رنجیت سنگھ کا کردار

540

جس وقت ہندوستان میں مغلوں کی حکومت تیزی سے سمٹ رہی تھی افغانستان اوریران سے حملہ آور بڑی تیزی سے ہندوستان پر حملے کر رہے تھے۔تو پنجاب میں سکھوں  نے بھی بڑی تیزی سے سر اُٹھانا شروع کر دیا اور سکھوں نے پنجاب کے 12علاقوں پر قبضہ کر لیا ان میں سے 5علاقوں میں زیادہ طاقتور تھے۔جہاں پر سکھوں کازیادہ زور تھا جوزیادہ تر سکر چکیاں،مثل راوی،اور دریائے چناب کے درمیانی علاقوں پر مشتمل تھے۔گوجرانوالہ اس کا صدر مقام تھا۔اور اسی علاقے پر بہت سارے افغان حملہ آور ہوئے۔ پھر لاہور اور امرتسرکو سکھوں نے اپنی طاقت کا محور بنایا۔
رنجیت سنگھ سکر چکیاں،مثل کے سربراہ مہان سنگھ اور اس کی بیوی راج کول کے ہاں 1780میں ایک بیٹا پیدا ہوا اُس کا نام بدھ سنگھ رکھ دیا گیا۔بچپن میں اس کو چیچک کی بیماری لگ گئی اور اس کی بائیں آنکھ چھن گئی اور چہرے پر بد نما گڑے پڑ گئے۔اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔حروف تہجی کے علاوہ آگے کچھ نہ پڑھ سکا یہ نہ کچھ پڑھ سکتا تھا نہ کچھ لکھ سکتا تھا۔لیکن اس نے گھوڑ سواری اور تلوار چلانے کا ہنر 10سال میں ہی سیکھ لیا تھا۔اس نے اپنے والد کے ساتھ اپنے دشمنوں کے ساتھ پہلی لڑائی لڑی تو اُس وقت اُس کی عمر 10سال کی تھی اور اس کی بہادری کو دیکھتے ہوئے اس کا نام بدھ سنگھ سے رنجیت سنگھ رکھ دیا۔رنجیت سنگھ جب 12سال کا تھاتو اس کا والد وفات پا گیا۔تو اُس کے خاندان والوں نے رنجیت سنگھ کواپنا سردار مان لیا۔اور سرداری کی پگھ رنجیت سنگھ کے سر پہ رکھ دی اور 16 سال کی عمر میں اس کی جے سنگھ کی پوتی مہتاب کور سے شادی کر دی۔مہتاب کور اور رنجیت سنگھ کی شادی ناکام رہی۔
کیونکہ رنجیت سنگھ کے والد نے مہتاب کور کے والد کو قتل کیا تھا اور وہ اپنے باپ کے قاتل کے بیٹے کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی تھی۔وہ اکثر اپنے ماں باپ کے گھر ہی رہتی تھی جب رنجیت کی عمر 18سال کی ہوئی تو رنجیت سنگھ کی ماں فوت ہوگئی۔ابھی ماں کو فو ت ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے تو افغان حکمران شاہ زمان 30ہزار سپاہیوں کے ساتھ پنجاب پر حملہ آور ہواتو تمام سکھ سردار اور بہت سارے مسلم بھی خوفزدہ تھے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے تو وہاں پر رنجیت سنگھ نے ایک فوج تیار کی اور امرتسر کے مقام پر مقابلہ ہوا، رنجیت سنگھ نے شاہ زمان کو بھاگنے پر مجبور کر دیا یہاں پر رنجیت سنگھ کی بہادری اور اُس کا خوف پورے پنجاب پر چھا گیا۔اس کے بعدرنجیت سنگھ مشرق میں فتح گڑھ،کوریا،بٹالہ،اور گرداس پور کو بھی مضبوط کرنے میں مصروف ہو گیا۔پھر اُنہوں نے قصور،اور رام گڑھ اور دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیانی علاقے جن میں ساہیوال  اور اس کے گردونواح کے فتح کرنے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی خون کی ندیاں بہا دیں۔ اس کے بعد رنجیت سنگھ نے ساہیوال سے ہوتے ہوئے ملتان اور اس سے آگے تک تباہی مچاتے ہوئے اپنی حکومت کو وسیع کرلیا۔
پھر اس نے ایک ایک کرکے پنجاب کے علاقوں کو اپنے زیر اثر کر لیا اور 1799میں وہ یعنی صرف 19سال کی عمر میں پنجاب کا حکمران کہہ لیں یا گورنر کہہ لیں بن گیا۔اس نے کسرمیر سے لے کر ڈیرہ غازی خان تک اور ڈیرہ غازی سے لے کر خیبر پختونخوا تک اپنی سلطنت کو وسیع کر لیا۔ رنجیت سنگھ اور اُس کے ساتھیوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کرنا شروع کر دی۔ایک سکھ نے کتاب لکھی جس کا نام ترلوک سنگھ  ہے اس نے اپنی کتاب میں یہاں تک لکھاکہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں تک کو نہ چھوڑا جیسے یہاں تک کہ بادشاہی مسجد لاہور کے صحن میں گھوڑے اور خچر باندھے اور اس کے فوجی مسجد کی مسلسل بے حرمتی کرتے رہے۔اس نے مزید ایک جگہ لکھا کہ ایک عورت مہتاب بی بی زوجہ چراغ دین میرے پاس آئی اور کہا کہ میں ایک سکھ کے پاس گروی رکھی ہوئی ہوں کیونکہ ہمارے تمام گھروں اور زمینوں پر سکھوں کے قبضہ کر لیا ہے۔اور مجھے گروی رکھوا کر کھانے پینے کی اشیاء لی گئی ہیں۔اور گروی ہونے کی وجہ سے وہ جب چاہتا ہے میرے ساتھ آکر وقت گزرتا ہے۔1800کے بعد رنجیت سنگھ نے دوسرے سکھ سرداروں کی مدد سے مسلمان ریاستوں کو فتح کرنے کی ٹھان لی۔جو مسلمان ریاست اُسے نذرانہ دینے سے انکار کرتے تھے تو اُنہیں بے ترتیب،وحشی،اور فتح،کے نشے میں سرشار فوجیوں کے ہاتھوں سخت ذلت کا سامنا کرنا پڑتا۔مسلمان جو کئی سو سال اس خطے پر حکومت کر رہے تھے اُن کو اب ان کے ظلم کا سامنا کرنا پڑا۔
احمد خان رئیس جس کا تعلق جھنگ سے تھا رنجیت سنگھ نے اُسے شکست دی اور تمام شہر کو لُوٹ لیا۔اور وہاں کے لوگوں کو روٹی کے ٹکڑوں تک کا محتاج کر دیا۔ملتان میں نواب مظفر خان اور اُس کے بیٹوں نے ملتان میں اس کا بہادری سے مقابلہ کیا مگر وہ بھی اس کے آگے بے بس ہو گئے تھے۔500گھروں کو زمین بوس کر دیا گیا باقی گھروں کو آگ لگا دی۔شریف عورتوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے کنوؤں میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دی۔قصور میں جب حملہ کیا تو قصور کی خواتین کو ننگے سر ننگے بدن لائنوں میں کھڑا کیا وہ حیا دار عورتیں جن کو کبھی کسی مر د نے نہیں دیکھا تھا۔رنجیت سنگھ کے سپاہیوں کو جو لڑکیاں پسند آئیں اُن کو ساتھ لے گئے اور باقی جو رہ گئیں اُنہوں نے پھانسی لے لی۔
بہادر کنہیا لال نے اپنی کتاب تاریخ لاہور میں لکھا جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قضہ کیا تو بادشا ہی مسجد سے قیمتی سازو سامان،فانوس، او ر عمارتوں سے قیمتی پتھر چُرائے اُس نے لاہور مستی دروازے کی مسجد کو باروت(بارود) سے بھر دیا جو بعد میں بارود والی مسجد کے نام سے مشہور ہو گئی۔پھر اس نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر150  سے 156 تک میں لکھا ہے کہ مسجدوں کو گرانا سکھوں کے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ اس نے تمام کی تفصیل بھی لکھی ہے مساجد کو شہید کر کے عام عمارتوں کی شکل دے دی۔ وہ مسلمانوں کو حقیر نظر سے دیکھتا تھا۔مزید وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اس نے لاہور میں مسلم نوجوانوں کا قتل عام کیا اور جو بچ گئے ان کو اپنا غلام بنا لیا۔جو مساجد بچ گئی تھیں ان میں مسلمانوں کو اکٹھے ہو کر نماز پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔نہ وہ مسجد میں اذان دے سکتے تھے۔اس نے مغل شہزادیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی۔
ایک اور مصنف پتونت سنگھ نے اپنی کتاب رنجیت سنگھ میں لکھا ہے کہ رنجیت سنگھ اپنی زندگی بھر پور طریقے سے لطف اندوز ہوتا تھا۔اس کے دربار کی شان ہی نرالی تھی اس کی 20بیویاں تھیں۔رنجیت سنگھ کے دربار میں فرصت کے اوقات میں رقص و سرور کی محفلیں سجتی تھیں۔رنجیت سنگھ جب ایسی محفلوں میں آتا تو پسے ہوئے سُچے موتی اور کشمش سے کشیدہ کی گئی شراب پیتا 100سے125کے درمیان نوجوان لڑکیاں اس کے سامنے رقص کرتی تھیں ان کی عمر 18سے 25سال سے زیادہ نہ ہوتی تھی اور جو لڑکی رنجیت سنگھ کو پسند آجاتی تھی وہ اُس کو وہاں روک لیتا۔پتونت سنگھ مزید لکھتا ہے کہ رنجیت سنگھ کو اچھے نسلی گھوڑوں کے ساتھ ساتھ شراب اور خوبصورت عورتوں کی ہمیشہ چاہت رہتی تھی۔وہ لوگ جو رنجیت سنگھ کو شیر پنجاب کہتے ہیں وہ سکھوں کا تو شیر ہوسکتا ہے مگر مسلمانوں کا نہیں اُن کو شرم آنی چاہیے جو رنجیت سنگھ کی تعریف میں لکھتے ہیں اُنہیں پہلے تاریخ کا مطالعہ کر لینا چاہیے۔ اور اس کے مجسمے کو شاہی قلعہ سے ننکانہ صاحب کے گردوارے میں شفٹ کر دیا جائے تو بہتر ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.