سری لنکا مون سون لہر اور پاکستان

22

تیونس سے 18 دسمبر 2010 کو شروع ہونے والی انقلاب کی لہر ’’عرب بہار‘‘ نے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ کئی بادشاہتوں کا تختہ الٹ دیا۔ اس عرب بہار کے اثرات اب بھی مخٹلف عرب ممالک میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس لہر سے عربوں کو موروثی بادشاہتوں اور فوجی آمروں سے آزادی نصیب ہوئی۔ وہ الگ بات ہے کہ عوام کی زندگی میں خوشحالی پھر بھی نہ آسکی۔ 
اسی طرح سری لنکا سے عرب بہار کے بجائے ’’مون سون‘ ‘ لہر اٹھ چکی ہے جس نے دو دہائی سے سری لنکا کے اقتدار پر قابض پاکسے خاندان کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔ خاندانی سیاست سے دلبرداشتہ لوگ کئی ہفتوں سے سڑکوں پر رہے بالآخر 9 جولائی 2022 کو صدارتی محل کا گھیراؤ کیا اور صدر راجا پاکسے نے فرار ہونے میں ہی اپنی بقا سمجھی۔ 
سری لنکا مون سون لہر سے پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ سری لنکا میں حکمرانوں کے خلاف کامیاب ہونے والی لہر مون سون کے موسم میں چلی اسی لیے میں اسے ’’سری لنکا مون سون لہر‘‘ کا نام دے رہا ہوں۔ 
سری لنکا دیوالیہ ہو چکا اور پاکستان بھی دیوالیہ ہونے کے قریب سے قریب تر ہوتا جارہا ہے۔ گو کہ پاکستان میں ٹیلنٹ اور معدنیات سمیت کسی شے کی کمی نہیں۔ سری لنکا کی طرح ہمارا ملک چھوٹا نہیں ہماری آبادی 23 کروڑ ہے اور سری لنکا کی محض ڈھائی کروڑ ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہوا کرتا تھا اس کی زمینیں سونا اگلا کرتی تھیں۔ یہاں سے گندم، کپاس اور کاٹن باہر برآمد کی جاتی تھی۔
بدقسمتی سے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی لالچ اور پیسے کی حوس نے زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کر دیا۔ ملک کی ستم ظریقی یہ کہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اس فعل میں ہمارے عسکری ادارے بھی شامل ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے مکانوں اور نئے نئے شہروں کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ اس سے انکار کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوا کرتی ہے۔
زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں منتقل کرنے کے مکروہ دھندہ پر میں 2013 سے لکھ رہا اور مختلف نیوز چینلز پر خصوصی رپورٹس بھی نشر کر چکا ہوں۔ اس وقت کسی نے اس پر توجہ نہ دی اور سب سمجھتے تھے کہ اس میں میرا کوئی زاتی مفاد ہو گا لیکن آج دیکھ لیں ہماری سبزی ہو یا پھل سب کی فصلیں کم سے کم ہوچکی ہیں۔ 
بیرون ملک برآمد کرنے والا ملک تقریبا ہر شے مہنگے داموں درآمد کر رہا ہے۔ بات آگے نکل گئی میں دوبارہ اسی جملے پر آتا ہوں کہ آبادی میں اضافے کے لیے نئے شہر اور آبادیاں ضروری ہیں۔ بے شک ایسا ہی ہے 8 سال پہلے بھی کہتا تھا کہ کیا ہم بنجر زمینوں پر نئے شہر آباد کیوں نہیں کرسکتے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ آموں کے باغات اور دیگر فصلوں کے لیے زرخیز زمین کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کیا جائے؟ 
یہ کس طرح کے لوگ ہیں جو اپنی جیبیں بھرنے کے لیے اپنی نسلوں کو خوراک سے محروم کر رہے ہیں۔ روس ایک زمانہ میں گندم امریکا سے درآمد کیا کرتا تھا آج وہ دنیا بھر کو برآمد کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اپنی گندم اور دیگر زرعی اجناس کی کمی پوری کرنے کے لیے بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ اپنی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔ ہمارے حکمران اور ادارے محض اپنی حوس کے لیے زرعی زمینوں پر تعمیرات کرکے اپنی نسلوں کا مستقبل خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ 
زرعات تو ایک شعبہ ہے ان ناعاقبت اندیش بازی گروں نے ہر ترقی کرنے والے شعبہ کو نادانستہ یا پھر دانستہ طور پر روند ڈالا ہے۔ ہماری گراوٹ کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ ہمارے سیاستدان اور افسران ایک امریکی ویزا پر بک جاتے ہیں۔ جس ملک میں گراؤٹ کا یہ عالم ہو تو پھر اس ملک کو تباہی سے کون بچا سکتا ہے۔ 
شائد یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے نے سری لنکا کے دیوالیہ کے بعد رپورٹ جاری کی تھی کہ دیوالیہ پن کی یہ لہر صرف سری لنکا تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس لہر سے پاکستان سمیت ایک درجن ممالک متاثر ہوں گے۔ 
پاکستان کو شائد اسی لیے اس فہرست میں شامل کیا گیا کہ اس ملک کے حکمرانوں اور اداروں کو عوام کی پرواہ ہے اور نہ ہی ملک۔ پاکستان کے انتہائی برے حالات کے باوجود سیاستدان اقتدار کی کھینچا تانی میں لگے ہوئے ہیں۔ پروٹوکول اور جھنڈے والی گاڑیوں کے چکر میں سیاستدانوں نے اخلاقیات اور سچ کا جنازہ نکال دیا ہے۔ سیاست میں انتہا پسندی عروج پر ہے۔ نظریات سے اختلاف پر سرعام لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جانا معمول بن چکا ہے۔ پارٹی سربرہان اس عمل کی مزمت کے بجائے سراہتے ہیں۔ 
مایوسی کفر ہے لیکن سردست پاکستان کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہر چیز عیاں ہے کہ ملک کو کس طرح سب نے لوٹا ہے اور ان حالات میں بھی لوٹنے سے باز نہیں آرہے۔ بدعنوانی کے ذریعے کمایا گیا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ 
سری لنکا میں بھی موروثی سیاستدانوں نے تباہی مچائی، کرپشن، اقربا پروری اور پورے پورے خاندان اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ وزرا دوہری شہریت کے ساتھ گاڑیوں پر ملک کا جھنڈا لہرائے پھرتے رہے۔ غیرقانونی طریقے سے حاصل کی گئی رقم بیرون ملک منتقل کرتے رہے۔ کیا یہ سب کچھ پاکستان میں نہیں ہورہا؟ ہمارے حکمران اور اشرافیا کیا اس طرح کے مکروہ فعل انجام نہیں دے رہے؟ مبالغہ آرائی نہ ہو تو ہمارے ملک میں سری لنکا سے کہیں زیادہ اس طرح کے کام کیے جارہے ہیں۔ 
 سری لنکا بہت چھوٹا ملک تھا اور ہمارا ملک اس سے کئی گنا بڑا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں گرنے میں وقت تھوڑا زیادہ لگ رہا ہے لیکن اگر ہم اسی برق رفتاری سے چلتے رہے تو خدا ناخواستہ عالمی اداروں کی رپورٹ سچ ثابت ہو جائے گی کہ پاکستان بھی سری لنکا بن سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.