”پامی“ کا چارٹر آف ڈیمانڈز

167

محفل یاراں میں پاکستان ایسوسی ایشن آف میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے جو ملک کے اندر اور چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایک سو بہتر میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی نمائندہ تنظیم ہے…… منتخب صدر اور نجی تعلیم کے شعبے میں نت نئی پیش رفت اور کامیابیاں دکھانے والے چودھری عبدالرحمن کی تازہ پریس کانفرنس زیربحث تھی…… ایک جہاں دیدہ شخصیت نے سوال اٹھایا چودھری عبدالرحمن کو جو پاکستان میڈیکل کونسل کے کرتا دھرتا علی عبداللہ پر یہ اعتراض ہے وہ وکیل ہونے کے ناطے اعلیٰ درجے کی میڈیکل تعلیم کے بارے میں کیسے فیصلہ سازی کر سکتے ہیں مگر چودھری عبدالرحمن بھی تو شعبہ طب کے تعلیم یافتہ اور کسی سند کے مالک نہیں …… انہیں ایک وکیل کے میڈیکل کونسل کا سربراہ ہونے پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے…… میں نے جواب میں عرض کیا چودھری عبدالرحمن نے اپنے کیریئر کا تمام عرصہ نجی شعبے میں اعلیٰ درجے کی تعلیم کو فروغ دینے میں گزارا ہے خواہ بزنس ایڈمنسٹریشن ہو، انجینئرنگ کا میدان یا میڈیکل اور ڈینٹل کے اداروں کو نہایت درجہ کامیابی سے چلانے اور اعلیٰ مہارت کے مالک ڈاکٹروں کو ان کی پیشہ وارانہ تعلیم سے آراستہ کرنے کا معاملہ ہو…… ایک مانے ہوئے ماہر تعلیم کی حیثیت سے انہوں نے نجی تعلیم کے ان تمام میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے…… اسی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں ملک بھر سے تعلق رکھنے والے نجی شعبے کے ایک سو بہتر میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کی نمائندہ تنظیم کا باقاعدہ صدر منتخب کیا گیا ہے…… انہوں نے صرف کالج نہیں کھولے ان سے متصل محمد اکرم چودھری میڈیکل اور عذرا ناہید ڈینٹل کالج کے ناموں سے دو اعلیٰ درجے کے ہسپتال بھی چلا رہے ہیں یوں پوری کی پوری میڈیکل اور ڈینٹل تعلیم کو درپیش مسائل ان کی گرفت میں ہیں …… اپنی اس مہارت، تجربے اور کارکردگی کی بنا پر وہ بجاطور پر اس کا استحقاق رکھتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیکل اور ڈینٹل تعلیم کو درپیش مسائل اور کچھ نااہل سرکاری افسروں کے پیداکردہ چیلنج سے نبردآزما ہونے کے مسئلے کو قوم کے سامنے اٹھائیں، ان کا بہتر اوہر قابل عمل حل پیش کریں تاکہ اس شعبے کو کچھ بدخود غلط افسروں کے تحکم اور آنکھیں بند کر کے فیصلے مسلط کرنے والے نااہل افسروں کی دست برد سے بچا کر نئی نسل کے ان ذہین طالب علموں کے مستقبل کو بچایا جائے جو نجی شعبے میں ڈاکٹری اور ڈینٹل تعلیم کی پیشہ وارانہ ڈگریاں حاصل کر کے اپنا مستقبل سنوارنے کے ساتھ قوم و ملک کی بھی خدمت کرنا چاہتے ہیں …… اس حقیقت سے پاکستان کا کون سا پڑھا لکھا شخص واقف نہیں کہ صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی اور ڈاکٹرز کی کمی کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 192 ممالک میں سے 165 ویں نمبر پر ہے…… یہی سبب ہے دیہات اور قصبات نہیں ہمارے چھوٹے درجے کے شہروں کا باسی بھی اپنی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے تعلیم یافتہ اور تربیت شدہ ڈاکٹر کی براہ راست خدمات سے محروم ہے…… اب اگر اس شعبے میں تعلیم کو فروغ دینے کی رہی سہی پیشہ وارانہ سہولتوں کے فروغ پر مزید اور ناقابل عمل شرائط عائد کر دی گئیں، بے معنی قدغنیں لگا دی گئیں جن کا دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تو ہم اپنے ارباب بست و کشاد سے آنے والی نسلوں کے لیے کس قسم کے بہتر مستقبل کی توقعات وابستہ کر سکتے ہیں لہٰذا اس حوالے سے چودھری عبدالرحمن کی تفصیلی پریس کانفرنس کے مندرجات اور اس کے معاً بعد پرائیویٹ میڈیکل شعبے کی نمائندہ تنظیم ’پامی‘ کا جاری کردہ وائٹ پیپر اس کا استحقاق رکھتا ہے کہ حکومت کے اندر فیصلہ سازی کے مالک افراد خاص طور پر وزیراعظم پاکستان ان کے مشیر برائے طبی امور ڈاکٹر فیصل سلطان اور ان سے بھی بڑھ کر محترم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی جو ماشاء اللہ پیسے کے لحاظ سے ڈینٹل ڈاکٹر ہیں اور ان امور پر براہ راست نگاہ رکھتے ہیں …… ان کے اپنے صوبے سندھ اور کراچی میں پی ایم سی کے علی عبداللہ صاحب کی مسلط کردہ تازہ شرائط اور قدغنوں کی وجہ سے نجی شعبے کے اکثر میڈیکل اور ڈینٹل کالج کام کرنے کے قابل نہیں اس جانب پوری طرح متوجہ ہوں ……
چودھری عبدالرحمن کا یہ مطالبہ حددرجہ معقولیت پر مبنی ہے کم از کم ہمارے نمائندہ وفد کو بلا کر ہمارے نقطہ نظر سے براہ راست واقفیت تو حاصل کر لی جائے ہمارے چارٹر آف ڈیمانڈ پر غور کیا جائے…… اس کے بعد ایسی پالیسی تشکیل دی جائے جو میرٹ کے تقاضوں پر بھی بطریق احسن پوری اترتی ہو اور نجی شعبے کے اندر میڈیکل تعلیم کی حوصلہ افزائی کا بھی باعث ہو…… یوں پاکستان کے اندر ایسے ڈاکٹروں اور ڈینٹل تعلیم کے ماہرین کو Produce کرنے میں فی الواقع مددگار ثابت ہوا جائے جو نہ صرف اندر ملک کی ضروریات پوری کر سکیں بلکہ دنیا میں بھی اپنی مہارت کی بنا پر قابلیت کے جوہر دکھا سکیں …… امر واقعہ یہ ہے پاکستان کے کل میڈیکل کالجز کی 65 فیصد کھپت نجی شعبہ پوری کر رہا ہے (دوسرے الفاظ میں 173 میں سے 114 پرائیویٹ اور 59 پبلک سیکٹر میڈیکل کالجز) پرائیویٹ کالجز میں طلبہ کی تعداد 10300 ہے اور ہر سال فارغ التحصیل میڈیکل ڈاکٹرز کا 60 سے 70 فیصد بھی اسی شعبے سے ڈگریاں حاصل کرنے والے طلبہ ملک کے اندر پائے جانے والے میڈیکل خدمات کے ایک بڑے خلا کو پورا کر رہے ہیں …… اب اگر آپ ان پر میرٹ کے نام پر ناقابل عمل شرائط عائد کر دیں گے تو یہ میدان ویران ہو کر رہ جائے گا…… ان کالجز میں ہمیشہ صرف ان طلبہ و طالبات کو داخلہ ملتا ہے جو ایف ایس سی کے سرکاری امتحانات میں 65 فیصد نمبر حاصل کرتے ہیں …… یہ وہ کم از کم معیار ہے جسے پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے…… اب اگر آپ اس پر پورا اترنے والے ایف ایس سی پاس طلباء پر بھی MDCAT کے سکور کی قدغن لگا دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے میٹرک کے بعد ایف ایس سی کے سالانہ امتحان میں 65 فیصد نمبر حاصل کرنے کی جو کامیابی ان طالبوں نے حاصل کی وہ رائیگاں گئی صرف MDCAT کا سکور حاصل کرنا ضروری ٹھہرا یہ بجائے خود غیرتعلیمی اور غیرمنطقی اپروچ ہے…… اس سے میرٹ کا گلا گھونٹ کر رکھ دینے کا دروازہ کھلتا ہے نہ کہ اس کی حوصلہ افزائی…… مزیدبرآں آپ نے یہ کام دکھایا ہے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے لیے داخلہ ٹیسٹ ایک ساتھ رکھے ہیں حالانکہ کئی دہائیوں سے دستور چلا آ رہا ہے پہلے میڈیکل کالجز کے ٹیسٹ اور داخلہ ہوتا ہے اس کے بعد ڈینٹل کالج کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں کیونکہ اکثروپیشتر طلبا کی پہلی ترجیح میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے اس میں اگر کامیابی نہ ہو تو وہ ڈینٹل کالج کا رخ کرتے ہیں یہ ایک باسہولت طریق کار ہے جس کے دروازے معلوم نہیں کس پیشہ وارانہ تقاضے کے تحت طلباء پر بند کیے جا رہے ہیں ……
ان حالات میں لازم ہو گیا ہے جیسا کہ ’پامی‘ کے صدر چودھری عبدالرحمن نے اپنی پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا ہے حکومت اس سلسلے میں اعلیٰ سطح کی بااختیار کمیٹی کی تشکیل دے جس میں وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور میڈیکل شعبے سے تعلق رکھنے والے دوسرے عمائدین شریک ہوں …… ’پامی‘ کا نمائندہ وفد ان کے سامنے پیش ہو کر اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پوری شرح و بسط کے ساتھ رکھے…… اس کے ساتھ حکومتی ارکان کے نقطہ نظر پر بھی غور کیا جائے جس کے نتیجے میں پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے لیے ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور جس پر الفاظ اور روح کے ساتھ عملدرآمد کر کے اس ضروری اور ملک کے اندر صحت عامہ کو فروغ دینے والے شعبے کو اپنی کارکردگی دکھانے اور میرٹ کو صحیح معنوں میں بروئے کار لانے میں مدد فراہم کی جائے…… وہ چارٹر آف ڈیمانڈ درج ذیل ہے……
(1) کسی بھی آزاد اور خودمختار ایجنسی سے HR اور فنانشل آڈٹ کروا کر PMC میں موجود نااہل اور ناتجربہ کار لوگوں کو فارغ کر کے، تجربہ کار، اہل اور سلیکٹڈ لوگوں کو شامل کیا جائے……
(2) ایڈمیشن ریگولیشن 2021 PMC کے اپنے ہی ایکٹ میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں دی جانے والی آزادی کے سراسر منافی ہے اس لیے اس ریگولیشن کو فوری طور پر معطل کیا جائے……
(3) چونکہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلوں کے لئے ایف ایس سی میں پہلے سے 65 فیصد کی شرط موجود ہے لہٰذا گزشتہ سالوں کی طرح MDCAT کے نمبر کو محض میرٹ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے اور اس کی PASS PERCENTAGE مقرر نہ کی جائے……
(4) تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیے بغیر اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر اس سال زبردستی NLE کا امتحان لینے کا ارادہ ملتوی کیا جائے……
(5) CPFP چونکہ ایک خودمختار ادارہ ہے لہٰذا اس کے اختیارات میں مداخلت فوری بند کی جائے……
(6) مشاورت اور معقول وقت دیے جانے کے بغیر اور چند مخصوص دوستوں کو نوازنے کی خاطر کوئی بھی انسپکشن پروفارما نافذ نہ کیا جائے……
(7) کوئی بھی قومی ایجنڈا متعلقہ افراد کو شامل کیے بغیر پورا کرنا محض دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں …… لہٰذا تمام میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے مالکان کو جنہوں نے اپنے ملک و قوم کی خاطر اربوں کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، کو طلب کر کے شعبے میں معیار بلند کرنے کے لیے پارٹنر سمجھا جائے اور انہیں کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے مشاورت میں شامل کیا جائے……
(8) تمام نئے ممبران کا انتخاب فیڈرل گورنمنٹ ریگولیشن جون 2021 کے تحت بذریعہ اشتہار کیا جائے…… سیکرٹری PMC یومیہ کارروائی کا جائزہ لیں اور تاوقتیکہ سرچ کمیٹی اور محترم وزیراعظم کی جانب سے فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے…… اگر مندرجہ بالا مطالبات کو منظور کر کے میڈیکل اور ڈینٹل ایجوکیشن کا بروقت بچاؤ نہ کیا گیا تو ’پامی‘ اپنے دائرہ کار میں موجود تمام اختیارات کا استعمال کرنے کا مکمل مجاز ہو گا جس میں سلسلہ احتجاج اور سخت قانونی چارہ گوئی بھی شامل ہے……

تبصرے بند ہیں.