افغانستان اس وقت قحط کی سی صورتحال کا شکار ہے۔ کئی ماہ ہو گئے ہیں لوگوں کو ایک وقت ہی کھانا میسر آتا ہے، بلکہ صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ وہاں فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ سرد ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہیں، اس سال افغان عوام کے لئے سرد موسم اس قدر بھیانک ہو گا کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خدشہ ہے کہ اس سال موسمِ سرما کے دوران بھوک سے لاکھوں بچے مارے جائیں گے۔ کہا یہی جا رہا ہے کہ اتنی بڑی 20 سالہ جنگ کے دوران بھی ہلاک نہیں ہوئی ہو گی۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس موسمِ سرما میں افغانستان کی نصف آبادی زندگی کے خطرات کا شکار ہو گی جو کہ 2 کروڑ سے زائد ہو گی۔ اتنے وسیع پیمانے پر بھوک اس معاشی بدحالی کی عکاسی کرتی ہے جس نے طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد افغانستان کو گھیرا ہوا ہے۔ عملی طور پر حکومت کو غیر ملکی امداد کی شکل میں ملنے والے فنڈز بالکل بند ہو گئے ہیں اور امریکہ کی طرف سے لگنے والی پابندیوں نے افغانستان کو عالمی مالیاتی سسٹم سے بالکل الگ تھلگ کر دیا ہے ملک میں لاکھوں شہری اپنی آمدنیوں سے محروم ہیں۔ اس وقت افغان عوام کو درپیش سنگین صورتحال سردی، خوراک کی قلت اور بیماری جیسی مشکلات میں تعاون فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر امریکہ نے افغانستان کے اربوں ڈالر دبا رکھے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پاکستان میں او آئی سی کا اجلاس منعقد کیا گیااس غیر معمولی اجلاس میں پاکستان سمیت مسلم امہ کے دیگر ممالک نے افغانستان کی امداد و تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔ اس اجلاس میں اقوامِ متحدہ، اقتصادی تعاون کونسل، یورپی یونین، عرب ممالک کی تنظیم، خلیج تعاون کونسل، چین، روس، امریکہ اور جاپان کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے 6 نکاتی ایجنڈے سمیت اکتیس نکاتی ڈرافٹ کو مشترکہ قرارداد کا حصہ بنایا گیا جن میں اہم نکات یہ تھے کہ ایک پر امن، مستحکم، متحد، آزاد اور خود مختار افغانستان کی بھرپور حمایت کی گئی اور طے کیا گیا کہ اسلامی ترقیاتی بینک کے تحت قائم کردہ انسانی امداد کی فنڈ کے ذریعے افغانستان میں امدادی کاموں کو آگے بڑھایا جائے گا، افغان بینکوں میں
سرمائے کے بہاؤ جاری رکھنے اور تائی پی منصوبے کے تحت اقتصادی کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے بھی منصوبہ بندی کی گئی۔ افغانستان کے ریاستی اداروں کو مستحکم بنانے، نوجوانوںکو جدید فنون کی تربیت فراہم کرنے اور تعلیم و صحت اور خوراک کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سعودی عرب کی جانب سے فوری طور پر ایک ارب ریال کی امداد کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
افغانستان کی صورتحال پر اسلامی ممالک کی تنظیم کے تحت منعقد ہونے والا اجلاس بلاشبہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ پاکستان نے اس کانفرنس کے ذریعے ایک مرتبہ پھر افغان عوام کے ساتھ اپنے بے لوث برتاؤ، برادرانہ رویے اور ہمسایہ ہونے کے اٹوٹ تعلق کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان پاکستان کا قریب ترین برادر مسلم ملک ہے۔ دونوں ممالک کے مذہبی اور ثقافتی رشتے بھی بہت گہرے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے تجارتی مفادات بھی ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں اور چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان کو پاکستان سے راہداری کی سہولت بھی درکار رہتی ہے۔ مالی وسائل سے محروم اور طویل جنگ سے تباہ حال افغانستان اس وقت بڑے انسانی المیے کے خطرے سے دوچار ہے۔ ان حالات میں پاکستان آگے آیا اور مذہبی اخوت و انسانی ہمدردی کے جذبے سے افغان عوام کی مدد کے لئے پوری دنیا میں مہم چلائی۔ کانفرنس میں جن امور پر اتفاق کیا گیا ان پر عملدرآمد سے افغان عوام کو بہت بڑا ریلیف ملے گا جس کا کریڈٹ مسلم سربراہوں خاص طور پر وزیرِ اعظم عمران خان کو جاتا ہے جنہوں نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھایا اور دنیا کو خبردار کیا کہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لئے کوئی بڑا اقدام نہ اٹھایا گیا تو صورتحال تباہ کن ہو سکتی ہے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے مشترکہ اقدامات ناگزیر ہیں اس کے لئے طالبان حکومت کو تسلیم کر کے ان کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری بالخصوص امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنا بھرپور اور ٹھوس کردار ادا کرنا چاہئے۔ طالبان کو حکومت سازی اور انتظامی امور چلانے کے لئے فری ہینڈ دینا ہو گا تا کہ عالمی سیاست کے دھارے میں شامل ہو سکیں۔ افغانستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اگر وہاں امن قائم ہو جائے تو وہ دنیا کے دیگر ترقی پزیر ممالک کے ہم رکاب ہو سکتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بیرونی ممالک کے سرمایہ کار ان کے ملک کو بھی ترقیاتی فنڈز مہیا کریں تو افغانستان بھی ترقی کی شاہراہ پر نت نئی منزلیں طے کر سکتا ہے۔
افغانستان کی تین کروڑ نوے لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی معاشی طور پر بحرانی صورتحال سے دوچار ہے، اسے سخت سردی، غذائی اشیاء کی سخت کمی اور غربت میں اضافے کی مشکلات کا سامنا ہے۔ چار ماہ قبل طالبان نے کنٹرول سنبھالا تھا اور اب وہاں صورتحال بڑی مخدوش ہے۔ غیر مستحکم افغانستان کسی طور بھی دنیا اور خطے کے لئے موزوں نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی جنگ کے اغراض و مقاصد بھی یہی تھے کہ وہ خطے کے امن و استحکام کے لئے ایک پر امن افغانستان کا قیام عمل میں لائے۔ دو دہائیوں کی طویل جنگ کے بعد اب افغانستان میں امن کی بحالی کی امید پیدا ہوئی ہے تو عالمی برادری کو طالبان حکومت کا ساتھ دینا چاہئے۔ افغانستان میں امن کی بحالی اور انسانی بحران پر قابو پانے کی زیادہ ذمہ داری امریکہ اورا س کے اتحادیوں عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے 20 سال قبل طالبان حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی جس نے افغانستان کی ترقی اور امن کے لئے کوئی قابلِ ذکر کام نہ کیا بلکہ اقتدار کو طول دینے کے لئے امریکی بے ساکھیوں کا سہارا لئے رکھا۔ افغانستان میں سیاسی و معاشرتی، خواتین اور لڑکیوں سمیت انسانی حقوق کے احترام اور دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترنے میں مدد کے لئے افغان عوام سے رابطہ رکھنا ضروری ہے۔ افغانستان میں خطرناک انسانی اور اقتصادی بحران کے خدشے کی نشاندہی، امداد روکنے کے بجائے مشترکہ امدادی ہاتھ آگے بڑھانے کا وقت ہے۔ افغانستان میں ہونے والی حالیہ تبدیلی نے افغان عوام کی تکالیف اور بنیادی ضروریات کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے ان تکالیف کا سب سے زیادہ سامنا خواتین اور بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.