کیا مجھے یہ لکھ دینا چاہیے کہ اقتدار کی ا س رسہ کشی میںریاستِ پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے ؟لیکن ایسا لکھنے کیلئے بھی جس دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے وہ فطرت نے مجھے عطا نہیں کیا ۔ پاکستان کی نئی اور پرانی اشرافیہ کیلئے یہ سب کھیل تماشا ہو سکتا ہے لیکن پاکستان عام پاکستانی کیلئے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے ۔ بدترین معاشی حالات نے پاکستان سے سفید پوش طبقے کا مکمل خاتمہ کردیاہے ۔ اب امیراور غریب نامی دو طبقے اس سرزمین پر بس رہے ہیں ۔سیاست کے عالمی جادوگروں نے مقامی عاملوں کے ساتھ مل کر گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کو سویا ہوا محل بنا رکھا ہے ۔ جہاں ہر ذمہ دار اپنی اپنی کرسی پرچاک چوبند سویا ہوا ہے۔ بدترین مہنگائی میں غریب کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا ؟مریض کا علاج کیسے ہو گا ؟ بچہ سکول کیسے جائے گا ؟ ضروریاتِ زندگی کی عدم دستیابی یا اُن تک رسائی انسانی بساط سے باہر ہو جائے تو انارکی کا طوفان سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ آقا بچ پاتا ہے نہ غلام ٗ آجر محفوظ ہوتا ہے نہ اجیر ٗطاقت ور اورکمزور ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے لگتے ہیں ریاستی رٹ ختم ہو نے کا مطلب ہے جتھوںکی حکومت جس کے پاس بڑا جھتا ہوگا وہ اتنے دن زیادہ زندہ رہ لے گا ۔ میں ہرلمحہ بدلتی صورت حال سے صرف ایک ہولناکی اور خوفناکی برآمد ہوتے دیکھ رہا ہوں ۔عام آدمی جو کسی حکومتی یا ریاستی عہدے پر نہیں ٗ غصے میں ہے۔ اور یہ عوامی غصہ ہی تاریخ کے اوراق پر ہمیں عذابِ الٰہی یا حکمران اشرافیہ کی بربادی کا پتہ دیتا ہے ۔
ظہیر الدین بابر نے جون 1526 ء میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جو صرف فرید خان المعروف شیر شاہ سوری کے پانچ سالہ دور حکومت کی رکاوٹ کے باوجود اورنگ زیب کی وفات 1707 تک چلتی رہی ۔اِن 181 سال میں چھ مغل اور ایک پختون حکمران جس کا تعلق بہار سے تھا ٗ نے حکومت کی ۔1707 ء سے لے کر 1857ء تک 150 سال میں مغل تحت پر بیٹھنے والوں کی تعداد تقریب بہت زیادہ ملتی ہے جن میں اکثر کا دورانیہ چند گھنٹے بھی ہے ۔لیکن مغل بیرونی حملہ آورہونے کے باوجود اس لیے ہندوستان میں کامیاب ہوئے کہ وہ یہاں سے کچھ لوٹ کر سمرقند ٗبخارا یا فرغانہ نہیں لے کر گئے ۔انہوں نے سب کچھ یہیں خرچ کیا گو کہ وہ بھی باغات اورحماموں پر ہی خرچ ہوتارہا۔اکبرکا دربار شاہِ فرانس کے دربار سے زیادہ معتبر اور طاقتور تھا لیکن اُس کے مشاغل بھی ’’ شہنشاہوں ‘‘ والے تھے ۔1707ء سے 1857ء تک کوئی مضبوط مرکز نہ ہونے کی وجہ سے اورنگ زیب کی وفات کے صرف 50 سال بعد جنگ پلاسی 1757ء میں انگریزوں نے بنگال پرقبضہ کر لیا ۔ یہ وہی جنگ تھی جس نے میر جعفر پیدا کیا لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر انگریز اس خطے میں نہ آتا تو آج ہماری حالت کیا ہوتی؟میرجعفر پرتوانگریزوں سے ساز باز کرنے کا ثابت شد ہ الزام تو موجود ہے لیکن نواب سراج الدولہ کونسا اس خطے سے وفادار تھا وہ بھی ایک دوسری مغل بیرونی طاقت کا نامزد نمائندہ تھا ۔1757ء سے 1857ء تک سو سال میںانگریزنے پنجاب فتح کیا اور اُس کے بعد اگلے 90 سال اگر ایک طرف بدترین غلامی کے سمجھے جاتے ہیں تو دوسری طرف اُن ترقیاتی کاموں کو بھی دیکھنا چاہیے جو اس خطے میں ہوئے جس سے ہم اور ہندوستان آج بھی مستفید ہو رہے ہیں۔پاکستان کے موجود ہ حالات میں بسرکرنے کے بعد میں چشم تصور سے دیکھتا ہوں تو مجھے مشرقی پنجاب کی خودروجھاڑیاں آج بھی چاندی سے زیادہ پاک اورغلاف کعبہ سے زیادہ مقدس الجھے ہوئے دوپٹوں کی داستانیں سنا رہی ہیں ۔امرتسرریلوے سٹیشن پر کٹی پھٹی لاشوں کی آنکھوں میں منجمد پاکستان پہنچنے کا خواب مجھے آج بھی رلا دیتا ہے کہ ان شہیدوں کی جدوجہد کے نتیجہ میں بننے والی ریاست میں ایسی بے بسی اور بے
غیرتی ہو گی کہ کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔یہ جذباتیت نہیں موجودہ حالات کا مرثیہ ہے۔کیا پاکستان کا مطلب یہی تھا کہ یہاں عام آدمی کی زندگی ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں سے بھی بدتر بنا دی جائے گی ۔مغل اورانگریز تو جا چکے لیکن اب پاکستانیوں کے مدمقابل اُن کی باقیات ہیں ۔ مغلوں جیسی عیاش اورانگریزوں جیسی بے رحم اور قابلیت صفر۔۔۔۔یہی ہے آج کا پاکستان جسے ٹھیک کرنے کا دعوی ہرحکمران نے کیا لیکن آج تک کسی حکمران کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہ اعلان بھی کردے کہ ہم نے پاکستان کی ابتدائی مشکلات جو انتہائی مشکلات میں بدل چکی ہیں اُن پرقابو پا چکے ہیں ۔ 75 سال میں 23واں وزیر اعظم اورچار جرنیلوں کا اقتدار دیکھ چکے ہیں ۔یعنی 33 سال میں چار فوجی حکمران اور 42 سال میں 23وزیراعظم۔ جبکہ انگوٹھا چھاپ مغلوں نے181 سال میں صرف چھ حکمران تبدیل کیے جس میں شیر شاہ سوری کا پانچ سالہ اقتدار غیرمغل تھا۔
گزشتہ 75سال میں قائد کے سپاہیوں اور اقبال کے شاہینوں نے اس ریاست کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ایک فاتح سپاہ مفتو ح کے ساتھ کرتی ہے ۔ہم نے صرف کھیل تماشے کیے جن میں پاکستان دو لخت ہوا ٗ اس ملک کے وزیر اعظم جلسوں ٗ عدالتوں اورسٹرکوں پر قتل اورجلا وطن ہوتے رہے ۔ پاکستانی جرنیلو ں کا طیارہ گرتا ہے اور آج تک اُس کے حقائق کبھی منظرِعام پر نہیں آئے۔ اوجڑی کیمپ بارے کوئی رپورٹ پبلک نہیں ہوئی ٗایبٹ آبا د کمیشن کہاں گیا ؟ پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے پیچھے کون تھا ؟ احسان اللہ احسان تحریک طالبان کا ترجمان ہونے کے باوجود خیرو عافیت سے زندگی گزاررہا ہے ۔آئین توڑنے والے سول اورملٹری حکمران آج بھی قابل ِ تعظیم سمجھے جاتے ہیں کیا کیا کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن میں سو چ رہا ہوں کہیںموجودہ حالات ہماری سابق خاموشی کے کفارے کے دن تو نہیں ؟ کہیں ہم ایک نئے آئینی بحران سے دوچار ہونے تو نہیں جا رہے ۔کہیں پاکستان ون پارٹی رول کی طرف گامزن تو نہیں! یکلخت عدلیہ کے منہ زورفیصلوں نے ایک ہیجانی کیفیت سے ملک کو دو چار کررکھا ہے ۔الیکشن کمیشن پرعدم اعتماد ہے ٗ حکومت پر عد م اعتماد ٗ حکومت کا اپوزیشن پر عدم اعتماد ٗ عمران خان کا فوج مخالف پروپیگنڈا ٗانتظامی اداروں کی ناقص کارروائی ٗ محسوس ہوتا ہے ہر شخص اپنی چمڑی بچانا چاہتا ہے پاکستان بچانے کے موڈ میں کوئی نہیں ۔ممکن ہے کہ پاکستان کے ذمہ داران کے پاس رہنے کیلئے کوئی دوسرا وطن ہولیکن عام آدمی کے پاس پاکستان ہی ایک ٹھکانہ ہے ۔جس کے ایک طرف بے رحم طالبان ٗ دوسری طرف اعلانیہ’’ ازلی دشمن ‘‘ بھارت ٗ تیسری طرف ہمالہ سے بلند اور بحر الکاہل سے گہری دوستی رکھنے والا چین جو کبھی بھی اپنے مفادات سے آگے نہیں سوچتا اورچوتھی طرف گہرا سمندر ۔۔۔اگر آج عمران خان کو موجودہ حکومت قابل قبول نہیں تو کیا موجودہ اتحادی حکومت اورعوام کو ایمپائروں کی مدد سے آیا ہوا عمران خان قابل قبول ہو گا؟ اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ جس الیکشن کمیشن پر پہلے ہی اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں اُس کے اعلان کردہ الیکشن نتائج کو کیا عمران خان تسلیم کرے گا؟ یہ نالائقیاں اور بدمعاشیاں کہاں جا کررکیں گی؟ کیا ایک پرامن پاکستان عام آدمی کے مقدر میں ہے یا پھر ہم ایک ایسے گرداب میں پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ طاقت کے مراکز کو بہت جلد فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ یہ سب کچھ اُن کے ہاتھ سے بھی نکل جائے اور پاکستان کے آسمان پر سوائے آدم خور گدِھوں کے کچھ دکھائی نہ دے۔ کیا برُا منظر ہو گا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.