افراد کو احساس کی ضرورت

13

خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھاکہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچر نے پڑھانا چھوڑا بھاگم بھاگ اس کے پاس جا پہنچی بڑی نرمی سے دریافت کیا کیا بات ہے؟ بیٹی کیوں رورہی ہو؟ اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے ہیں۔۔۔ٹیچر نے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کمرے کے دروازے بند کردو کوئی باہر نہ جائے سب کی تلاشی ہوگی۔ٹیچر نے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھر انہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوں کی تلاشی کی ہدایت کردی۔۔کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کی تکرار سے اچانک کلاس ایک بار پھر شور سے گونج اٹھی ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
کیا بات ہے؟
’’ مس تلاشی لینے والی طالبہ بولی۔۔۔انجم اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی۔۔۔ ٹیچر وہیں تڑک سے بولی پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے انجم تڑپ کر بولی نہیں، نہیں مس میں چور نہیں ہوں’’چور۔۔۔نہیں ہو تو پھربیگ کی تلاشی لینے دو‘‘، ’’نہیں‘‘…انجم نے کتابوں کے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا ’’نہیں میں تلاشی نہیں دوں گی‘‘…ٹیچر آگے بڑھی اس نے انجم سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی۔اسے غصہ آگیا ٹیچر نے انجم کے منہ پر تھپڑ دے مارا وہ زور زور سے رونے لگی۔ٹیچر پھر آگے بڑھی ابھی اس نے طالبہ کو مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی۔۔۔رک جائو ٹیچر نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل تھیں نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی۔۔۔انہوں نے طالبہ اورٹیچرکو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس لوٹ گئیں۔۔۔پرنسپل نے پوچھا کیا معاملہ ہے ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔۔۔انہوں نے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا ’’تم نے پیسے چرائے؟‘‘۔’’نہیں” اس نے نفی میں سرہلا دیا۔۔۔ انجم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے ’’بالفرض مان بھی لیا جائے۔۔۔‘‘پرنسپل متانت سے بولیں ’’جب تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تم نے انکار کیوں کیا؟‘‘ انجم خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی۔۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔۔ٹیچر نے کچھ کہنا چاہا، جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گوارا کیوں کیا۔۔۔اس میں کیا راز ہے ؟ وہ سوچنے لگی۔۔اور پھر کچھ سوچ کر ٹیچر کو کلاس میں جانے کا کہہ دیا۔۔۔پرنسپل نے بڑی محبت سے انجم کو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھا کر پھر استفسار کیا اس نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کر دیا پرنسپل نے اشتیاق، تجسس اور دھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا۔۔مگر یہ کیا کتابوں کاپیوں کے ساتھ ایک کالے رنگ کا پھولا پچکا ہوا شاپر بیگ بھی باہر نکل آیا۔ طالبہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیا ہو۔ انجم کی ہچکیاں بندھ گئیں پرنسپل نے شاپر کھولا اس میں کھائے ادھ کھائے برگر، سموسے اور پیزے کے ٹکڑے، نان کچھ کباب اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں۔۔۔سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آ گیا۔۔ وہ کانپتے وجود کے ساتھ اٹھی روتی ہوئی انجم کو گلے لگا کر خود بھی رونے لگ گئی۔۔۔۔انجم نے بتایا میرا کوئی بڑا بھائی نہیں۔۔۔دیگر 3 بہن بھائی اس سے چھوٹے ہیں والد صاحب ریٹائرڈمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ہے پنشن سے گذارا نہیں ہوتا بھوک سے مجبور ہو کر ایک دن رات کا فاقہ تھا ناشتے میں کچھ نہ تھا کالج آنے لگی تو بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا۔میں ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ادھ کھانا ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھا لیا قریبی نل سے پانی پی کر خدا کا شکر ادا کیا۔۔ پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا اس نے مجھے دیکھا تو دیکھتاہی رہ گیا ندیدوں کی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر پہلے وہ پریشان ہوا پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی وہ ایک نیک اور ہمدرد انسان ثابت ہوا میں نے اسے اپنے حالات سچ سچ بتا دئیے اسے بہت ترس آیا اب وہ کبھی کبھی میرے گھر کھانا بھی بھیج دیتا ہے اور گاہکوں کا بچا ہواکھانا ،برگر وغیرہ روزانہ شاپر میں ڈال اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے۔جو میں کالج آتے ہوئے اٹھا کر کتابوں کے بیگ میں رکھ لیتی ہوں اور جاتے ہوئے گھر لے جاتی ہوں میرے امی ابو کو علم ہے میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں۔ بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں۔ وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں۔یہ چھوٹی سی سچی کہانی کسی بھی درد ِ دل رکھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ سکتی ہے ہم غور کریں تھوڑی سی توجہ دیں تو ہمارے اردگرد بہت سی ایسی کہی ان کہی کہانیوں کے کردار بکھرے پڑے ہیں۔اس سفید پوشوں کیلئے کوئی بھی جمہوری حکومت کچھ نہیں کرتی۔ ایسے پسے، کچلے ،سسکتے اور بلکتے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان میں کوئی ڈکٹیٹر راج کررہا ہے یا جمہوریت کا بول بالا ہے۔۔۔نہ جانے کتنے لاکھوں اورکروڑوں عوام کا ایک ہی مسئلہ ہے دو وقت کی روٹی جو بلک بلک کر تھک گئے ہیں اے پاکستان کے حکمرانوں…خدا کے واسطے رحم کرو۔غریبوں سے ہمدردی کرو۔۔ان کو حکومت یا شہرت نہیں دو وقت کی روٹی چاہیے۔ حکمران غربت کے خاتمہ کے لیے اناج سستا کر دیں تو نہ جانے کتنے لوگ خودکشی کرنے سے بچ جائیں۔۔۔یقینا ہم میں سے کسی نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہم روزانہ کتنا کھانا ضائع کرتے ہیں اور کتنے لوگ بھوک ،افلاس کے باعث دانے دانے کیلئے محتاج ہیں -رزق کی حرمت اور بھوکے ہم وطنوں کا احساس کرنا ہوگا حکمران کچھ نہیں کرتے نہ کریں ہم ایک دوسرے کا خیال کریں ایک دوسرے کے دل میں احساس اجاگر کریں یہی اخوت کا تقاضا ہے اسی طریقے سے ہم ایک دوسرے میں خوشیاں بانٹ سکتے ہیں۔بقول خواجہ میر درد
دردِ دل کے واسطے پیدا انساں کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

تبصرے بند ہیں.