عوامی انقلاب کی گردان

119

ملک کا عام آدمی سخت پریشان ہے اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس کی بات پر اعتبار کرے اور کسی غلط سمجھے۔ ایک طرف بیانات ہیں جن سے کچھ امید بندھتی ہے تو دوسری جانب اعداد و شمار حوصلہ توڑنے کے لئے سامنے آ جاتے ہیں۔ ایک طرف حکومتی ارکان ہیں جو بیانات دیتے ہیں کہ معیشت میں تیزی آ رہی ہے اور اقتصادی سرگرمیاں جس تیزی سے بڑھ رہی ہیں اس سے آئندہ سال شرح نمو میں خاطر خواہ اضافہ بآسانی ممکن نظر آتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف اعداد شمار بہت پریشان کن ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں کمی کے بجائے لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مہنگائی میں غیر معمولی اضافے نے کم آمدنی والوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ موجودہ حکومت نے خود روزگار اور سٹارٹ اپ کے بہت سے منصوبے متعارف کرائے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ کامیابی کے ساتھ نافذ نہیں ہو پائے جس کی وجہ سے ان کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ مسئلہ صرف اتنا نہیں بلکہ عام آدمی کی پریشانی یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو بے روزگاری کا یہ عالم ہے تو دوسری جانب ملک میں پٹرولیم، گیس، بجلی سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ تیل کی قیمتیں اس وقت پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ تیزی سے بڑھتی مہنگائی سے غصہ اور بے اعتباری کی کیفیت آہستہ آہستہ پنپ رہی ہے۔ جب کہ ہماری سیاست کا محاورہ عوامی انقلاب کے قاعدے سے نکلتا ہے اور عوام کے انقلاب کی گردان بن کر ختم ہوتا ہے۔ اس ضمن میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ عوام کے مسائل ہمارے بڑے قائدین کو سمجھ نہیں آئے۔ حکومتِ وقت اب بھی محض وقت گزار رہی ہے۔ اس کے کام میں نہ تو کہیں حالات سے متعلق پریشانی جھلکتی ہے اور نہ ہی اس کے اطوار میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے۔ سب اپنی اپنی دنیا میں گم ہیں۔ کسی کو لندن کی جائیداد کی فکر ہے اور اس کو بچانے کے لئے فکر مند ہیں تو کسی کو اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کی پسوڑی پڑی ہے۔
جب کہ کرپشن ہے کہ پورے معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر چکی ہے۔ غور کریں تو یوں لگتا ہے کہ ہر با اختیار فرد لوٹ مار میں ملوث ہے۔ درد مند محبِ وطن اور دیانت دار لوگ بہت دکھ بھرے انداز میں کہتے ہیں کہ لوٹ مار یا کرپشن کرنے والوں کا پیٹ کتنی دولت سے بھرے گا؟ دولت ایک حد تک تو مسائل اور مشکلات حل کرتی ہے مگر بے پناہ دولت کس کام کی؟ ضرورت سے زائد دولت بینکوں یا تجوریوں میں بند رہتی ہے۔ دانش مندوں سے سنا ہے کہ لالچی انسان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ ماضی کے شداد، قارون، فرعون وغیرہ کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ موجودہ زمانے کے قارونوں نے بھی اتنی دولت جمع کر لی تھی کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے یا معزول کئے گئے تو ان کے اکاؤنٹس اور محلوں سے کروڑوں اربوں ڈالر نکلے اور بے حساب جائیداد۔ بے پناہ مال و دولت ان کے کام نہیں آ سکی۔ اگر سرکاری افسران اور دوسرے بااختیار افراد کرپشن میں ملوث ہوں تو یہ امر قابلِ فہم ہے کہ انہوں نے ماضی میں قانون کی ڈھیلی گرفت سے فائدہ اٹھایا اور بعض صورتوں میں قانون کے رکھوالوں کو بھی خرید لیا۔ کیونکہ ان کا عوام سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، لیکن عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اور ایک خاص وقفے کے بعد عوام سے ووٹوں کی بھیک مانگنے والے سیاست دان اور حکمران بھی کرپشن میں ملوث ہیں اور وہ بھی اربوں کھربوں کی، اس حوالے سے حیرت ہوتی ہے۔ افسوس انہوں نے کبھی بھی نہ تو اپنے ملک کی عزت اور وقار کا خیال کیا اور نہ ہی اپنی عزت کا۔ وہ برس ہا برس سے یہ کھیل کھیلتے رہے، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ انہوں نے غیر ملکی بینکوں کو اپنی لوٹ مار کی رقوم سے بھر دیا اور دبئی، لندن اور دیگر شہروں میں
جائیدادیں خرید لیں۔ حکمران اشرافیہ انفرادی طور پر دعوے کرتی ہے کہ اس پر کوئی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا، کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ایسا ہو جائے تو ان عوارض کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے جو ملک کو آگے بڑھنے نہیں دے رہے ہیں۔ معاشرے میں خوشحالی اور معاشی ترقی کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی اور گڈ گورنس قائم ہو۔ ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہو اور میرٹ کے اصول پر عملدرآمد ہو۔ اقربا پروری میرٹ کی ضد ہے، حکمران پارٹیوں کی طرف سے ان کے مظاہرے بار بار سامنے آتے رہتے ہیں۔ حکمران پارٹی کا مطلب کوئی خصوصی جماعت نہیں ہے آج پاکستان کی ہر قابلِ ذکر پارٹی اقتدار میں ہے کراچی سے خیبر تک قومی وجود میں آج بھی مذکورہ بیماریاں سرایت کئے ہوئے ہیں اور اس حمام میں ہر پارٹی یکساں ایک ہی حالت میں ہے مگر ان بیماریوں کے خاتمے کی اولین ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہے، ماضی کی طرح آج کی حکمران پارٹی خود بھی کرپشن اورا قربا پروری کے الزامات کی ضد میں ہے۔ ماضی میں وزیرِ اعظم عمران خان بار بار الزام عائد کرتے رہے کہ قومی وسائل لوٹنے کے لئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین مک مکا ہو چکا ہے۔ لیکن اب ان کی پارٹی کے اراکین پر بھی اسی قسم کے الزامات کی بھرمار ہے۔ ملکی معاملات میں کرپشن اور بد عنوانی ایک طویل عرصے سے ہمارے ملک کے گمبھیر مسائل میں سے ایک ہے اور تقریباً ہمارے تمام سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس کا شکار ہیں اور شائد یہ اب ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے۔ پولیس سے لے کر ماتحت عدالتیں ہوں یا ریلوے سے لے کر پی آئی اے ہر طرف بد عنوانی اقرباء پروری اور جعلسازی اور کرپشن سے قومی خزانے کو اربوں روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے اور ایک ایسی قوم جس کو پہلے پہ ہی دہشت گردی، فرقہ واریت، مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے لئے کرپشن کا عفریت اس کی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے۔ ملک میں ہر حکومت نے ہمیشہ اپنی کرسی بچانے اور اقتدار کو طول دینے کے لئے اس مسئلے سے چشم پوشی برقرار رکھی۔
کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی پہچان اس میں آباد عوام کی ترقی، خوشحالی، کامیابی سے ہوتی ہے اور اس کام کی ذمہ داری اول تا آخر حکومتِ وقت کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایہ کو خوشحال زندگی بسر کرنے اور اس کے زیرِ انتظام مملکت میں پائے جانے والے مالی وسائل سے مکمل طور پر مستفید ہونے اور فائدہ اٹھانے کے مواقع کس طرح فراہم کراتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے ہاں سیاسی بنیادوں پر تقرریوں، معروضی حالات اور مروجہ کلچر کے باعث اصولوں، اخلاقیات اور آئین و قانون سے ماوراء شواہد بھی نظر آتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.