قرضے چھوڑو، ملک سنوارو

18

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے معاشی اور سیاسی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں معاشی غیر یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی بے یقینی بھی بڑھ رہی ہے پٹرول بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورتحال ہے دوسری جانب عمران خان دباؤ بڑھا رہے ہیں اور مہنگائی کے خلاف بیانیہ بھی بڑھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت اور اتحادی اپنے اوپر ہونے والے کیسز کو ختم کرنے آئے تھے اقتدار میں۔اگر ہم دیکھیں تو عمران خان نے بھی ملک کے ساتھ کیا کیا کیا دیا عوام کو؟یہ کس منہ سے یہ باتیں کر رہے ہیں اپنے دور اقتدار کو وہ ترقی یافتہ دور کہتے ہیں ان کا تو حال یہاں پر یہی ہے
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو آتی نہیں مگر
اگر میں اپنی رائے دوں تو جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے آنے والے ہر سیاستدان نے پاکستانی عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے ہی کیے ہیں۔
خراج تحسین پیش کرتی ہوں میں اپنے ملک کی بہادر قوم کو کہ جنہوں نے 45 ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی بھوکے پیاسے رہ کر گزار کیا گزشتہ دنوں ملک میں لوڈشیڈنگ عروج پر تھی اور پانی کا شدید بحران تھا بجلی کی بچت مارکیٹس بند کرانے سے نہیں بلکہ سرکاری دفاتر افسر شاہی وزیروں مشیروں کے اے سی بند کرانے سے ہوگئی اب ہمارا ملک حکمرانوں سے قربانی مانگتاہے غریب عوام تو کب کی قربان ہوچکی ۔
شہباز شریف کو بہت اچھا سمجھنے والے آٹھ آٹھ آنسو رو رہے تھے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے پر کہ انہوں نے آتے ہی شدید لوڈ شیڈنگ شروع کر دی ہے۔
جب مخلوط حکومت بنی تو عوام کے ساتھ اس بار بھی وہی ہوا جو ماضی کی حکومتیں کرتی ہیں کہ گزشتہ حکومت کے اوپر تنقید کرنا یہی کہنا کہ جانے والی حکومت سب کچھ لوٹ کر چلی گئی اس حکومت میں بھی یہی کیا کہ عمران خان پر تنقید شروع کردی اور کہنا شروع کر دیا کہ عمران خان معیشت کا دیوالیہ کر گئے مگر ہم محنت کر رہے ہیں حالات بہتر ہوجائیں گے یہ جو "ہو جائیں گے "کا لفظ ہے یا آج تک میرے ملک کے سیاستدانوں کے منہ سے اترا نہیں اور نہ ہی کبھی یہ سنا ہے کہ حالات بہتر ہو گئے ہیں خواجہ آصف کی پارلیمنٹ میں گفتگو سن کر یوں محسوس ہوا کہ ہمارے ملک کے تمام سیاستدان بلیم گیم پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں جب انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں نے دن رات محنت کرکے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے اگر 2018 میں دیکھیں تو پی ٹی آئی بھی یہی کہتی تھی کہ ماضی کی حکومت نے سب کچھ لوٹ لیا ہے اصل میں دیکھیں تو ملک کو عوام  بچا رہی ہے بجلی اور پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں برداشت کرکے اور آپ لوگوں کو بڑھتی ہوئی قیمتیں ادا کر کے۔
مجھے میرے ملک کے سیاستدان جواب دیں کہ کوئی ہے اتنے دل والا کے اپنے آفس کے اے سی بند کر دے اگر ملک میں بجلی کا بحران ہے تو ؟
کوئی سیاستدان ایسا جو اپنے آپ کو آرام دہ زندگی سے نکال کر عوام کے بیچ میں آئے اور آکر ایک دن بھی گزارے اور دیکھے کہ یہ عوام کس اذیت سے گزر رہے ہیں؟اس وقت میں بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھ کر حیران ہوں جن بیچاروں کو کوئی حل نظر نہیں آیا تو انھوں نے اپنی موٹر سائیکل بند کی اور پیٹرول سے بچانے کے لیے پیدل سفر شروع کردیا مگر میرے ملک کے اعلیٰ عہدے دار اپنے لیوش سسٹم سے نکلتے ہی نہیں آپ اپنے دفتروں کے اے سی بند کریں، آپ اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر بند کریں جو کہ کلومیٹر کا سفر کئی لیٹروں میں طے کرتی ہیں مگر شاید آپ لوگوں کو فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ بات سنی ہے نہ
مال مفت دل بے رحم
پیسا تو عوام کی جیب سے جا رہا ہے آپ کا کیا گیا آپ تو میڈیا پر آ کر اظہار افسوس کر دیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں کے سیاستدانوں کو دیکھیں ان کا رہن سہن دیکھیں کتنا سادہ ہے آپ اپنے ہمسایہ ملک بھارت ہی کی مثال لے لیں بے شک بھارت پاکستان کا دشمن ہے اس نے پاکستان کو ہر فورم پہ نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے پاکستان کے خلاف سازش کی ہے مگر بھارت کی ایک چیز میں کہوں گی جب بھارت کے معاشی حالات کمزور ہے تو بھارت کے وزیراعظم بھی مقامی گاڑیوں پر سفر کرتے تھے سیکورٹی نہیں رکھتے تھے ایسے ہی آپ یورپ کی مثال لے لیں وہاں پر جتنے سیاستدان ہیں ایسے ہی سادگی سے رہتے ہیں تو کیا میرے ملک کے سیاستدان کیا آسمان سے اترے ہیں ؟جو اتنے وسائل استعمال کر رہے ہیں تھوڑا لیوش سسٹم سے باہر آئے سارا فرض عوام کا ہی نہیں ہے عوام نے کوئی ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا مہنگائی کا بوجھ اٹھا کر معیشت کو بہتر کرنے کا۔
اب وقت آ گیا ہے اس سسٹم کو ختم کریں سیکورٹی کے نام پر آپ لوگوں کے جو لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں میرے ملک کے خزانے سے بند کریں اسے خدارا۔
چار ماہ کے لئے مکمل امپورٹ پر ایمرجنسی نافذ کریں اور لوکل میڈ کو ترجیح دیں اور ایکسپورٹر کے ساتھ حکومت ڈائریکٹ ہو اور ایکسپورٹر کو بولیں کے قدم بڑھائیں ہم آپ کا ساتھ دیتے ہیں ایکسپورٹر اور بیوروکریٹس کا آپس میں رابطہ ختم کریں آپ دیکھیں ہم تو اس پاک سرزمین پر رہتے ہیں جہاں پر سال میں چار موسم آتے ہیں ہمارے ملک کو خدا نے بہت سے وسائل دیے ہوئے ہیں مگر میرے ملک کے سیاستدان اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو ملک کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں کسی آئی ایم ایف کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آئی ایم ایف کا پروگرام کامیاب کرا لینے پر جو سیاستدان تالیاں بجاتے ہیں ان سے میں یہ کہوں گی کہ یہ کوئی فخر  کی بات نہیں ہے بلکہ باعث شرم ہے کہ اتنا عرصہ پاکستان کو بنے ہو گیا ہے تو ہم ابھی تک اس قابل بھی نہیں ہوئے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر معیشت چلا سکیں۔ اب دیکھیں ڈنمارک کی مثال ان کے پاس خاص کچھ بھی نہیں تھا مگر انہوں نے کیا کیا ڈیری فارم بنا بنا کر آج اپنے آپ کو امیر کیا اور دنیا میں اپنا لوہا منوایا ایسے بہت سے ملک ہیں کہ جنہوں نے چھوٹے چھوٹے وسائل پیدا کرکے اپنے آپ کو بہتر کر لیا۔
میرے ملک میں تو زرخیز زمین ہے سب سے بڑی بات جس کی مٹی میں ایک بیج بویا جائے تو فصل دنوں میں اٹھتی ہے مگر یہ سب چیز اس وقت کامیاب ہوگی جب میرے ملک کے اعلیٰ عہدے داران اپنی آرام دہ زندگیوں سے قدم باہر نکالیں گے میرے لیے تمام پارٹیاں ایک جیسی ہیں عوام پیپلز پارٹی کے دور میں بھی رو رہے تھے پھر نون لیگ کے دور میں بھی پریشانی تھی مگر میں سمجھتی ہوں کہ اس ٹائم پریشانیاں کم تھی کافی زیادہ حالات خراب ہوئے پی ٹی آئی کے دور میں اور سب سے زیادہ حالات خراب ہوئے موجودہ دور میں جب مخلوط حکومت بنی اس وقت معصوم عوام زمین پر چھوٹے بچے کی طرح سسکیاں لے کر ٹانگیں مار مار کر رو رہے ہیں مگر حکومت سوتیلی ماں سے بھی بدتر سلوک کر رہی ہے جنہیں عوام کے آنسو نظر نہیں آ رہے۔
ہے سیاست سے تعلق تو فقط اتنا ہے
کوئی کم ظرف میرے ملک کا سلطان نہ ہو

تبصرے بند ہیں.