا) عرفان قادر ششدر ہو کر رہ گئے اور کہنے لگے، اوئے! یہ جو تم لوگ بلراج ساہنی کہہ کر سب کچھ اول فول مذاق کرتے رہے ہو، مجھے کرتے رہے ہو۔ ہم نے کہا ہاں، اس پر خوب قہقہ لگا۔ عرفان قادر بلراج ساہنی کی جوانی میں بننے والی فلموں سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ میرے ساتھ عجیب تعلق رہا خاندانی طور پر اللہ کا فضل ہونے کے باوجود میں پرو پرولتاری تھا اور ان کا تعلق بورژوائی طبقے سے تھا۔ مجھے اس وقت بھی ایک معصوم انسان لگتے تھے، اتنا زمانہ اور عہدے بھگتانے کے باوجود ان کی معصومیت، دیانتداری انسان دوستی میں ذرا برابر فرق نہ آیا۔ عرفان قادر اس ملک کا اثاثہ، بے لوث دوست، معصوم انسان اور دیانت داری کے اعتبار سے قابل تقلید شخصیت ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.