ضمنی الیکشن کے بعد

28

مجھے بہت اچھا لگا جب مسلم لیگ (ن) کی طرف سے محترمہ مریم نواز اور ملک احمد خان نے ضمنی الیکشن کے رزلٹس پر اپنی شکست تسلیم کر لی ،یہ ایک اچھا اور سلجھا ہوا رد عمل تھا،مجھے قائد اعظم یادآئے جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تلقین کرتے تھے ،یہی جمہوریت کا درس ہے ، اور اب اس ملک میں ایسی ہی روایات کو پنپنا چاہئے، الیکشن میں ایک کو جیتنا اور دوسرے کو ہارنا پڑتا ہے مگر مریم نواز نے اس ضمنی الیکشن میں اپنی لیڈرشپ کو منوایا ، اگر اس کے بعد پنجاب حکومت اخلاقی طور پر چھوڑ دی جاتی تو مسلم لیگ (ن) کا قد مزید بڑھتامگر ہمارے ہاں سیاسی جمہوری قدریں مضبوط ہونے میں کچھ اور وقت لگے گا۔ 
موجودہ وفاقی حکومت جسے عمران خان امپورٹڈ حکومت کے نام سے پکارتے ہیں ملکی تاریخ کی واحد مرکزی حکومت ہے جو چند دنوں بعد کسی بھی صوبے پر حکمران رہتی نظر نہیںآ رہی ،گلگت بلتستان اورآزاد کشمیربھی اس کی دست برد سے باہر ہے،پنجاب میں لوٹوں کی بیساکھی کے سہارے حکومت سازی میں کامیاب تو ہو گئے مگر ضمنی الیکشن میں عوام اور خود مسلم لیگ (ن) کے اکثر لوگوں نے لوٹوں کو قبول نہیں کیا ،22جولائی کوہائیکورٹ کے حکم کے مطابق وزیر اعلیٰ کا پھر سے انتخاب ہونا ہے نمبر گیم اب تحریک انصاف کے حق میں ہے جسے حالیہ ضمنی الیکشن میں 15مزید ارکان کی حمایت مل چکی ہے،مخصوص نشستوں پر نوٹیفائی ہونے والے پانچ ارکان اور ق لیگ کے دس ارکان کو ملائیں تو تحریک انصاف کو188ارکان کی حمایت حاصل ہے،وزارت اعلیٰ کے ان کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی ہیں،ادھر ن لیگ کے پاس173ارکان تھے جن میں سے پانچ استعفیٰ دے چکے اور کوئی معجزہ نہ ہو تو 22جولائی کو پنجاب کی پگ چودھری پرویز الٰہی کے سر پر سجتی نظرآ رہی ہے۔
 13جماعتی اتحاد دوسری قوتوں کے ساتھ مل کر بھی ضمنی الیکشن میں عمران خان کو شکست نہ دے سکے اور تحریک انصاف نے20میں سے 15نشستوں پر کامیابی حاصل کی یوں پنجاب اور لاہور بھی مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سے سرک گیا ہے ، وزیر اعظم شہباز شریف سمیت پی ڈی ایم کی قیادت عمران خان کو سیلیکٹڈ کے نام سے پکارتی تھی اور وہ بھی طعن آمیز انداز میں مگر حالیہ ضمنی الیکشن میں عوام کی بڑی تعداد نے ان پر جس اندھے اعتماد کا اظہار کیا ہے اس نے عمران خان کو مقبول ترین لیڈر بنا دیا ہے اور مخالفین کی توبہ توبہ کرا دی،ضمنی الیکشن میں عوام کے اعتماد نے عمران خان کو الیکٹڈ ثابت کر دیا ہے،اب اخلاقی طور پر حمزہ شہباز کو رضا کارانہ طور پر حکومت سے الگ ہو جانا چاہئے ورنہ ایک آئینی آپشن تو موجود ہے جس کا پہلا مرحلہ 22جولائی کو طے پا جائے گا۔
 کپتان کو قوم نے جس اعتماد سے نوازا ہے اس کا تقاضا ہے کہ عمران خان بھی اپنا جارحانہ بیانیہ اور انداز تبدیل کریں اداروں سے محاذآرائی کا تاثر مخالفین کی جانب سے دیا جا رہا ہے اس کے اثرات کو ختم نہیں تو کم سے کم کریں،اپنے ورکرز سے تو وہ رابطے میں ہیں ہی مگر اب دیگر جماعتوں کے کارکنوں میں بھی نرم گوشہ پیدا کرنے کی حکمت عملی اپنائیں،الیکٹ ایبلز ہوں یا منتخب ہونے کے خواہش مند یہ تو سب کو معلوم ہو گیا کہ عمران خان جس کو ٹکٹ دے دیں اس کا منتخب ہونا یقینی ہے،عمران خان اس وقت مقبولیت کی اس بلندی پر ہیں جہاں ان سے قبل کوئی سیاستدان ملکی تاریخ میں نہیں پہنچ سکا تھا،عوام نے ان کو جو توقیر دی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اب وہ پارٹی کی حدود و قیود سے نکلیں۔
خود کو بلا شرکت غیرے مسلمہ اور غیر متنازع عوامی لیڈر ثابت کریں،اس کیلئے ضروری ہے ڈائیلاگ کا راستہ کھولا جائے،اگر چہ فواد چودھری نے اس کا عندیہ دیا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ بات چیت صرف آئندہ الیکشن کے اعلان کے بعد ممکن ہے،عمران خان اب کارکنوں کو مخاطب کرنے کے ساتھ دیگر جماعتوں کے کارکنوں کو بھی ایڈریس کریں اور انہیں بتائیں کیا ہونا چاہئے اور وہ جب اقتدار میںآئیں گے تو کیا کریں گے۔
 ن لیگ کو وفاق میں صرف ایک ووٹ کی برتری حاصل ہے اور کسی بھی وقت صدر مملکت شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں،ایک ووٹ کا کھبے سجے ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں،اہم ترین بات پنجاب پر توجہ مرکوز کرنے کی ہے،رانا ثناء اللہ تسلیم کر چکے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کو صرف پانچ ووٹ کی برتری حاصل ہے یہ پانچ لوگ ادھر ادھر ہو گئے تو وزارت اعلیٰ دھری رہ جائے گی،تحریک انصاف کے لوگ اسے دھمکی قرار دے رہے ہیں ان کے خیال میں پانچ ارکان پنجاب اسمبلی کو اغواء کیا جا سکتا ہے یا فرضی کیسوں میں پھنسا کر گرفتار،مگر میں سمجھتا ہوں اب ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا ،عوام اور دنیا اس پر خاموش نہیں رہے گی۔ 
 عمران خان کا ہدف مرکزی حکومت کو چلتا کرنا ہے شائد صوبائی اسمبلیوں کو وہ آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دینا چاہتے اور اس عرصے میں دو تہائی اکثریت کیلئے راہ ہموار کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں،پنجاب میں پرویز الٰہی جیسا زیرک، وضعدار، ملنسار،رکھ رکھاؤ والا وزیر اعلیٰ ہو گا تو قومی اسمبلی کا الیکشن آسانی سے جیتا جا سکے گا ،حالیہ سیاسی بحران میں پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ،ایک ایسے وقت میں جب تاریخ میں پہلی بار چودھری خاندان کسی بھی مسئلہ پر تقسیم کا شکار تھا،مونس الٰہی نے بظاہر وقتی طور پر ڈوبنے والوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان کی سوچ پختہ اور بالغ نظر تھی کہ ڈوبنے والے چند روز بعد ہی ابھرآئے اور جو ابھرے ہوئے تھے وہ اب ڈوبے کہ تب ڈوبے کی صورتحال سے دوچار تھے۔پرویز الٰہی کو اگر باقی ماندہ مدت کیلئے پنجاب میں فری ہینڈ دیا جاتا ہے تو وہ پنجاب کے عوام کی خدمت بھی بہتر انداز سے کر کے مسائل میں دھنسی قوم کو کچھ ریلیف بھی دے سکیں گے ، جس سے عمران خان اور تحریک انصاف کو ہی فائدہ ملے گا۔سیاست کے بیرونی منظر میں سے اگر اندرونی منظر کا مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے موجودہ صوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی اس عرصہ میں کپتان سندھ پر توجہ دیں گے اورجیسے ن لیگ کو پنجاب میں شکست دی ایسے ہی پیپلز پارٹی کو سندھ سے نکالنے کی کوشش کریں گے۔
جملہ معترضہ:حالیہ ضمنی انتخاب میں شکست سے ن لیگی رہنماؤں کے اعصاب بھی چٹخ گئے ہیں،اور پارٹی نظریاتی طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے ،پارٹی میں موجود شدت پسند اور مخاصمت کے حامی لیڈر واضح طور پر پارٹی قیادت کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں اور نواز شریف کے جارحانہ بیانیہ کو جاری رکھنے پر مصر ہیں میاں جاوید لطیف کی پریس کانفرنس میں نواز شریف کی جارحیت کی حمایت اور یہ کہنا کہ اگر جارحیت جاری رہتی تو شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑتاجبکہ شہباز شریف کے حامی لوگ مفاہمت کے حامی ہیں،مریم نواز بھی مخاصمت ہی کی حامی ہیں اب دیکھیں مخاصمت کی فتح ہوتی ہے یا مفاہمت کی۔عمران خان نے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے فریقین کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں،درخواست کو قابل سماعت قرار دیکر مقرر ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ 13جماعتی اتحاد کی قیادت کیلئے ایک اور مشکل کھڑی ہو جائے گی۔

تبصرے بند ہیں.