آگے کنواں پیچھے کھائی

51

سترہ جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد، چوہدری پرویز الٰہی کے پاس زیادہ نمبر موجود ہونے کے باوجود، میں آج ہونے والے انتخابات کے نتائج کی پیشین گوئی نہیں کر سکتا حالانکہ چوہدری پرویز الٰہی کے پاس اکثریت موجود ہے مگر ان کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے ،تمام تر رابطوں اور دباو کے باوجود ،ان کے بارہ ارکان غیر حاضر تھے۔ پی ٹی آئی کے لئے یہ صورتحال غیر معمولی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی مدد لینے پہنچی ہوئی ہے، وہ آصف زرداری کی لاہور میں موجودگی کے خلاف قراردادیں منظور کروا رہی ہے، وہ لبرٹی چوک پر مظاہرے کر رہی ہے اور عمران خان کراچی کا دورہ ملتوی کر کے لاہور بلایا جارہا ہے۔
میں سیاست میں اخلاقیات کو اتنا ہی ڈسکس کرنا چاہتا ہوں جتنی یہ سیاست میں موجود ہیں۔نمبر گیم کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کو اسی طرح وزیراعلیٰ ہونا چاہئے جس طرح اتوار کے روز سے پہلے حمزہ شہباز کو ہونا چاہئے تھا مگر کیا پی ٹی آئی اپنے ارکان کے اختلاف اور عدم اعتماد کے باوجود ایوان کا فیصلہ قبول کرنے کے لئے تیار تھی جو اب مسلم لیگ نون سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما جن اعلیٰ جمہوری اور اخلاقی اصولوں کے ڈھول بجا رہے ہیں وہ اس وقت کہاں تھے جب عام انتخابات سے پہلے ہر پارٹی اور بالخصوص نواز لیگ کے الیکٹ ایبلز کو باقاعدہ اغوا کر کے بنی گالہ پہنچایا جا رہا تھا ۔ یہ اعلیٰ جمہوری اور اخلاقی اصول اس وقت کہاں تھے جب سینیٹ میں پینتیس ارکان والے اسی آصف زرداری کی مدد سے اپنا چئیر مین سینٹ لا کر اسے عظیم فتح قرار دے رہے تھے۔ یہ اعلیٰ جمہوری اور اخلاقی اصول اس وقت کہاں تھے جب پنجاب اسمبلی میں عددی برتری کے باوجود مسلم لیگ نون کے چھ لوٹوں کو چار سال تک گود میں بٹھا کے دودھ پلایا جا تا رہا تھا اور اگر اسی الیکشن کی بات کر لی جائے تو مخالفین کے ووٹ غائب کرنا تو خود چوہدری پرویز الٰہی نے شروع کئے جب نون لیگی ارکان اسمبلی فیصل نیازی اور جلیل شرقپوری جیسے لوٹوں کے استعفے لے کر فخریہ انداز میں عوام کے سامنے پیش کئے گئے اور اب اگر وہ اس کھیل کی انتہا کا سامنا کر رہے ہیں تو کس منہ سے شکوہ کر سکتے ہیں۔ آپ الزام لگاتے ہیں کہ رحیم یار خان سے آپ کے رکن اسمبلی چوہدری مسعود کو پچیس یا چالیس یا پچاس کروڑ ( ہر رہنما کے اپنے اعداد و شمار ہیں) دے کر خریدا گیا اور وہ ترکی چلے گئے مگر آپ جلیل شرقپوری کو ادائیگی کی ویڈیو کے شیخ رشید احمد کے درست ماننے کے باوجود اہمیت نہیں دیتے، آپ کا کتا ٹامی ہے اور دوسروں کا کتا محض کتا کیوں ہے؟
یقین کیجئے، میں نے جب بھی پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر حمایت کی مجھے اس پر شرمندہ ہونا پڑا جیسے رحیم یار خان سے چوہدری مسعود کے بارے میں پی ٹی آئی کا دعویٰ اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ صاحب تو مارچ، اپریل میں ہی پارٹی چھوڑ چکے اور رکنیت سے استعفیٰ بھیج چکے ہیں مگر چوہدری پرویزا لٰہی نہ وہ استعفا سامنے لائے اور نہ ہی قبول کیا مگر مئی میں فیصل نیازی کا دیا ہوا استعفیٰ جولائی میں قبول کر لیا، مان لیجئے، ہمارے دعوے ہوں یا ہمارے وعدے سب ہمارے مفادات کے تابع ہیں ۔ میں نے ساٹھ ستر برس کی سیاست میں سچ کی بالادستی نہیں دیکھی، حق وہی ہے جو ہمارے حق میں ہے۔ اصول اور قانون ہمارے ہاں محض کمزوروں کے ڈھکوسلے ہیں ۔ ہمارا سب سے بڑا اصول ہی یہی ہے کہ ہمارا کوئی اصول نہیں ہے۔ ہمارے لیڈرز یوٹرن کو جسٹی فائی کرتے ہیں، اسے حکمت اور دانائی قرار دیتے ہیں۔
میں یہ پیشینگوئی نہیں کرسکتا کہ چوہدری پرویز الٰہی جیتیں گے یا حمزہ شہباز شریف کہ ایسی پیشینگوئی کسی اصول اور کسی ضابطے پر ہی ہوسکتی ہے مگر میں یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ چوہدری پرویز الہی جیتیں یا حمزہ شہباز شریف، ہر دوصورتوں میں سیاسی ، جمہوری اور پارلیمانی عدم استحکام ہے اور عوام کے لئے مہنگائی، ناامیدی اور خواری ہے۔ ہم پنجاب اسمبلی کی ویب سائیٹ کے مطابق ارکان کی تعداد پر قیاس کر لیتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی جیتتے ہیں تو جان لیجئے پی ٹی آئی کی جدوجہد پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کے لئے نہیں ہے ، وہ اسلام آباد کے اقتدار کو عمران خان کے نیچے لانا چاہتی ہے۔ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بنے تو اس کے ساتھ ہی شہباز شریف کی وفاقی حکومت بتیس کلومیٹر کی حکومت بن کے رہ جائے گی۔ ہم نے ایک سے زیادہ مرتبہ پنجاب اور وفاق کی حکومتیں الگ کر کے دیکھا ہے اور اگر وہ آپس میں متحارب ہوں تو تباہی ہوتی ہے۔ آپ انیس سو اٹھاسی کو بھی یاد کر سکتے ہیں جب بے نظیر بھٹو شہید وزیراعظم تھیں مگر اس وقت بھی ان کے پاس ان کی ہوم گراونڈ یعنی سندھ موجود تھی مگر وہ حکومت اٹھارہ ماہ ہی چل سکی تھی، اب تو ا س سے بھی بدترین صورتحال ہوسکتی ہے جب چوہدری پرویز الٰہی یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں عمران خان نے کہا تو وہ پنجاب اسمبلی توڑنے میں دو منٹ بھی نہیں لگائیں گے۔ اس وقت ملک کو جس معاشی تباہی کاسامنا ہے اس کا علاج صرف اور صرف سیاسی استحکام ہی ہے ۔ سیاسی ترقی اور استحکام ملک کی ہر ترقی اور استحکام کی ماں بھی ہے او رباپ بھی، چاہے وہ تعلیمی ترقی اور استحکام ہو، صحت کا شعبہ ہو یا انفراسٹرکچر۔ اس صورت میں ایک طرف خیبرپختونخوا سے اسلام آباد پرسرکار کی قوت کے ساتھ حملہ ہوگا دوسری طرف پنجاب سے، نتیجے کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔
اب دوسرے قیاس پر بات کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کم از کم دس بارہ ارکان غیر حاضر ہوجاتے ہیں اور دوسرا راونڈ ایک سو اسی ارکان کی حمایت سے حمزہ شہباز جیت لیتے ہیں تو اس صورت میں حمزہ شہباز کو زبردست سیاسی، اخلاقی اور پارلیمانی دباو کا سامنا رہے گا۔ چوہدری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی رہیں گے اور ان کے لئے ایوان میں ایک ڈراونا خواب ۔ جولائی میں اب اپریل والی صورتحال نہیں کہ عمران خان چھ دن میں واپس آنے کی دھمکی دے کر واپس نہ آئیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد انہوں نے ایک مخصوص نفسیاتی فضا قائم کر لی ہے جو غیر فطری بھی نہیں ہے۔ ایک تیسرا قیاس یہ ہے کہ لڑائی جھگڑا ہوجاتا ہے اور کسی کی بھی حکومت نہیں بنتی اور اس کی بنیاد پر وفاقی حکومت پنجاب میں گورنر راج لگا دیتی ہے مگر یہ بھی اس پر بھی وہی سخت ردعمل ہو گا جو سیاسی عدم استحکام کو قائم رکھے گا ۔ تاثر یہی دیا جائے گا کہ باپ نے بیٹے کی حکومت بچانے کے لئے پوری اسمبلی قربان کر دی اور مجھے یہ بات دہرانے میں کوئی عار نہیں کہ مسلم لیگ نون ’ نیریٹیو بلڈنگ‘ اور ’ میڈیا وار‘ میں پی ٹی آئی سے اتنی ہی پیچھے اور پھٹیچر ہے جتنی موٹروے پر فراٹے بھرنے والی نئی کار کے مقابلے میں جلالپور جٹاں جانے والی پینتیس برس پرانی بس ہو سکتی ہے۔
اب آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی ہے اور اس میں گرنا عوام نے ہی ہے۔ پی ٹی آئی کی پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد ڈالر نے چھلانگیں لگانا شروع کر دی ہیں اور اقتصادی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت اسے اڑھائی سو پر ہی روک لے تو کامیابی ہے، واپس لانا مفتاح اسماعیل کے اتنا ہی ناممکن ہے جتنا خرم دستگیر کے لئے لوڈ شیڈنگ روکنا یا مریم اورنگ زیب کے لئے حکومتی بیانیہ بنانا۔ مہنگائی اکیس فیصد پر پہنچ گئی۔ سٹیٹ بنک، کراچی پہنچے ہوئے آلات اور سامان کے لئے بھی ڈالر جاری نہیں کر رہا کیونکہ اس کے پاس ڈالر موجود ہی نہیں ہیں۔ ملک میں ساٹھ ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور ابھی یہ موجودہ سیاسی صورتحال میںکچھ خبریں ہیں باقی ابھی آر ہی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.