کہانی ایک ڈکیتی مرڈر کی!

126

میرے سٹوڈنٹس مجھے اپنی اولاد کی طرح عزیز ہیں۔ میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں دنیا بھر میں الحمدللہ میری جتنی عزت افزائی ہوتی ہے، میرے سٹوڈنٹس کا اس میں بڑا اہم کردار ہے۔… یہ شاید اس سوچ کا ’’انعام‘‘ ہے میں نے شروع سے ہی ایک ’’استاد‘‘ بننے کا ارادہ کیا تھا۔ جسے اللہ نے اپنے فیصلے میں بدل دیا۔ قدرت نے مجھے کئی حیثیتوں سے نواز رکھا ہے۔ ’’کہ تم اپنے پرورگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے‘‘… مگر اپنی جس حیثیت پر سب سے زیادہ مجھے ’’عاجزی‘‘ ہے وہ میرا استاد ہونا ہے۔ انسان ساری زندگی سیکھتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے اکثر میں سوچتا ہوں مجھے خود کو استاد کہنا بھی چاہئے یا نہیں؟ میں اکثر اپنی کلاس میں اپنے کسی لائق سٹوڈنٹ کو روسٹرم پر کھڑے کر دیتا ہوں۔ اس سے کہتا ہوں ’’بیٹا آج آپ مجھے کچھ پڑھائیں۔ مجھے کچھ سکھائیں‘‘… خود میں سامنے کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں… میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ضروری نہیں استاد ہی اپنے طلبہ کو کچھ سیکھائے ۔ میں نے اپنے بے شمار طلبہ کو خود سے زیادہ لائق پایا۔ بجائے اس کے میں انہیں کچھ سیکھاتا ، میں ان سے سیکھتا رہا۔ اس لحاظ سے میرے کئی’’شاگردان‘‘ اصل میں میرے ’’اساتذہ‘‘ ہیں۔ سب سے بڑا استاد زمانہ ہے۔ جو زمانے سے کچھ نہیں سیکھتا وہ کسی سے کچھ نہیں سیکھ سکتا۔… 1999ء میں علی سہیل ورک ایف سی کالج میں میرا شاگرد عزیز تھا۔ بعد میں وہ فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہو گیا۔ پھر اس شعبے کو خیرباد کہہ کے وہ جرمنی چلے گیا۔ وہاں اس نے کاروبار شروع کر دیا۔ ان دنوں وہ پرتگال میں مقیم ہے۔ اس کے دوبھائی جرمنی میں گارمنٹس کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ کامونکی کا رہائشی ہے۔ اس کے والدین جرمنی اور پرتگال میں اپنے بچوں کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ مگر پاکستان میں بزرگی کا شاید یہ ایک بنیادی تقاضا ہے۔ ہمارے اکثر بزرگ صرف پاکستان میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ پاکستان میں کیا ، ہمارے اکثر بزرگ تو اپنی گلی ، اپنا محلہ اپنا مکان تک چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ کسی وجہ سے اپنی گلی اپنا محلہ یا اپنا پرانا مکان انہیں چھوڑنا پڑ جائے وہ بیمار ہو جاتے ہیں۔… میرے اپنے ساس سسر کینیڈا میں اپنے بڑے بیٹے کے پاس مقیم ہیں۔ وہاں انہیں دنیا کی تمام آسائشیں تمام سہولتیں، تمام نعمتیں میسر ہیں۔ اس کے باوجود جو چھ ماہ وہ کینیڈا میں گزارتے ہیں ان کے نزدیک انہیں یوں محسوس ہوتا ہے وہ قید میں ہیں۔ یہ ’’قید‘‘ وہ اپنے بڑے بیٹے کے لئے کاٹتے ہیں جو یہ سمجھتا ہے والدین کی خدمت کا اسے بھی اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا پاکستان میں مقیم اس کے چھوٹے بھائی کو حاصل ہے۔ میرے سسر عبدالعزیز ملک اکثر فرماتے ہیں کینیڈا میں ہمارے پاس اگر یہ ’’خواب‘‘ نہ ہو کہ اگلے چھ ماہ ہم نے پاکستان جا کے گزارنے ہیں ہمارے لئے ایک پل کینیڈا میں گزارنا مشکل ہو جائے۔ گو کہ وہ جب پاکستان آتے ہیں یہاں کے حالات دیکھ کر ان کا حی بہت کڑھتا ہے۔ خصوصاً یہاں کمزور لوگوں کے ساتھ جو ظلم ہوتے ہیں، جو زیادتیاں ہوتی ہیں۔ یہاں کے عدالتی نظام میں جو بگاڑ ہے۔ یہاں کی ناقص حکمرانی نے ہر شعبے میں جس طرح کی بربادیاں برپا کر رکھی ہیں، وہ سب ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ اس کے باوجود انہیں پاکستان اچھا لگتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ، ’’یہ سب خوبیاں پاکستان میں بسنے والے کروڑوں کے ’’ہجوم‘‘ کی وجہ سے ہیں۔ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہیں۔ عمران خان ان کی واحد آخری امید تھی جو ، اب دم توڑتی جا رہی ہے۔ اس ’’شمع‘‘ کو روشن کرنے کے لئے گزشتہ عام انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے وہ خاص طور پر کینیڈا سے پاکستان آئے تھے۔ اس ’’شمع‘‘ کو ٹمٹماتے دیکھ کر ان کا دل بجھ گیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں عطاء اللہ عیٰسی خیلوی جو کہتے ہیں ’’اچھے دن آئیں گے‘‘ وہ ان کی زندگی میں آ جائیں۔ میرا وزیر اعظم عمران خان سے جو ایک دیرینہ وزارتی تعلق ہے اس نسبت سے میرے سسر عبدالعزیز ملک ہر دوسرے چوتھے روز ٹورنٹو سے فون پر مجھ سے پوچھتے ہیں۔ ’’یہ عمران خان کیا کر رہا ہے؟‘‘ میں عرض کرتا رہوں گا ’’ وہی کر رہا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہئے تھا اور جو کرنا چاہئے تھا وہ نہیں کر رہا ۔’’ وہ سسٹم تبدیل کرنے آیا تھا۔ یہ غلیظ سسٹم اتنا طاقتور ہے اس نے اسے تبدیل کر دیا۔ اب ’’سنجھیاں ہوجان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘‘ والا معاملہ ہے۔ اس میں سارا قصور عمران خان کا نہیں ، غلیظ عوام یعنی میرا بھی ہے میں تبدیل ہونا ہی نہیں چاہتا ۔ نہ میں یہ چاہتا ہوں سسٹم تبدیل ہو۔ جس سسٹم کے ہم سب ’’بینفشری‘‘ ہیں ، ہم کیسے چاہیں گے وہ تبدیل ہو جائے؟۔ سو اگر کسی ’’معجزے‘‘ کے تحت کوئی اچھا سسٹم یہاں کبھی رائج ہو بھی گیا ہم سب اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں گے کہ ہمارا پرانا سسٹم ہمیں واپس کیا جائے۔’’ میں کسی اور موضوع کی طرف نکل گیا۔ ابھی میں پرتگال میں مقیم اپنے شاگرد عزیز علی سہیل ورک کا دکھ آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ پچھلے مہینے نومبر میں وہ چند ذاتی امور نمٹانے کے لئے پاکستان آیا۔ چند یوم قیام کے بعد وہ واپس پرتگال چلے گیا۔ وہ ابھی جہاز میں ہی تھا۔ یہاں پاکستان کامونکی میں اس کے والد محترم چوہدری سہیل ورک ایک بینک سے ساٹھ لاکھ روپے نکلوا کر کسی شخص کو زمین کی خریداری کے لئے دینے کے لئے جیسے ہی بینک سے باہر نکل کر ذرا دور ایک روڈ پر گئے دو موٹر سائیکل سوار ڈاکوئوں نے گن پوائنٹ پر ان کی گاڑی روکی اور ان سے کہا ’’شاپر ہمارے حوالے کر دو‘‘۔ چوہدری سہیل ورک بینک سے یہ رقم ایک شاپر میں ڈال کر نکلے تھے۔ سو ڈاکوئوں کو معلوم تھا یہ رقم ایک شاپر میں ہے۔ ظاہر ہے یہ اطلاع انہیں بینک کے عملے میں سے کسی نے دی ہو گی جو ان کا سہولت کار ہو گا۔ چوہدری سہیل ورک ڈرائیونگ سیٹ کے نیچے رکھا شاپر بیگ جیسے ہی ڈاکوئوں کے حوالے کرنے لگے تو شاپر پھٹ گیا کچھ رقم زمین پر گر گئی۔ ورک صاحب اپنی طرف سے وہ رقم زمین سے اٹھا کر ڈاکوئوں کے سپرد کرنے لگے ، ڈاکوئوں نے شاید یہ سمجھا وہ نیچے جھک کر گاڑی سے کوئی ہتھیارنکالنے لگے ہیں ، انہوں نے فوراً فائر کھول دیا جو ان کے پیٹ میں لگا ۔ اس وقوع کے قریب ہی ایک فلور ملز کے مین گیٹ پر کھڑے کچھ اسلحہ بردار سکیورٹی گارڈز تماشا دیکھتے رہے ، وہ اگر اس موقع پر دو چار ہوائی فائر ہی کر دیتے ڈاکوئوں کو یہ واردات کرنے کا شاید موقع نہ ملتا۔ ان سکیورٹی گارڈز نے جس غفلت کا مظاہرہ کیا مجھے تو وہ بھی ایک طرح کے ’’ڈاکو‘‘ ہی لگے۔ ڈاکوئوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ یہاں ہر شعبے میں جو شخص اپنے فرائض صحیح طریقہ سے ادا نہیں کرتا۔ اس میں ڈنڈی مارتا ہے ۔ میرے نزدیک وہ ’’ڈاکو‘‘ہی ہے۔… طریقہ واردات بس مختلف ہیں ۔کچھ نے نقاب پہنے ہوتے ہیں اور اکثر اب نقاب پہننے کی ضرورت شاید اس لئے محسوس نہیں کرتے کہ جنہوں نے انہیں پکڑنا ہے انہوں نے کون سے نقاب پہنے ہوتے ہیں؟ (جاری ہے) !!

تبصرے بند ہیں.