اس مٹی کا قرض ادا کریں!

62

کچھ عرصہ سے ہم تواتر سے سنتے ہیں کہ پاکستانی عوام میں سیاسی شعور بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے۔ عوام الناس کی اکثریت واقعتا سیاست میںدلچسپی رکھتی ہے۔ کوئی پڑھا لکھا شخص ہو یا کم پڑھا لکھا، طالب علم ہو یا استاد، بڑا کاروباری شخص ہو یا گلی محلے میں ریڑھی لگانے والا، ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرنا ہر کوئی پسند کرتا ہے۔ عوام کی سیاست میں دلچسپی کا ایک بڑا محرک ہمارا میڈیا ہے۔ کسی زمانے میں عام شہری اخبارات میں سیاسی حالات کی خبریں پڑھا کرتے تھے۔ سنہ 2000  کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ٹیلی ویژن چینلوں کی بھرمار ہو گئی۔ نئے نئے نیوز چینلز کھل گئے۔ ان چینلوں کا اسی، نوے فیصد وقت سیاسی ٹاک شوز کیلئے مختص تھا( اب بھی یہی صورتحال ہے)۔ لامحالہ عوام الناس کی اکثریت ملکی سیاست اور سیاسی معاملات میں زیادہ دلچسپی لینے لگی۔ سوشل میڈیا نے اس صورتحال میں مزید حصہ ڈالا۔سوشل میڈیا کی وجہ سے عوام کو اپنی بات کھل کر کہنے کے مواقع میسر آئے تو وہ اپنی رائے کا اظہار بھی کرنے لگے۔
صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں تواتر سے بڑے بڑے سیاسی جلسے، جلوس ہوتے ہیں، تقاریر ہوتی ہیں، اور سیاسی بھاشن دئیے جاتے ہیں۔ سیاست دان بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ ڈائیلاگز بولتے ہیں۔ وعدے وعید کرتے ہیں۔عمومی طور پر سیاسی بھاشن دیتے وقت سیاسی رہنما، عوام الناس کو ووٹ ڈالنے اور پارٹی کو سپورٹ کرنے کی تلقین تو کرتے ہیں مگر عوام کو ان کی سماجی اورقومی ذمہ داریوں کی طرف راغب کرنے کی ترغیب نہیں دیتے۔مثال کے طور پر عوام کو یہ جملہ تو سکھا دیا گیا ہے کہ آپ کے خون پسینے کی کمائی سے ادا ہونے والے ٹیکسوں سے کاروبار ریاست چلتا ہے۔ مگر شاید ہی کبھی کسی سیاسی رہنما نے عوام کو جلسے جلوسوں اور تقاریر کے ذریعے یہ شعور دیا ہو کہ ٹیکس کی ادائیگی کس قدر ضروری شے ہے۔ یا یہ کہ ہم سب کو ٹیکس چوری سے گریز کرنا چاہییے۔ یا یہ کہ اگر ہم لاکھوں کروڑوں روپے اس ملک کی وجہ سے کما رہے ہیں تو کیا حرج ہے اگر سالانہ ہزاروں یا لاکھوں روپے ٹیکس بھی ادا کر دیا جائے۔ آخر اس مٹی کا بھی ہم پر کچھ حق ہے۔ہمیں اس حق کو، اس قرض کو ادا کرنا چاہہے۔ اخلاقیات کے بلند آہنگ لیکچر دیتے سیاست دان عوام کو ٹیکس ادائیگی کے فوائد کیونکر گنوائیں۔ ان میں سے بیشتر بڑے بڑے محلوں میں رہتے ہیں، فیکٹریوں اور زمینوں کے مالک ہیں، اس کے باوجود ٹیکس دینے سے گریزاں رہتے ہیں یا پھر معمولی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
دنیا میں جن ممالک کو ہم قد ر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے، ذرا ان کے طرز عمل پر غور کیجئے۔ ان ممالک کے عوام صرف اپنے حقوق کا واویلا نہیں کرتے، بلکہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی بھی احسن طریقے سے کرتے ہیں۔ جبکہ ہماری نگاہ صرف اپنے حقوق کی وصولی تک محدود رہتی ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو۔ چند دن پہلے وفاقی حکومت نے اس سال کا بجٹ پیش کیا ہے۔ اس میں عوام الناس پر مختلف ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ حکومت نے ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ بڑے کاروباری طبقے پر ڈالا ہے۔ تب سے اب تک ہمیں ایک واویلا سنائی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک کے طفیل کروڑوں ، اربوں روپے کمانے والے ہی اگر مشکل حالات کا کچھ بوجھ نہیں اٹھائیں گے تو یہ بوجھ کون اٹھائے گا؟۔ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان اس وقت کس مشکل سے دوچار ہے۔ معیشت کی حالت بے حد ابتر ہے۔ کل تک آئی۔ ایم۔ ایف پاکستان کو قرض کی قسط جاری کرنے سے انکاری تھا۔ دوست ممالک بھی دامن بچا رہے تھے۔ ماہرین معیشت اس خدشے کا اظہار کرتے نظر آتے تھے کہ ہمارا ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ نہایت مشکل سے حکومت کی معاشی ٹیم نے اس صورتحال سے بچنے کی راہ نکالی ہے۔ ورنہ ہمارا حال بھی خدانخواستہ سری لنکا جیسا ہوتا۔ وہ سری لنکا جو اس قدر برے حالات کا شکار ہے کہ امتحانات کیلئے کاغذ نہ ہونے کی وجہ سے اسے بچوں کے امتحانات تک کینسل کرنا پڑے۔ پاکستان کو ان حالات سے بچانے کیلئے حکومت نے غریب عوام پر تیل کی قیمتوں کا بوجھ ڈالا۔ ساتھ ہی ساتھ بجلی گیس کی بڑھتی قیمتوں کا بھی۔
اب اللہ اللہ کر کے ہم دیوالیہ ہونے کے خطرے سے باہر نکلے ہیں۔ لیکن اقتصادی حالات ابھی تک نہایت نازک ہیں۔ ایسے میں اگر بڑے بڑے کاروبار کرنے والوں، کروڑوں اور اربوں روپے کمانے والوں پر نسبتاً زیادہ ٹیکس لگا دیا جاتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ کیا یہ بات قرین انصاف ہو گی کہ کروڑوں، اربوں روپے کمانے والوں کو تو ٹیکس ریلیف دیا جائے، اور سارا بوجھ چند ہزار یا چند لاکھ سالانہ کمانے والوں کے کاندھوں پر ڈال دیا  جائے؟
ترقی یافتہ ممالک کے شہری اپنے ملک کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں۔ کل ایک دانشور ایک قصہ سنا رہے تھے ۔کہنے لگے کہ جاپان میں سونامی آیا تو کچھ پاکستانی اہل خیر نے آفت زدہ شہریوں میں راشن تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔ راشن بیگ تقسیم کرتے وقت ایک بچے کو دیکھا جو نہایت لاغر تھا۔ اسے ہمدردی کے جذبے کے تحت کھانے کے دو بیگ تھما دئیے۔ اس جاپانی بچے نے یہ کہہ کر ایک بیگ واپس کر دیا کہ میں نے تو کل بھی تھوڑا سا کھانا کھایا تھا۔ دو بیگ پیچھے بیٹھے بچے کو دے دئیے جائیں کیونکہ وہ کل سے بھوکا ہے۔ یہ ایک بچے کا جذبہ ایثار ہے۔ جبکہ ہم اپنی حالت پر غور کریں تو ہر طرف چھینا جھپٹی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ٹیکس سے بچ جائیں۔ کسی نہ کسی طرح کم سے کم ٹیکس دیں۔ کسی طرح ٹیکس معاف کروا لیں۔ سچ ہے کہ ٹیکس کا بڑا حصہ تو سرکاری ملازمین ادا کرتے ہیں۔ وہ بھی اس مجبوری کے تحت کہ ان کا ٹیکس کاٹ کر ہی انہیں تنخواہوں کی ادائیگی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جسے دیکھو وہ ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ بڑے بڑے وکیل اس مقصد کیلئے رکھے جاتے ہیں کہ کسی طرح ٹیکس سے بچا جا سکے۔ محکمہ ٹیکس کے افسران کو خوش کرکے ٹیکس بچت کے طریقے نکالے جاتے ہیں۔ زرعی شعبے میں بھی صورتحال ابتر ہے۔ بڑے بڑے زمیندار جو زراعت کے ذریعے کروڑوں ، بلکہ بسا اوقات اربوں روپے کماتے ہیں، وہ ٹیکس دینے سے گریزاں رہتے ہیں۔
بہرحال ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ اس مٹی کا قرض ہم پر واجب ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کر کے ہم اس مٹی کا کچھ نہ کچھ قرض چکا سکتے ہیں۔ سیاسی اور سماجی شعور کا مطلب فقط خالی خولی نعرے بازی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عملی اقدامات کریں۔ بڑے کاروباری طبقے کو سوچنا چاہیے کہ اس ملک کی بدولت ہی وہ دولت کے انبار اکٹھے کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے۔ اگر ہمیں ایک آزاد ملک نصیب نہ ہوتا تو ہمارا حال خدانخواستہ وہی ہوتا جو بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کا ہے، جنہیں کریانے کی چھوٹی سی دکان ڈالنے کیلئے بھی سو سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔اس سارے معاملے میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی غریب قوم کے حکمران ، جو عوام کے ٹیکس سے تنخواہیں اور مراعات پاتے ہیں، وہ بھی اپنے حکومتی اخراجات کو نکیل نہیں ڈالتے۔ درجنوں پروٹوکول گاڑیوں میں ہزاروں ،لاکھوں لٹر پٹرول جلاتے ہیں۔ حکومتی ایوانوں میں رنگ برنگے کھانوں، برقی قمقموں اور بھاری بھرکم آرائشی بجٹ سمیت بہت سے اخراجات کئے جاتے ہیں۔اگر حکومتیں اپنے اخراجات محدود کریں۔ سادگی اختیار کریں تو عوام کو اچھا اور مثبت پیغام جائیگا۔ شاید اسی طرح وہ ٹیکس دینے کی طرف مائل ہو جائیں۔

تبصرے بند ہیں.