فطرت
انسان وقت کی قید اور فطرت کے تابع ہے ،جب انسان کا وقت پورا ہو جاتا ہے، تو وہ وقت کی قید سے آزاد ہو کر فانی دنیا سے ابدی دنیا کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔انسان اپنی زندگی میں کسی کو جو قیمتی چیز دیتا ہے وہ وقت ہے، جو آپ نے کسی کو دے دیا وہ واپس نہیں آئے گا ،اس لیے کوئی شخص آپ کو وقت دے تو اس کی قدر کریں کے اس نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات آپ کو دیے ۔جہاں تک فطرت کی بات ہے تو آپ سے کوئی کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ،انسان نے سورج پر قدم رکھ دیا ،خلائی مخلوق نے زمین پر ڈیرے ڈال دیے تو یقین کر لیں، لیکن اگر کوئی کہے کہ کسی نے اپنی فطرت بدل لی تو یقین نہ کریں ۔سانپ کا کام ہے ڈسنا آپ اسے جتنا مرضی دودھ پلائیں لیکن وہ اپنی فطرت سے باز نہیں آئے گا ،شیر کا کام ہے شکار کرنا،آپ اسے چڑیا گھر کے پنجروں میں قید کر لیں جیسے وہ باہر آئے گا وہ اپنی فطرت کے مطابق عمل کرے گا ،شاہیں کی اپنی فطرت ہے اور گدھ کی اپنی جو مردار کھاکر زندہ رہتاہے اسی لیے تو اقبال نے کہا تھا کہ
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور ۔
انسان بھی اپنی فطرت کے تابع ہے کچھ خوش اخلاق اور مہذب ہوتے ہیں اور کچھ بد کردار اور غیر مہذب،کچھ باذوق ہوتے ہیں اور کچھ بد ذوق،بعض فطرتابہادر اور بعض بزدل ہوتے ہیں ۔بزرگوں کی بات کریں تو نرم طبیعت بھی ہوتے ہیں اور جلالی بھی ۔مطلب یہ ہے کہ انسان ہوں ،جانور یا چرند پرند سب اپنی فطرت کے تابع ہیں ۔وقت اور ضرورت کے تحت دو مختلف فطرت کے انسان ایک ساتھ چل تو سکتے ہیں لیکن اس ضرورت کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنی اپنی فطرت کی طرف لوٹ جائیں گے ۔اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما بھی اپنی فطرت کے تابع ہیں ۔جیسے میں نے لکھا ہے کہ وقت اور ضرورت دو مختلف فطرت لوگوں کو اکٹھا تو کر دیتی ہے پر آخر وہ اپنی اصل یعنی فطرت کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی ضرورت کے تحت اکٹھی تو ہوئیں لیکن پھر سب نے دیکھا کہ وہ اپنی فطرت کی لوٹ گئیں اور ایک دوسرے کے بارے میں وہ زبان استعمال کی جو ان کی فطرت کے عین مطابق ہے ۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)جتنے مرضی میثاق جمہوریت کر لیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے قائدین کی فطرت الگ الگ ہے ۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے وقتی مفاد کے تحت خیبر پختونخوا میں مل کر حکومت بنائی تھی اور جب وہ مفاد پورا ہو گیا تو دونوں جماعتیں اپنی اصل کی طرف لوٹ گئیں ۔پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں مسلم لیگ (ق)کے ساتھ اتحاد کیا تو آج تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ق)کے ساتھ اتحاد کیا ہوا ہے اور مذکورہ جماعتیں جو کچھ ایک دوسرے کے بارے میں کہتی رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔صرف ان جماعتوں کا ہی نہیں دیگر جماعتوں کا بھی یہی حال ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کی بات کریں تو ان کی فطرت ہے کہ جو ان کی کتاب میں مائنس ہو گیا اس کے دوبارہ پلس ہونے کے چانس ختم ہو جاتے ہیں چاہے پھر وہ ان کے رشتے دار نیازی برادران ہوں، جاوید ہاشمی ہوں یا جہانگیر ترین۔میاں محمد نواز شریف جو نظر آتے ہیں وہ ہیں نہیں ،وہ گہرے آدمی ہیں جب کے لوگ انہیں معصوم اور بھولا سمجھتے ہیں ۔فطرتا نواز شریف ضدی شخص ہیں انہوں نے تین بار اپنی حکومت سے ہاتھ دھویا لیکن فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہر بار وہی غلطی دہرائی جس کا نتیجہ بھی ہر بار وہی نکلا ۔مریم نواز کی بات کریں تو انہوں نے سیاست میں انٹری کے ساتھ ہی جارحانہ رویہ رکھا اور کبھی مصلحت اور مجبوری کے تحت خاموشی بھی اختیار کی لیکن انہیں جب موقع ملا انہوں نے اپنی فطرت کے مطابق عمل کیا ۔آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن میں مریم نواز نے اپنی فطرت کے مطابق جارحانہ رویہ اپنایااور مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا ۔انہوں نے جہاں ڈیل کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاگل ہیں کہ ان سے ڈیل کر لیں جن کے خلاف ہماری جدوجہد ہے وہاں انہوں نے اس بات کو بھی کلیر کیا کہ نواز شریف نے چند کرداروں کے نام لیے وہ اداروں کے خلاف نہیں ہیںاور نہ ہی ادارے کسی کی جاگیر ہیں ۔مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف دہری مشکل میں ہیں، فطرتا تو وہ مفاہمت کی سیاست چاہتے ہیں لیکن وہ ادھر ماحول بناتے ہیں تو لندن سے انکار کر دیا جاتاہے اور انہیں لندن سے جو ہدایت ملتی ہے اسے یہاں والے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں،جس کے بعد انہیں خود کہنا پر گیا کہ میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ درمیانی راستہ نکلے ، اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ بے شک انہوں نے مفاہت کا راستہ اپنایا مگر اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیںہوا ،انہیں اور ان کے صاحبزادے کوجیل جانا پڑا ۔شہباز شریف جو مرضی کہیں لیکن ان کی فطرت میں وہ جارحانہ پن نہیں جو مریم نواز میں ہے یہی وجہ ہے کہ اعتراف کر لینے کے بعد بھی انہوں نے آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات سمیت کہیں اپنی فطرت کے برخلاف تقریر یا بیانات نہیں دیے ۔آصف زرداری اپنی فطرت کے مطابق دوستوں کے دوست اور مفاد کے لیے دوسروں کو ساتھ ملانے کے ماہر ہیں، جہاں انہیں فائدہ نظر نہ آئے تو یہ کہنے میں کوئی آڑ محسوس نہیں کرتے کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے ،وہ اداروں کے ساتھ اختلاف میں ایک حد سے آگے نہیں جاتے ۔ایک بار اپنے دور حکومت میں انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات تو کر دی تھی پھر انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانا پڑ گیا تھا ۔پارلیمنٹ میں ایسے سیاستدان بھی ہیں جن کی فطرت میں ہے کہ ذاتی مفادات کے لیے انہوں نے اقتدار کی جماعت کے ساتھ ہی رہنا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ قومیں کرپٹ، بدکردار یا بد فطرت انسان کا انتخاب کرنے کی بجائے با اخلاق،غیرت مند اورنیک فطرت لوگوں کا انتخاب کیا کریں، تا کہ وہ اپنی فطرت کے مطابق ملک و قوم کے لیے ایسے کام کرے جس سے عوام کو ریلیف اور ملک ترقی کرے ۔
تحریر:کاشف سلیمان
نوٹ: لکھاری کی رائے اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے نئی بات میڈیا گروپ کا متفق ہونا ضروری نہیں!
تبصرے بند ہیں.