غریب آدمی پر صرف 2 ار ب روپے کے ٹیکس سے کون سا مہنگائی کا طوفان آئے گا؟ وفاقی وزیر خزانہ

31

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ منی بجٹ میں 343 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ پر نظرثانی کی گئی اور 70 ارب روپے کے ٹیکس چھوٹ میں لگژری آئٹم شامل ہیں جبکہ عام آدمی پر صرف 2 ارب روپے کے ٹیکس عائد ہوں گے، بتایا جائے 2 ارب روپے سے کون سا مہنگائی کا طوفان آئے گا؟ موجودہ حکومت نے اڑھائی سال کے عرصے میں سٹیٹ بینک سے کوئی ادھار نہیں لیا۔ 
قومی اسمبلی میں منی بجٹ 2021ءپیش کرنے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ عام آدمی پر صرف 2 ارب روپے کے ٹیکسز کی چھوٹ نکال رہے ہیں جس کا مطلب ہے کھودا پہاڑ نکلاچوہا، پہلے 700 ارب روپے کی بات ہو رہی تھی جسے کم کر کے 343 ارب روپے کی بات ہوئی لیکن عام آدمی پر عائد ہونے والا ٹیکس صرف 2 ارب روپے ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر، سلائی مشین، ماچس، آئیوڈائزڈ سالٹ اور مرچ پر ٹیکس عائد ہو گا، اور اگر اس سے مہنگائی بڑھ جائے گی تو یہ کہنا بالکل غلط ہے، انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا تھا کہ ریونیو کیسے بڑھائیں گے جس پر ہم نے بتایا کہ ٹیکس چھوٹ کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں ہے کیونکہ ہم پہلے ہی اپنے ہدف سے زیادہ حاصل کر رہے ہیں، یہ صرف ڈاکیومنٹیشن ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ ٹھیک ہے آپ ریکارڈ کریں اور بعد میں بے شک ری فنڈ کر دیں، لہٰذا مالیاتی بل سے عوام پر بوجھ کی باتیں بے بنیاد ہیں کیونکہ ٹیکسز سے عام آدمی پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ 
شوکت ترین نے کہا کہ فوڈ آئٹمز کے معاملے پر آئی ایم ایف کیساتھ بڑی لڑائی ہو اور ہم نے موقف اختیار کیا کہ ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس نہیں لگائیں گے، ہم نے فوڈ آئٹمز اور زرعی شعبہ پر ٹیکس نہیں لگنے دئیے، پرانے کپڑے اور جوتوں پر بھی ٹیکس نہیں عائد کیا گیا، اس کے علاوہ کیڑے مار ادویات اور سینماءکے آلات پر بھی کوئی ٹیکس لاگو نہیں کیا گیا، اب ہمیں بتایا جائے کہ 2 ارب روپے کے ٹیکس سے کون سا مہنگائی کا طوفان آ جائے گا۔ آئی ایم ایف نے 700 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا جسے ہم 343 ار ب پر لائے، لیکن اسے ری فنڈ بھی کریں گے اور ایڈجسٹ بھی کریں گے، ہم نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے غریب آدمی پر بوجھ پڑے۔ 
وفاقی وزیر خزانہ نے اس موقع پر سٹیٹ بینک میں ترمیم سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کو خودمختار بنانا پی ٹی آئی کا منشور ہے تاکہ وہ مضبوط ہوں کیونکہ جب تک اداروں کو اختیار نہیں ملے گا اور مداخلت ہوتی رہے گی وہ مضبوط نہیں ہوں گے، سٹیٹ بینک کے بارے میں آئی ایم ایف سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ کے سٹیٹ بینک کیساتھ برا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے، حکومت کی جب مرضی ہوتی ہے، وہ ادھار لے لیتی ہے اور یہ نوٹ چھاپنے والی بات ہے، حکومت نے ابھی تک سٹیٹ بینک کا 6.4 ٹریلین دینا ہے اور جب یہ حکومت آئی تھی یہ اعداد شمار 7 سے 8 ٹریلین تھے، سٹیٹ بینک سے قرض لینے کے باعث مہنگائی بڑھتی ہے اور پھر سب پر ٹیکس لگانا پڑتا ہے، آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک سے ادھار نہ لیں اور موجودہ حکومت نے گزشتہ اڑھائی سال سے سٹیٹ بینک سے کوئی ادھار نہیں لیا، اس پر یہ کہنا کہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری پر اثر پڑے گا، بالکل غلط بات ہے۔ 
انہوں نے کہا بل میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم سٹیٹ بینک کو انتظامی طور پر بااختیار بنائیں گے اور اس کا نان ایگزیکٹو بورڈ گورنر سمیت دیگر لوگوں کی تعیناتی سے متعلق تمام فیصلے کرے گا۔ سٹیٹ بینک کے نان ایگزیکٹو بورڈ کو حکومت پاکستان تعینات کرے گی اور صدر مملکت اس کی منظوری دیں گے جبکہ مذکورہ ترمیم کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان پارلیمینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو بھی جواب دہ ہو گا، ہم نے اس اقدام سے پارلیمینٹ کی خودمختاری کو تقویت دی ہے۔ 

تبصرے بند ہیں.