مسٹروزیراعظم معاشی بحالی اورقرضوں سے نجات ممکن!

21

وزیر اعظم شہباز شریف اوراِن کی حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدے کے امکانات واضح ہونے کے بعد چین کے مالی تعاون کا آغاز ہوگیا ہے اور چینی بینکوں کے کنسورشیم کے فراہم کردہ دو ارب تیس کروڑ ڈالر قومی خزانے میں جمع ہوگئے ہیں۔ تاہم پاکستان کو اگلے مالی سال میں37 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسگ چاہیے اور اگر یہ پروگرام بحال نہیں ہوتا تو اس بیرونی فنڈنگ کا حصول ناممکن ہو گا جو ملکی بجٹ اورمعاشی اشاریوں کو منفی طور پر متاثر کرے گا۔ گزشتہ تین ماہ سے ملک میں جس تیز رفتاری سے مہنگائی، بے روزگاری بڑھی ہے،اس کی مثال پوری ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پیٹرول قیمت میں چوراسی روپے فی لیٹر اضافہ کر کے عوام کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا گیاہے۔ اگرچہ وزیرِ خزانہ نے افراطِ زر کو11.3 پر رکھنے کے عزم کااظہار کیا ہے جبکہ رواں برس11اپریل تا 25 جون تک روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت میں ساڑھے 28 روپے تک اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف 40 دن میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اس اضافے نے جہاں ملک کے ذمے واجب الادا قرضوں میں 3600 ارب کا اضافہ کیا وہیں مقامی صارفین کیلئے تیل، گیس اور کھانے پینے کی اشیا کو مہنگا کر دیا ہے۔ پاکستان اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا شکار ہے کیونکہ درآمدات کیلئے بیرون ملک جانے والے ڈالروں کی تعداد برآمدات اور ترسیلات زر کے ذریعے اندرون ملک آنے والے ڈالروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مارچ میں کل بیرونی اور اندرونی قرضے 53.5 کھرب روپے تھے۔ یہ قرضے 2018 ء میں جب عمران خان نے اقتدار سنبھالاتو 29 کھرب روپے سے ذرا زیادہ تھے۔ یوں ساڑھے تین سال میں 23.7کھرب روپے کا اضافہ ہوا، جو کل قرضوں کا80 فیصد ہے جو مْلک کی جی ڈی پی کا 82 فیصد بنتی ہیپاکستان کی جی ڈی پی 347 ارب ڈالر کی ہو گئی ہے۔ مالی سال 2018 سے2021 تک پی ٹی آئی حکومت کو دس ارب ستر کروڑ ڈالر کا مجموعی سود ادا کرنا پڑا۔ پاکستان نے گذشتہ بیس سالوں میں 112 ارب ساٹھ کروڑ ڈالر حاصل کئے اور اصل زر بمعہ سود 118 ارب ڈالر واپس کئے اسکے باوجود مالی سال 2001 میں پاکستان کے ذمے صرف 37 ارب بیس کروڑ ڈالر کے قرضے تھے۔ مالی سال2021میں غیرملکی قرضوں میں 228 فیصد اضافے کے ساتھ پاکستان پر 122 ارب بیس کروڑ ڈالر کے قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے۔پاکستان نے اصل زر تک کئی بار واپس کر رکھا ہے اسکے باوجود ہم دنیا کے مقروض ہیں۔ یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ اکثر اوقات پاکستان نئے قرضے ماضی کے قرضوں کی واپسی کیلئے دینے لگا ہے جس سے ستر فیصد نئے قرضے توازن ادائیگی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے ہے۔ اس سے نہ صرف غیرملکی قرضہ بڑھا ہے بلکہ ہائی کاسٹ والا قرضہ زیادہ اور رعایتی قرضہ کم ہو گیا ہے۔پاکستان ہائیر گروتھ کی وجہ سے مشینری امپورٹ کو بڑھا رہا ہے جس سے تجارتی خسارے میں اضافہ ہونے سے جاری اخراجات کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔اگلے مالی سال کیلئے 9502 ارب روپے کا کْل تخمینہ لگایا گیاہے۔جس میں قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے سب سے زیادہ رقم رکھی گئی ہے جوثابت کرتی ہے کہ ہماری معیشت پر قرضوں کاکتنا دباؤ ہے۔بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی کیلئے مختص رقم3950 ارب روپے ہے بجٹ کا44فیصد سوداورقرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے گایوں پاکستان80 ہزار ارب روپے کامقروض ہوچْکا ہے۔گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں ریکارڈ قرضے لیے گئے، جبکہ کوئی ایسا ترقّیاتی منصوبہ نہیں لگایا جاسکا، جس سے آمدنی بڑھائی جاسکے۔ بجٹ میں جو56 فیصدرقم بچی ہے، اْس میں دفاع1523ارب روپے، گرانٹس1244ارب، ترقّیاتی اخراجات 800 ارب روپے، انتظامی معاملات 550 ارب روپے، تنخواہوں اورپینشن کیلئے530ارب روپے جبکہ سبسڈی کیلئے 688ارب روپے رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں گروتھ ریٹ کا ہدف پانچ رکھا گیا ہے، جبکہ گزشتہ سال یہ5.7 تھالیکن کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اٹھارہ بلین ڈالرز ہے جومسلسل بے قابو ہو رہا ہے۔آئندہ مالی سال کیلئے13 شعبوں کی بڑی صنعتوں پر اضافی 10 فیصد جبکہ دیگر تمام شعبوں کی صنعتوں پر 4فیصد اضافی سپر ٹیکس کا عائد کیا گیاہے۔لیکن امتیازی طور پر ایک مرتبہ پھر ہزاروں ایکڑ زمینوں کے جاگیرداران پر سپر زرعی ٹیکس عائد نہیں کیا گیاجس سے یقینًاقومی خزانے کو خطیر مالی وسائل حاصل ہوسکتے ہیں اور صنعتوں پر لگائے گئے سپر ٹیکس میں بھی نمایاں کمی کی جاسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس طرح وسائل امیروں سے غریبوں کو منتقل ہوں گے باوجود خدشہ ہے کہ یہ بوجھ بالآخر عام صارف ہی کو منتقل کر دیا جائے گالہٰذا حکومت اس خدشے کا مؤثر سدباب کرے۔
بڑا چیلنج آئی ایم ایف ہے جس سے قرض ملنا دراصل ایک طرح کی گارنٹی ہے، جو بین الاقوامی مالی ساکھ کیلئے ضروری ہے۔ مْلک قرضوں میں بْری طرح جکڑاچکا ہے اور اس کے نتائج نسلیں بھگتیں گی۔سوال ہے کہ آخر کب تک ہم قرضوں پرہی پر گزارا کرتے رہیں گے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان کو ترسیلات زر کا ایک مخصوص حصہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کیلئے مختص کرنا ہو گا نہ کہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید غیرملکی قرضے لئے جاتے رہیں۔ غیرملکی قرضے ان پروجیکٹوں کیلئے فنانس ہوں جو جی ڈی پی گروتھ کا موجب بنیں، برآمدات میں اضافے کریں تاکہ معیشت ان قرضوں کی واپس ادائیگی کرسکے۔ اس طرح پاکستانی قوم پر قرضوں کا جو پہاڑ بن گیا ہے اس کی بتدرج ادائیگی کیلئے ایک واضح شفاف ٹارگٹ مختص ہو گا۔ اگر حکومت ترسیلات زر کا دس فیصد زرمبادلہ بھی غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے مخصوص کر دے تو اس سے تین ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے واپس ہو سکیں گے اور اسطرح چونکہ امپورٹ کیلئے پاکستان کے پاس کم فارن ایکسچینج ہو گا تو اس کے نتیجہ میں حکومت پاکستان اپنی امپورٹس محدود کریگی اورپاکستان میں درآمدات کے متبادل تلاش ہونا شروع ہو جائیں گے،پاکستان کو سعودی عرب نے تیل کی ادائیگی تاخیر سے کرنے کی سہولت میں توسیع کر دی ہے، اس  طرح کی سہولت قطر سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حکومت پاکستان کو قطر سے درخواست کرنا ہو گی کہ وہ ایل این جی کی قیمت کا کچھ حصہ پاکستانی کرنسی روپے میں لے لیا کرے اور ایل این جی جو پہلے ہی پانچ سے پندرہ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے اس کے ایک حصے کو انٹرسٹ فری مؤخر کر دے تو اس سے بھی پاکستان کی معیشت کو بڑا سہارا ملے گا۔ آبی ذخائر نہ بننے سے سالانہ 21ارب ڈالر مالیت کا 29ملین ایکٹر فٹ پانی سمندر برد ہو جاتا ہے جسے ڈیمز کی تعمیرات اوربہترحکمت عملی سے سستی انرجی کے ذرائع میں تبدیل کیاجاسکتاہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اوراِن کی حکومت کے پاس زیادہ سے زیادہ ایک سال ہے اورپھر انتخابات میں بھی جانا ہے۔ پنجاب میں17 جولائی کو20 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج پر پنجاب حکومت کا دارومدار ہے، جو مْلک کا سب سے بڑا صوبہ اورفیصلہ کْن سیاسی قوّت کاحامل ہے۔ اس لیے اسے معیشت میں بہتری لانی ہوگی وگرنہ اس کی قیمت الیکشن میں چْکانا پڑے گی۔

تبصرے بند ہیں.