برادرم خواجہ سعد رفیق سے تعلق کی بنیادیں اندرون ِ لاہور کے محلہ کوچہ پیر شیرازی سے ہیں جہاں اُن کے بزرگ 47ء میں آئے اور میرے بزرگ وہاں تقسیم سے پہلے قیام پذیر تھے۔ اس کے بعد ہمارا تعلق ایم۔ اے۔ اور کالج لاہور کی طلباء سیاست کے حوالے سے رہا۔ ہم عمر بھر ایک دوسرے کے سیاسی اور نظریاتی مخالف رہے لیکن احترام کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ایک زمانے میں خواجہ سعد رفیق بھی عمران نیازی کی سیاست سے متاثر تھے اور انہیں اپنے والد کی برسی پر بطور مہمان بلایا کرتے اور انہیں سٹیج پر بلانے سے پہلے سر پھروں کا لیڈر قرا ر دیا کرتے تھے اور یہ بات 9 مئی نے ثابت بھی کر دی۔ سیاست میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خواجہ سعد رفیق کو عمران نیازی کو ”تھڑے باز“ کہنا پڑا یقینا عمران نیازی نے ہر انسان کے سامنے اپنا روپ نئے انداز میں بدلا ہے۔ خواجہ سعد رفیق سے تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود میں نے کبھی اُن کے اعلیٰ ترین سیاسی ورکر ہونے کاانکار نہیں کیا۔ مشرف دور میں بدترین جسمانی تشدد برداشت کرنے کے باوجود اُن کی اپنی سیاسی جماعت میں ایک گروپ نے اُن کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا لیکن وہ نہ صرف اِس پرخاموش رہے بلکہ اُن دودھ پینے والے مجنوؤں کو وقت نے ہی برہنہ کردیا۔ آج سعد رفیق کا خیال اِس لئے آیا کے تین دنوں سے وائرل ایک ویڈیو کلپ کے بعد خواجہ سعد رفیق کا تردیدی بیان سامنے آیا کہ ”فراڈ اور سازش میں پی ٹی آئی کا کوئی ثانی نہیں۔پی ٹی آئی والوں نے دو سال پرانی تقریر کو ایڈٹ کیا جس سے مطلب ہی بدل گیا“۔ خواجہ سعد رفیق نے اِس پر ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی نے پاکستان کی سیاست میں جھوٹ اور مکاری کی نئی روایات اور جنم دیا ہے۔ چند دن پہلے کچھ لوگوں کو پی ٹی آئی کا جھنڈا جس پرعمران نیازی کی تصویر بنی تھی خانہ کعبہ کی دیواروں کے ساتھ آویزاں کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا۔ جو لوگ اِس حد تک ذہنی پستی کا شکار ہوسکتے ہیں اُن سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔خواجہ سعد رفیق کواِن کے خلاف مکمل قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
ایمل کانسی کیس میں جب امریکی اٹارنی نے عدالت میں کہا کہ ”پاکستانی پیسوں کیلئے ماں بہن بیچ سکتے ہیں۔“ تو یہ بیان انتہائی تکلیف دہ تھا۔ مجھے یاد ہے میں نے اُس وقت روزنامہ تحریک میں تین اقساط میں ایک تحریر شائع کرائی جو یقینا اُس بیان کا ردعمل تھا۔ کسی فرد یا چند افراد کے رویے کو دیکھ کر کسی قوم کا مجموعی رویہ سامنے نہیں آتا۔ مگر میں آج یہ ضرور سوچتا ہوں کہ یہ بیان امریکی اٹارنی نے مانیکا کے بچوں کے بارے میں دیا تھا جو کسی صورت بھی غلط نہ تھا۔محترمہ بشریٰ بی بی کو مکمل تندرستی کا سرٹیفکیٹ دینے والوں نے انہیں کھانے میں احتیاط برتنے کا کہا ہے حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ محترمہ کو کھانے سے مکمل منع کردیتے۔کیونکہ اِس ملک میں اب اتنی سکت نہیں رہی کہ اسے مزید کھایا جا سکے۔ ایمل کانسی کا کہنا تھا کہ اُسے ڈیرہ غازی خان میں رہنے والے پختونوں نے گرفتار کروایا جن کے کھوسوں اورلغاریوں سے تعلقات ہیں۔حالانکہ ایمل کانسی کو گرفتار کرانے کی انعامی رقم اُس روپے سے کہیں کم ہے جو پاکستان کے قومی خزانے سے لوٹی گئی اور آج ایک کھوسہ پھر انہیں مدد اور سہولت کاری کیلئے دستیاب ہے۔
وزیر خزانہ جناب محمد اورنگ زیب رمدے کا کہنا ہے کہ ”عوام کو اب ٹیکس دینا ہی پڑے گا۔“ ایچیسن کالج سے ہوتے ہوئے آغا خان سکالرشپ کی بنیاد پر امریکی یونیورسٹیوں سے ہوتے ہوئے۔ پاکستان کے بنکوں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر کام کرنے والے رمدے فیملی کے چشم و چراغ کے علم میں اتنا بھی نہیں کہ اِس ملک میں صرف”عوام“ ہی ٹیکس دیتے ہیں ”خواص“ کو تو کوئی ایسی بُری عادت کبھی نہیں رہی۔ ویسے یہ بیان سے زیادہ دھمکی ہے کیونکہ ”پڑے گا“ کا مطلب ہے کہ ”آپ کو ہر حال میں کرنا پڑے گا خواہ آپ اس کی استطاعت رکھتے ہیں یا نہیں“ اور بدترین مہنگی کی چکی تلے پسے عوام سے اِس لب و لہجے میں بات کرنا انتہائی غیر جمہوری انداز تخاطب ہے لیکن جمہوریت نام کا کوئی پرندہ ابھی پاکستانی ہواؤں میں محوِپرواز نہیں ہوا اور ابھی دور دور تک اِس کا کوئی نام و نشان بھی نہیں۔ جس دیدہ دلیری سے حکومت عوام سے ٹیکس مانگ رہی ہے کیا اسی دلیری سے ریلیف دینے کا اعلان بھی کرسکتی ہے؟ اِس حکومت سے ملنے والا واحد ریلیف ابھی تک ڈیتھ سرٹیفکیٹ ہے یعنی ایسا ریلیف جس کیلئے گھر میں ایک میت کا ہونا ضروری ہے۔
عمران نیازی بیل کو سینگ مارنے کیلئے روس جا پہنچا تھا اور شہباز شریف نے ایرانی بیل ہی گھر بلوا لیا ہے۔ روس کے ٹکرے کروانے کے بعد ہم نے امریکہ کو دنیا کی اکلوتی سپر پاور بنوا کر دنیا میں طاقت کا توازن خراب کیا۔ جس کے نتیجہ میں 1991ء کے بعد امریکہ کا دل جس پر چاہا چڑھ دوڑا اور نائن الیون کے بعد تو وہ ساری دنیا کے مقابل کھڑا تھا یعنی وہ دنیا جو روس کی موجودگی میں دوستونی تھی روس کے ٹوٹنے سے یک ستونی ہو گئی۔ گو کہ نائن الیون کے سانحے کے رد عمل میں امریکی صدر کا یہ کہنا کہ ”اب دنیا امریکہ کو نئے روپ میں دیکھے گی“ اب تک دنیا دیکھ چکی ہے لیکن میں نے اِس وقت بھی لکھا تھا کہ امریکہ کا یوں ساری دنیا پرچڑھ دوڑنا ایک بار پھر دنیا کو یک ستونی سے دوستونی کردے گا اور دنیا نئے سرے سے نئے عزم کے ساتھ بلاکوں میں تقسیم ہوجائے گی لیکن اِس کی جتنی بڑی قیمت ہمیں ادا کرنا پڑے گی اس کاانداز شاید ہمیں اُس وقت بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ نائن الیون کے وقت ہم نے بزدلی دکھائی تھی اور اب سیاسی عدمِ بلوغت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ غزہ کے حوالے سے دل دکھی ہے اس پر کوئی دوسری رائے نہیں لیکن کیا اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے ہے کہ روس، چین کی عسکری جبکہ چین، روس کی معاشی شکل ہے جبکہ ایران اس وقت ر وس کے ایجنٹ کا رول ادا کررہا ہے۔ پاکستان کی فوج امریکی تسلط سے نکلنے کی خواہش مند بھی ہو تو پاکستان کے سیاستدان ایسا کرنے کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوں گے جس کی زندہ مثال انقلابی عمران نیازی ہے جس نے اپنے اقتدار میں صرف امریکی خوشنودی کیلئے سی پیک پر کام نہیں ہونے دیا لیکن اُس کے اقتدار سے نکلنے کے ٹھیک تین دن بعد سی پیک پر کام جاری ہو چکا تھا۔ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے نتیجہ میں پاکستان کو امریکی غم وغصہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جو مختلف پابندیوں کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب نا قابلِ فہم الزمات کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔ دنیا ایک بار پھر بلاکوں میں تقسیم ہو نے جا رہی ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے اعلان کردہ بدترین دشمن اِس وقت امریکی سیاسی کھیل میں ہمارے خطے میں اہم مہرہ ہے۔ سو یہ بہترین وقت ہے امریکی تسلط سے نکلنے لیکن اِس سے نکلنے کیلئے ویسی کوشش نہیں کرنی چاہیے جیسی عمران نیازی نے 9 مئی کو بقول اُس کے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے تسلط سے نکلنے کیلئے کی تھی۔ اس کیلئے بہترین حکمتِ عملی اختیار کرنا ہو گی۔ ایرانی صدر کو پاکستان بلا کر اُس کے بعد 28 اپریل کو سعودیہ کا تین روزہ دورہ رکھنا یا تو پیغام رسانی کیلئے ہوسکتا ہے یا پھر کسی نئی حکمتِ عملی کیلئے۔ بہرحال دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ابھی تو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پنکی پیرنی کی صحت کا درپیش ہے اس سے فراغت ملتے ہی ان شاء اللہ پاکستانی عوام کے بارے میں بہترین حکمت عملی تیار کی جائے گی اور پاکستان کے تمام مسائل دنوں میں نہیں گھنٹوں میں حل ہو جائیں گے۔
تبصرے بند ہیں.