ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق!

42

غالب کا ایک شعر ہے۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔۔۔نوحہ غم ہی سہی، نغمہ شادی نہ سہی۔ہمارا ملک پاکستان بھی اس شعر کی تفسیر بنا دکھائی دیتا ہے۔ نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ نغمہ شادی تو یہاں کم کم سنائی دیتا ہے۔اکثر و بیشتر نوحہ غم کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ آج کل کے قومی سیاسی منظرنامے  پر نگاہ ڈالیں تو یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ آج کل پوری پاکستانی قوم کے تمام بنیادی مسائل ایک طرف رہ گئے ہیں۔ ساری قوم صلیب پہ لٹکی ہوئی ہے۔ محفلوں ، چوپالوں ، گھروں اور دفاتر میں، ہر جگہ ملکی سیاست اور عدم اعتماد کی تحریک زیر بحث ہے۔ لوگ ٹیلی ویژن سے چپکے ہوئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین جنگ کی سی کیفیت نظر آتی ہے۔ کبھی حکومت کا پلڑا بھاری محسوس ہوتا ہے کبھی اپوزیشن کا ۔ کبھی کوئی ایک پارٹی معرکہ جیتنے کے قریب دکھائی دیتی ہے۔ کبھی دوسری پارٹی میدان مارتی نظر آتی ہیں۔ کبھی کوئی نیا پتا پھینکا جا رہا ہے۔ کبھی کوئی نئی شطرنج پچھائی جا رہی ہے۔غرض سارے ملک کی نگاہیں اس صورتحال پر جمی ہیں۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی کہ کس جماعت کی حکومت آتی ہے اور کس کی جاتی ہے ۔ اگر یہ ایک آئینی عمل ہے(جو کہ یقینا ہے)  اور آئین میں اس کا طریقہ کار درج ہے تو اس آئینی عمل کو نہایت ہموار طریقے سے انجام پانا چاہیے۔ اگر ایک آئینی عمل بھی اس قدر نا ہموار طریقے سے انجام پائے او ر اس پر ایک طوفان کھڑا ہو جائے تو پھر آئین کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے؟ دستور میں لکھی ہوئی باتیں قوم کا منشور اور دستور العمل بن جاتی ہیں۔ آئین کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی اہم صورتحال درپیش ہو تو اسے آئین میں لکھے ہوئے طریقہ کار کے مطابق طے کر لیا جائے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ قومی معاملات کو کسی قسم کے انتشار اور افراتفری کے بغیر ایک قانونی طریق سے حل کر لیا جائے۔موجودہ صورتحال پر نگاہ ڈالیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدم اعتماد کے معاملے کو قانونی و آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے حل کر لیا جاتا۔   ہمارے ہاں پہلے ہی بہت نفرتیں ہیں۔ مذہبی منافرتیں موجود ہیں۔ طبقاتی تقسیم ہے۔ صوبائی اور علاقائی تعصبات پائے جاتے ہیں۔ ان حالات میں سیاسی تقسیم اور کشمکش کا بڑھ جانا انتہائی افسوس ناک بھی ہے اور خطرناک بھی۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ذرا اپنے پاس پڑوس کے ممالک پر نگاہ ڈالیں۔ ہمارے ساتھ آزا د ہونے والے ملک بھارت کی مثال لے لیجئے۔ وہ دنیا بھر میں اپنا سکہ جما چکا ہے۔ پاکستان کے بطن سے جنم لینے والے ملک بنگلہ دیش پر نگاہ ڈالیں۔ وہ بہت سے شعبوں میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ اس کی کرنسی ہماری کرنسی سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ جبکہ پاکستان کا موازنہ ہوتا ہے تو افغانستان اور بھوٹان جیسے ممالک سے ۔ہمارا سبز پاسپورٹ کبھی صومالیہ کے ہم پلہ قرار پاتا ہے۔ کبھی اس سے بھی نیچے لڑھک کر بدترین درجے پر جا کھڑا ہوتا ہے۔ اس تنزلی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آج خود کو آئین پاکستان کا پابند نہیں بنا سکے۔لگتا یہ ہے کہ آئین کی پاسدارری کرنا ہماری سرشت میں شامل نہیں۔ ہم نے 1973 میں یہ آئین بنایا تھا۔ اور کچھ اس حال میں کہ ہمیں شکست ہو چکی تھی۔ پاکستان ٹوٹ چکا تھا۔ ہمارے نوے ہزار فوجی بھارت کی تحویل میں قید تھے۔یہ کوئی چھوٹا سانحہ نہیں تھا۔ اس سانحے کے ملبے پہ کھڑے ہو کر ہم نے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ بچے کھچے پاکستان میں ایک نیا  دستور بنایا۔آنے والے برسوں میں اس دستور کو بہت سے جھٹکے لگے۔ فوجی ڈکٹیٹر اسے معطل کرتے رہے۔ اس میں من مانی ترامیم کے ٹانکے لگا تے رہے ۔ کسی نے اسے توڑا۔ کسی نے اسے بالائے طاق رکھ دیا۔ لیکن اللہ کے فضل و کرم سے یہ ابھی تک قائم ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ آج اگر ہمیں اپنا آئین مرتب کرنے کی ضرورت پڑ جاتی تو ہم کیا کرتے؟ ہم تو یہاں پر ایک چھوٹا سا قانون بھی نہیں بنا سکتے۔ اس پر بھی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ بات بات پر ہم تلواریں سونت لیتے ہیں۔ تو آئین کیسے بناتے؟ آئین بنا لینا بلاشبہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ فیڈریشن کی علامت ہے۔ ہماری قومی یکجہتی کا ضامن ہے۔ ہماری پارلیمنٹ اس کے تحت چل رہی ہے۔ اسی کے تحت انتخابات ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم اس آئین کے مطابق منتخب ہوتا ہے۔ حکومت سمیت تما م ریاستی ادارے اور سربراہا ن حکومت اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اس کے تحت ہی بروئے کار آتے ہیں۔
اب اگر عدم اعتماد کا مرحلہ آگیا ہے تو اس مرحلے کو آئین کے عین مطابق طے کرکے آگے بڑھ جانا چاہیے۔ اگر آئین نہ ہوتا تو لڑائی جھگڑا قابل جواز ہوتا۔ آئین میں عدم اعتماد سے متعلق طریقہ کار صاف صاف لکھا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے یہاں ایک تماشا برپا ہے۔ کبھی عدالتوں کا رخ کیا جا رہا ہے۔ کبھی پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ کبھی غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جا رہے ہیں۔  یہ سب دیکھ کر نہایت دکھ ہوتا ہے۔ اللہ کرئے کہ یہ مرحلہ بخیر و عافیت طے ہو جائے۔ اس کے نتیجے میں کون تخت سے اترتا ہے اور کون تخت نشین ہوتا ہے، مجھے اس سے غرض نہیں۔فقط یہ غرض ہے کہ اس ملک میں استحکام آئے۔ اور قومی قیادت عوام کے مسائل پر توجہ دے سکے۔ تعلیم، صحت اور امن عامہ جیسے مسائل حل ہوں۔
ہم ہمیشہ بے یقینی کی صلیب پر لٹکے رہتے ہیں۔جمہوری حکومتیں جب بھی آتی ہیں تو یہی گمان ہوتا ہے کہ آج گئی کہ کل گئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب عدم اعتماد کا یہ مرحلہ تمام ہو گا اور ایک نئی حکومت قائم ہو گی، تب بھی یہ بے یقینی قائم رہے گی۔ یقین اور سیاسی استحکام کا ایک مستحکم دور شروع کرنے اور ہم اپنے مسائل کے حل کی طرف آجانے کے بجائے، ہم ایک نئے کھیل میں لگ جائیں گے۔ نئی حکومت کی ٹانگیں کھینچی جائیں گی۔ اسے کمزور کرنے کی سازشیں بنی جائیں گی۔ لگتا یہی ہے کہ ہمیں دل بہلانے کے لئے ایک ہنگامہ درکار ہوتا ہے۔ اس دل بہلانے کے اس کھیل میں ہم نے پوری قوم کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ مرحلہ گزرے گا تو نا ہمواریوں کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔ قومی معاملات پر نگاہ کرنا۔  مرکزیت کیساتھ ان پر نگاہ کرنا۔ ان کے حل کی تدابیر کرنا قوم کے نصیب میں ہے نہ قومی قیادت کے۔ ہمارے گھر کی رونق ایک ہنگامے پر موقوف ہے۔بس اللہ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں.