برسے برسات…!

37

پچھلے چند دنوں میں میڈیا پر موسمی پیشن گوئی میں کہا گیا کہ 30جون سے 5جولائی تک بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے اٹھنے والے آبی بخارات سے لدی ہوائیں جنہیں عرف عام میں مون سون ہوائیں کہاجاتا ہے ملک میں داخل ہوں گی اور بلوچستان اور کراچی سمیت ملک کے جنوبی حصوں کے ساتھ شمال مشرقی اور بالائی پنجاب ، آزاد کشمیر ، خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں اور راولپنڈی اسلام آباد میں مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس میں تیز ہوائوں کے ساتھ موسلا دھار بارش برسے گی۔ جون کے اواخر میں موسم کے حوالے سے کی جانے والی یہ پیشن گوئی گرمی کے ستائے ، حبس کے مارے اور اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بندش کے ہاتھوں سخت تنگ لوگوں کے لئے یقینا خوش کن خبر تھی۔ اللہ کریم کا لاکھ لاکھ شکر کہ 30جون کو کراچی سمیت ملک کے جنوبی حصوں میں باد ل برسنا شروع ہوئے تو یکم جولائی کی رات شمال مشرقی اور بالا ئی پنجاب اور دوسرے علاقوں میں مختلف مقامات پر بارش کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پیر کی صبح جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں مون سون بارشوں کا یہ سلسلہ جسے مون سون کے پہلے سپیل کا نام دیا گیا ہے اس شکل میں اختتام پذیر ہو چکا ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کے مطابق کہیں بارش برسی ہے اور خوب برسی ہے اور کہیں صرف بوندا باندی یا رم جھم ہو ئی ہے اور کہیں آسمان پر صرف بادل ہی چھائے رہے ہیں ۔کراچی جہاں تیز بارشوں کے سپیل کی پیشن گوئی کی گئی تھی وہاں بھی معمولی بارش ہو ئی ہے اور 3اور 4جولائی کو تیز بارش کے برسنے کی جو پیشن گوئی کی گئی تھی وہ پوری نہیں ہو سکی۔ پنڈی اسلام آباد میں بھی تقریباًیہی حال ہے کہ جمعۃ المبارک یکم جولائی کے مون سون کے تیز سپیل کے بعد سے پچھلے چار دنوں کے دوران لوگ بارش کے برسنے کے لئے جہاں ترسے جا رہے ہیں وہاں ایک بار پھر شدید گرمی اور سخت حبس اور بجلی کی طویل بندش کے ہاتھوں ہانپتے کانپتے اور پسینے میں شرابور آسمان کی طرف نظریں جمائے ہیں کہ کب اللہ کریم کی رحمت جوش میں آئے اور ان کو اس نا قابل برداشت موسم سے چھٹکارا ملے ۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ آسمان پر دھندلے بادل اور زمین پر ملجگی دھوپ پھیلی ہوئی نظر آتی ہے لیکن بارش کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ خیر اللہ کریم کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے جب اس ذات پاک کا اذن ہو گا تو بادل بھی برسنا شروع ہو جائیں گے۔
گرمیوں کی بارشوں کا ذکر چلا ہے تو مجھے اپنے بچپن اور لڑکپن کے دور میں اس موسم یعنی موسم برسات میں برسنے والی بارشوں کے حوالے سے کچھ باتیں یاد آرہی ہیں ۔ بعد میں جب میں ہائی سکول میں نویں جماعت میں پہنچا ، تاریخ اور جغرافیہ کے مضامین پڑھنے پڑے تو پتا چلا کہ اس موسم میں برسنے والی بارشوں کو مون سون کی بارشیں کہا جاتا ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ برصغیرجنوبی ایشیا کے ممالک، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ دنیا کے جس حصے میں واقع ہیں اسے مون سون کا خطہ کہا جاتا ہے۔ یہاں گرمیوں کے ان مہینوں (جولائی ، اگست اور اوائل ستمبر )میں بر صغیر کے جنوب اور جنوب مشرق میں واقع سمندروں بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے آبی بخارات میں لدی ہوائیں شمال اور شمال مشرق کی طرف چلتی ہیں۔ یہ ہوائیں جب بر صغیر کے شمالی پہاڑی سلسلوں سے ٹکراتی ہیں تو بلند ہو کر ان کا رخ جنوب اور جنوب مغرب کی طرف ہی نہیں ہو جاتا ہے بلکہ بلندی پر ٹھنڈے منطقوں میں داخل ہونے کی وجہ
سے ان میں موجود آبی بخارات پانی کے قطروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور بارش کی صورت میں زمین پر برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔خلیج بنگال اور بحیرہ عرب سے اٹھنے والی یہ مون سون ہوائیں بر صغیر کے شمالی اور شمال مشرقی حصوں میں زیادہ بارش برسانے کے بعد جوں جوں جنوب اور جنوب مغرب کی طرف آگے بڑھتی ہیں تو آبی بخارات کی کمی کی وجہ سے بارش کی مقدار میں بھی کمی آجاتی ہے۔ خیر یہ تو ضیح نصابی اور کتابی حوالے سے اپنی جگہ درست اور اہم ہو سکتی ہے لیکن میں اس سے ہٹ کر کچھ تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ اپنے بچپن اور لڑکپن میں میں اور میرے ہم عمر رشتہ دار لڑکے بالے ان بارشوں سے کیسے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اپنے گائوں کے پرائمری سکول میں چوتھی اور پانچویں جماعت میں ہمیں اپنے گائوں سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی مہربان اور شفیق استاد ملک محمد اقبال مرحوم پڑھایا کرتے تھے۔ وہ بڑے دھیمے انداز اور بڑی شفقت کے ساتھ ہمیں کئی نئی باتیں سمجھا اور سکھا دیا کرتے تھے۔ آج سے 65/70سال قبل پرائمری سکولوں میں جون جولائی میں گرمیوں کی چھٹیاں نہیں ہو ا کرتی تھیں۔ بلکہ بعد میں ستمبر میں جب ساونی کی فصل پکنے کے قریب ہوتی تھی تو محض تین ہفتوں کے لئے چھٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ خیر میں ذکر اپنے مہربان استاد ملک محمد اقبال مرحوم کا کر رہا تھا ۔ ہمارے پرائمری سکول کی عمارت ایک ہی رخ پر شرقاً غرباً تعمیر کئے دو کمروں پر مشتمل تھی۔ جنوب کی سمت دونوں کمروں کے سامنے برآمدہ ، جب کہ مشرقی، شمالی اور مغرب کی دیواروں میں کھڑکیاں تھیں۔ دونوں کمروں کے درمیان ایک دروازہ بھی تھا ۔پانچویں جماعت میں ہم مشرقی کمرے میں بیٹھا کرتے تھے۔ یہی جولائی یا اگست کا مہینہ تھا ، آسمان پر سیاہ گھنے بادل چھائے ہوئے تھے ۔سکول کی مشرقی دیوار میں کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی ۔ ملک محمد اقبال مرحوم اس ٹھنڈی ہوا میں لمبے لمبے سانس لے رہے تھے اور انہوں نے اس ٹھنڈی ہوا کے بارے میں بتایا کہ ادھر سے آنے والی ہوا کو ہم عام طور پر "پرا” یا” پروا” کہتے ہیں ، یہ اس لئے ٹھنڈی ہوتی ہے کہ اس میں آبی بخارات ہوتے ہیں جو بارش برسانے کا سبب بنتے ہیں۔ آج بھی یہ ہوا چل رہی ہے تو اس کی وجہ سے آسمان پر باد ل چھائے ہوئے ہیں اور کچھ ہی دیر میں بارش برسنا شروع ہو جائے گی۔
ملک محمد اقبال مرحوم کی یہ باتیں اس وقت شاید سمجھ میں آئی تھیں یا نہیں آئی تھیں لیکن بعد میں عملی زندگی میں درس و تدریس سے تعلق قائم ہوا تو یہ باتیں مجھے اپنے طلباء کو سمجھانے میں بہت کام آتی رہیں۔اسی طرح اس دور کے دیگر ذاتی مشاہدات اور اساتذہ کی باتیں بفضل تعالیٰ آج بھی میرے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں تو میرے مہربانوں اور کرم فرمائوں کے لئے دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ خیر وہ زمانہ رہا ، نہ وہ ساتھی رہے، سب مر کھپ گئے ، اللہ کریم ان کی مغفر ت فرمائیں ان کی ہڈیاں بھی خاک ہو گئی ہوںگی، اللہ جانے کب تک زندگی کے سانس لینے نصیب ہوتے ہیں تاہم برسات کے انہی دنوں کی مجھے ایک اور بات بھی یاد آرہی ہے۔ برسات کے ان دنوں میں ہم اپنے مویشی چرانے کے لئے بیلے میں لے جایا کرتے تھے۔ بارش برستی تو بیلے کی ریتلی زمین خوب ہموار ہو جاتی اس زمین پر پاکستان کے نقشے بنانا میرا من پسند مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ بڑی عمر کے لوگ جو وہاں مویشی چرا رہے ہوتے میرے نقشے بنانے کے اس شوق کو دیکھتے تو بڑی حیرانی کا اظہار کرتے۔بچپن میں پاکستان کے نقشے بنانے کا یہ شوق میرے انگ انگ میں ایسے رچا بسا ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتا ہوں تو آنکھیں نمی سے بھر جاتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.