فارن فنڈنگ کیس کا ممکنہ فیصلہ

40

بادیٔ النظر میں لگتا ہے کپتان کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ خطرناک کی خطرناکی پنکچر ہوگئی۔ سیاست کی دیواریں لرزنے لگی ہیں چہروں پر تھکن کے سائے ہیں کسی نے سچ کہا ’’تھکن کے ساتھ اداسی بھی لے کر لوٹ آیا۔ بہت مصر تھا وہ ڈی چوک دیکھنے کے لیے‘‘ ہمت جواب دے رہی ہے ضمانتوں کے لیے بھاگ دوڑ، 6 جولائی تک ضمانت ہو گئی۔ ضمانت نہ ہوتی تو رانا ثناء اللہ تعاقب میں تھے کتنے الزامات ہیں؟ کپتان نے اپنے دور میں مخالفین بلکہ دشمنوں پر جتنے مقدمات بنائے تھے ان سے زیادہ ہیں گرفتاری کا امکان ہی نہیں، یقین تھا اسی لیے عدالتوں سے رجوع کرنا پڑا حالانکہ دور اقتدار میں ایک ہزار خوف معاف کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا تھا لیکن اقتدار کا سورج ڈھلتے ہی ’کب مکڑیوں نے جال بنا کچھ خبر نہیں‘ کی کیفیت سامنے آ گئی توشہ خانہ، بی آر ٹی، مالم جبہ، فرح گوگی، عثمان بزدار کرپشن کیسز اور سب سے بڑھ کر فارن فنڈنگ کیس 8 سال تک فارن فنڈنگ کیس کو آنے بہانے التوا میں ڈالے رکھا اکبر ایس بابر بھی دھن کے پکے نکلے پیچھے لگے رہے معمولی کیس نہیں 2014ء سے چل رہا ہے۔ سارے اکاؤنٹس ثابت ہو گئے۔ اربوں ڈالر باہر سے آئے بیشتر ممنوعہ ذرائع سے موصول ہوئے۔ عارف نقوی نے اعتراف کیا کہ 22 لاکھ ڈالر پی ٹی آئی کو دیے الیکشن کمیشن نے رکاوٹوں کے باوجود ہمت سے کام لیا۔ سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ کب سنایا جائے گا کسی کو خبر نہیں خیر کا فیصلہ ہوتا تو ایک آدھ دن بعد سنایا جا سکتا تھا۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کوئی رکاوٹ کوئی دباؤ۔ کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو۔ کے نامعلوم سمتوں سے پیغامات، افواہیں، تجزیے، چہ میگوئیاں اور پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں میں بے چینی، پریشانی، مستقبل کے لیے لائحہ عمل کی تیاریاں خطرہ ہے کہ فیصلے میں پوری جماعت کو کالعدم قرار نہ دے دیا جائے۔ تجزیے قبل از وقت اندرونی حلقے اس پر متفق کہ ممنوعہ ذرائع سے آنے والے لاکھوں ڈالر بحق سرکار ضبط کر لیے جائیں گے۔ یہ بھی افواہیں گرم کہ اگر پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) پر پابندی لگی تو اس سے ملتی جلتی پاکستان تحریک انقلاب (پی ٹی آئی) بنا لی جائے گی جس کا انتخابی نشان بلا نہیں بلے باز ہو گا۔ یعنی کپتان کے ہاتھ میں بلا یادش بخیر پاکستان پیپلز پارٹی پر بُرا وقت پڑا تھا تو اس نے پارلیمنٹرینز کے نام سے رجسٹریشن کرائی تھی یہ رجسٹریشن اب تک چلی آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی ساری منصوبہ بندی خفیہ نظریاتی گروپ کی طرف سے کی جا رہی ہے اس گروپ کو کپتان کی کس درجے حمایت حاصل ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ تاہم پیش بندی ضروری سمجھی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کا محفوظ ممکنہ فیصلہ کیا ہو گا۔ مختلف تجزیہ کاروں کے مطابق کیس میں لگائے گئے تمام الزامات ثابت ہو گئے۔ الیکشن کمیشن پابندیوں اور فنڈز کی ضبطی سمیت اپنی سفارشات پر مبنی فیصلہ حکومت کو بھیج دے گا۔ وفاقی حکومت فی الحال اتنی مستحکم نہیں ہوئی کہ وہ از خود فوری فیصلے کر سکے وہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں بھیج دے
گی۔ سپریم کورٹ اس کا فیصلہ کب کرے گی۔ وقت بتائے گا تاہم ایوانوں میں پرواز کرنے والے چڑیاں کوے ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ لاڈلے کو کچھ نہیں ہو گا۔ مگر طیور کی زبانی بیانیوں پر کیوں اعتبار کیا جائے کپتان نے 25 مئی کے لانگ مارچ میں عدالت عظمیٰ کا مان توڑا اس نے ڈی چوک آنے سے منع کیا تھا۔ کپتان دس پندرہ ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ دندناتا ہوا جناح ایونیو تک پہنچ گیا۔ راستے بھر کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کی کالیں دیتا آیا جنہوں نے خفیہ راستوں سے ڈی چوک پہنچ کر درختوں کو آگ لگانے کی شکل میں پورے علاقہ کو بقعہ نور بنا دیا آگ لگانے پر یاد آیا کہ گزشتہ دنوں 508 ایکڑ علاقہ کے جنگلات کو آگ لگا دی گئی مخالفین الزام لگا رہے ہیں کہ یہ وہی علاقے ہیں جہاں اربوں روپے کے بلین ٹری لگائے گئے تھے جنگلات جل گئے بلین ٹری تباہ ہو گئے کرپشن کے سارے ثبوت ختم، کپتان اول آخر صادق اور امین۔ اسے چھوڑیے کپتان بے ساکھیاں ہٹنے کے باوجود بے سہارا نہیں۔ بہتوں کو اب بھی اچھے لگتے ہیں جو اچھے نہیں لگتے تھے انہیں توہین عدالت میں نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اپنی اپنی قسمت اپنا اپنا نصیب یہ الگ بات کہ کپتان پہلے
لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد خاصے مشتعل بلکہ چڑے ہوئے ہیں۔ بیرونی سازش کا بیانیہ ناکام ہو گیا۔ قتل کی سازش کا بیانیہ بھی ٹھس اب نیا بیانیہ زیر گردش ہے کہ خیبر پختون خوا میں کوچی نامی کسی شخص کو قتل کی سپاری دی گئی ہے۔ بابر اعوان کا کہنا ہے کہ بنی گالہ کے گرد مشکوک افراد گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ یہ لوگ پولیس اور رینجرز کے اہلکار ہیں جنہیں کپتان کی حفاظت پر مامور کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کپتان کو اب تک وزیر اعظم کا پروٹوکول دیا جا رہا ہے ان کی ساری سیاست خود فریبی، جھوٹ اور اشتعال انگیزی پر مشتمل ہے لیکن عوام سمجھنے لگے ہیں قلندر کی سازشیں، شاید اسی لیے گزشتہ اتوار کو سیکنڈ شو یعنی رات کے 9 سے 12 بجے والے احتجاج میں چند ہزار سے زائد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے حصہ نہیں لیا۔ دروغ برگردن راوی، پارٹی کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ پنجاب کی پارٹی صدر یاسمین راشد مگر ساری پریس کانفرنسیں شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ شیخ رشید برف خانے میں پڑے ہیں ان پر الزام ہے کہ وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے فواد چودھری بھی دیگر کاموں میں لگے ہیں۔ اسی لیے شاہ محمود قریشی جولائی میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے خوفزدہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے ابھی سے 20 میں سے 18 سیٹوں پر کامیاب ہونے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ ہمیں صرف دو سیٹیں ملیں گی الیکشن ہوئے نہیں واویلا پہلے ہی سے شروع ہو گیا۔ لاکھوں کے جلسے جلوس اجتماعات کہاں گئے۔ اتنی مایوسی کیوں کیا یقین ہو گیا ہے کہ سارے راستے بند ہو گئے فواد چودھری نے برملا اعتراف کیا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ساتھ دیتی تو ہماری حکومت نہ جاتی۔ ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ ساڑھے تین سال کے اقتدار کے دوران جو ملک دشمن اور معیشت کی تباہی کے فیصلے کیے گئے ان کی وجہ سے اقتدار سے محرومی مقدر بن چکی تھی تنکوں کی سرکشی سر چڑھ کر بولنے لگی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہ ہوتی تو کیا کرتی حکمرانوں کو تو اس تمام عرصے میں اپنے دائیں بائیں کی خبر نہ تھی۔ وزیر اعظم تو ’’عمر بھر ایک ہی تقریر چلی آتی ہے‘‘ کے مترادف چوروں ڈاکوؤں کو این آر او نہ دینے کا راگ الاپتے رہے، معیشت کی تباہی اس حد تک پہنچی کہ ’’چڑھتے سورج نے ہر اک ہاتھ میں کشکول دیا۔ صبح ہوتے ہی ہر اک گھر سے سوالی نکلا‘‘ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت شکنجے میں کسی گئی اللہ بھلا کرے چین کا کہ اس نے بروقت ایک فیصد پر 4 کھرب روپے کا قرضہ دے کر معیشت کو مکمل تباہی سے بچا لیا۔ آئی ایم ایف ابھی تک ہچر مچر اور اگر مگر سے کام لے رہا ہے۔ سخت فیصلوں سے عوام پریشان 10 فیصد سپر ٹیکس سے ارب کھرب پتی مایوس، کپتان اب رات دن آلو ٹماٹر کے دام بتا کر عوام کو سڑکوں پر لانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں لیکن اس موسم فریب میں پوچھے گا اس کو کون۔

تبصرے بند ہیں.