زیاں اور احساسِ زیاں

334

زیاں یہ ہے کہ انسان روحانی قدروں کو کھو کر مادّی قدروں میں کھو جائے ……اور احساسِ زیاں یہ ہے کہ اسے تائب ہو کر لوٹ آنے کا احساس باقی رہے۔ انسان کی قدر‘ روحانی قدروں میں بسر کرنے میں ہے۔ روحانی قدروں میں بسر کرنے والا انسان ہی انسان کی صحیح قدر کرتا ہے…… اور کر سکتا ہے۔ مادّی اقدار کا گرویدہ‘ اپنی قدر کے لیے عام طور پراپنی ہی کسی صفت کا محتاج ہوتا ہے۔ صفت کے ماند پڑتے ہی اُس کی قدر‘ ناقدری میں بدل جاتی ہے۔ مادّی اقدار متغیر ہوتی ہیں …… اِن میں داخل ہوتے ہی انسان کی حالت غیر ہو جاتی ہے…… یعنی وہ غیر کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ غیر کی جانب متوجہ ہونے سے وہ توجہ سے محروم ہو جاتا ہے۔ آفرینش ہی سے انسانی رویوں میں یہ دیکھا گیا کہ وہ آسمانی اور الہامی من و سلویٰ ترک کرکے زمینی اور ذہنی تھوم گنڈوں کی طرف لالچ کی نظر سے دیکھتا ہے…… اُس کے اِس طرح دیکھنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ ہاروت ماروت کی کہانی اب بھی حقیقت بن کر ماضی کے دریچوں سے جھانک رہی ہے۔ کوئی کہانی ایسی نہیں‘ جس میں حقیقت نہ ہو، اور کوئی حقیقت بھی ایسی نہیں‘ جس کے گرد کہانی نہ بنائی گئی ہو۔ انسان ہر بار ہر امتحان میں ناکام ہوا ہے۔ ناکام ہونے پر احساسِ ناکامی قائم رہے‘ تو کامیابی کی طرف قدم بڑھ سکتے ہیں۔ مادّی ترغیبات کی طرف رغبت کے امتحان میں ناکام ہونے کو اگر معمول بنا لیا جائے تو انسان کے اندر سے احساسِ زیاں جاتا رہتا ہے۔ احساسِ زیاں کا رخصت ہونا کسی مال و متاع اور مقام و منصب کے زیاں سے کہیں بڑا نقصان ہے۔
احساسِ زیاں‘انسان کو اصلاحِ احوال کا خیال دیتا ہے۔ دُوری کا اِحساس قرب کی تمنا دے سکتا ہے…… اور قرب کی تمنا مقرب کے قریب کرتی ہے۔ اِس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ احساسِ زیاں ایک گونہ حاصل کا نام ہے۔ انسان کی زندگی کا حاصل اور ماحاصل ایک احساس ہی تو ہے۔ دِل اس لیے دل ہے کہ اس میں احساس پرورش پرتا ہے۔ اگر دل میں احساس ختم ہو جائے تو یہ سل بن جائے …… بے جان، بے حس، روح سے محروم…… زندگی کی حرکت اور برکت سے دُور…… ایک جمود زندہ وجود!! اگر خدانخواستہ دل سے احساس رخصت ہو جائے تو خانہئ شعور سے خدا کا احساس بھی رخصت ہو جاتا ہے۔ درویش لوگ کہتے ہیں کہ اپنے دل میں احساس کو جگائے رکھو، خدا نے تمہارے ساتھ کسی اِحساس کی صورت میں ہم کلام ہونا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں ”جسے احساس نہ جگائے ٗ اسے اور کون جگائے“۔ ”’شب چراغ“ میں آپؒ کا ایک شعر ہے…… احساس سے معمور!!
وہ مطمئن کہ زیاں جو ہوا، ہوا واصفؔ
مجھے یہ فکر کہ ہوکیسے وا‘درِ احساس
مرشد کے اِس شعر کے زیرِ اثر اپنے احساس کو بیدار رکھنے کی تمنا میں اس فقیر نے اپنے فقیرخانے کا نام ”’درِ احساس“ ‘ رکھا ہے۔ اِس فقیر کے دل میں جب دوسروں کے اندر اِحساس کی شمع جگانے کی تمنا جگمگائی تو اِسے یہی سبق ملا کہ دوسروں میں اِحساس جگانے کا طریقہ یہی کہ خود اپنے اندر اِحساس کو جگائے رکھو…… ایک لمحے کے لیے بھی اپنے گرد و پیش میں بسنے والوں سے غافل نہ ر ہو، کسی سائل کی آواز پر بہر ے بن کر نہ گزرو، آس پاس کے حقوق کی ادائیگی کو اپنے اوپر فرضِ عین جانو …… کبھی دین کے نام پر انسانوں کے حقوق سلب نہ کرو۔ جس نے دین دیا ہے‘ اسی نے تمہارے آس پاس کچھ انسانوں کو بھی بسا دیا ہے ……اُس نے نے مخلوق کو اپنا کنبہ قرار دیا ہے۔
لذات و شہوات میں کھونا‘ اپنے اندر احساس کو مردہ کر دیتا ہے۔ انسان جب اپنی خواہش کی دلدل میں دھنس جاتا ہے تو کسی دوسرے انسان کی مدد کے لیے ہاتھ نہیں بڑھا سکتا۔ خواہش انسان کو اندر باہر سے جکڑ لیتی ہے۔ اگر اِحساس کا زیاں روکنا ہے تو اپنے اندر احساسِ زیاں کو بیدار کرنا ہو گا۔
اِحساس کا زیاں یہ بھی ہے کہ انسان وقت، وجود اور وسائل غیر تعمیری کاموں میں صرف کرتا رہے۔ اِحساس کی دولت اِس طرح بھی ضائع ہو جاتی ہے کہ انسان دولت مندوں سے رغبت رکھے اور غریب لوگوں سے تعلق کو دھیما کرتا جائے۔ عزت کے عوض اگر شہرت کا سودا کر لیا جائے تو احساس کو ضائع ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ مختصر یہ کہ معیار کی جگہ مقدار جب انتخاب ٹھہرے‘ تو انسان رفتہ رفتہ اِحساس کے لطیف دائرے سے نکل جاتا ہے۔ لطافت سے نکلتے ہی کثافت اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ مادّی کائنات کے ظلمت کدے میں قید ہو جاتا ہے۔ جولانی ئ فکر اُس سے واپس لے لی جاتی ہے…… اگر وہ دین کا دم بھی بھرتا ہے کہ تو وہ دین کو دنیا کے زاویے سے دیکھنے لگتا ہے۔ باطن کی خوشبو سے محرومی‘ اُسے ظاہر پرستی کی طرف لے جاتی ہے۔ روحانی واردات کی مخموری رخصت ہو جاتی ہے اور اِس کی جگہ خمارِ گندم لے لیتی ہے۔ یہ ایک بدقسمتی ہے کہ مستی کی جگہ بدمستی لے لے…… اور اُخروی جنت کی جگہ دولت کے بل بوتے پر بنائی گئی شداد کی جنت میں رہنے پر وہ رضا مند ہو جائے۔
احساس کا زیاں یہ بھی ہے کہ انسان میسر شدہ نعمتوں کو اپنا استحقاق سمجھ لے۔ جیب میں دو پیسے آجانے سے قارون بن بیٹھے…… خود کو کسی قانون کے قاعدے کلیے سے ماورا سمجھنے لگے۔ قارونی فکر یہ ہے کہ انسان اپنی دولت کو اپنے علم کا نتیجہ سمجھے۔ اسی طرح اگر کوئی منصب کسی انسان کو من مانی کرنے پر”مجبور“کردے تووہ فرعون کی فکر پر کھڑا ہے۔ اگر عبادت اسے عاجزی کے قریب اور نفسانی ہیجان سے دُور نہیں کرتی تو عین ممکن ہے وہ بلعم باعور کے حشر کے آس پاس ہے۔ فرعون ہونے کے لیے کسی سلطنت کی بادشاہت ضروری نہیں، چند مرلے کے گھر میں اپنے اہل و عیال کے حق میں ظالم ہو جانے والا بھی فرعون ہے، اپنے حکم میں اپنی رعیت کو محصورو مجبور رکھنے والا، انہیں ڈرانے دھمکانے والا بھی فراعین کے نقشِ قدم پر ہوتا ہے۔ حاکم کا بزورِ قوت اپنی حاکمیت جتلانا ایک مادّی طرزِ فکر ہے…… اور فرعون اسی طرزِ فکر کا نقیب ہے۔
اِحساس زندہ رہے‘ تو اِنسان زندہ رہے گا…… نہیں‘ تو نہیں!!اِحساس مر جائے‘ اِنسان مر جاتا ہے…… زندہ ہوتے ہوئے‘وہ مادّے میں گردن تک دھنس جاتا ہے ……مادّے میں زندہ در گور ہو جاتا ہے۔ مقدار کا رسیا‘ مزار کے بجائے مقبرے کا منظر دیکھنے لگتا۔ احساس کو جگانے اور جگائے رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم زندہ انسانوں کی طرف رجوع کریں۔ وہاں رابطے میں رہیں‘جہاں زندگی ہے‘ جہاں احساس پنپتا ہے……اور تقسیم ہوتا ہے……جہاں ہماری مِلکیت کی نہیں بلکہ مَلَکیت کی تعریف ہوتی ہے۔ مِلک ظاہر ہے، مَلَکیت باطن!! لازم ہے کہ ہم ایسے انسانوں سے رابطے میں رہیں‘جو اس دنیا سے رخصت ہو کر بھی رخصت نہیں ہوتے…… جن کے نام، کام اور پیغام میں زندگی ہے۔ زندگی صرف یہی نہیں کہ بدن میں سانس کی آمدو رفت قائم رہے اور جسمانی جوارح حرکت میں رہیں‘ بلکہ زندگی یہ ہے کہ دل میں حرکت رہے ……اِحساس اور وجدان کی حرکت سے معمور رہے!! اصل زندگی شعور کے بیدار ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہے …… اور ایسی زندگی کی شہادت عام لوگ نہیں دے سکتے…… کہ وہ اِس کا شعور نہیں رکھتے۔ زندگی کیا ہے؟ یہ قرآن سے پوچھنا چاہے یا پھر صاحب ِ قرآنؐ سے …… قرآن کافروں کو مردہ کہتا ہے‘حالانکہ وہ چلتے پھرتے ہیں …… قرآن شہید کو زندہ کہتا ہے‘ حالانکہ وہ قبر میں لیٹا ہوا ہے۔
درحقیقت خود غرضی موت ہے…… اور اِحساس کی موجودگی زندگی ہے۔ احساس‘ دراصل دوسروں کی تکلیف محسوس کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ ہمارے گفتار و اطوار سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی؟ اگر اِس بات کا اِحساس مفقود ہے‘ تو جان لیجئے کہ ہمارے اندر اِحساس نام کی حس معدوم ہے۔ اِحساس موجود ہوگا‘تو اِحسان کی منزل کی نشان دہی ہو سکے گی۔اِحسان کی منزل پر زندگی اپنے مکمل درجے پر موجود ہے…… پوری آن اور شان سے جلوہ گر ہے…… ہمیشہ کی زندگی‘ہمیشہ کے لیے!!! اَز روئے حدیث‘درجہئ احسان یہ ہے کہ تو اپنے رب کی عبادت ایسے کرے جیسے تو اُس کو دیکھ رہا ہے…… گویا اپنے رب کی زندگی کا شاہد ہونا…… اُس کے راستے کا شہید ہونا ہے ……یہ ایک ایسی مسرت آگیں سعادت ہے کہ اِنسان اَمر ہو جاتا ہے……یعنی مر کر بھی نہیں مرتا۔ کوئی سرکار‘ اپنے سرکاری گواہ ضائع نہیں ہونے دیتی!!

تبصرے بند ہیں.