آرٹ ہمیشہ بھوک سے جنم لیتا ہے ۔۔۔آنے والا دور صرف ۔۔۔

279

بین الاقوامی شہرت یافتہ کارٹونسٹ ’’جاوید اقبال‘‘ سے اسد شہزاد کی ملاقات

انٹرویو: اسدشہزاد

لاہور شہر کے ہم سب قرض دار ہیں اور میں اس کا سب سے بڑا مقروض ہوں، لاہور بدل گیا، لوگ بدل گئے، لاہور کا ماحول بدل گیا، لاہور کی صبحیں اور شامیں بدل گئیں، مگر نہیں بدلا تو اندرون شہر نہیں بدلا۔ اس کی روایات نہیں بدلیں، دروازے نہیں بدلے، رسمیں نہیں بدلیں، تھڑوں میں ہونے والے فیصلے نہیں بدلے اور آج جب ترقی یافتہ لاہور کو دیکھتا ہوں تو وہاں ہمسائے کو نہیں پتہ کہ اس کے ساتھ رہنے والا کون ہے، میں تو کہتا ہوں کہ شہر میں جس کا ہمسایہ بھوک وننگ سے مر جائے اور اس کو خبر نہ ہو تو اس ہمسائے کو بھی پھانسی دے دی جائے۔

جاوید اقبال چند روز قبل میرے ساتھ محو گفتگو تھے ، وہ بتا رہے تھے کہ آرٹ ہمیشہ بھوک سے جنم لیتاہے اور آسودگی میں کبھی کوئی بُری تخلیق نہیں ہوتی۔ جاوید اقبال بتا رہے تھے کہ میرا کوئی گارڈ ہے اور نہ گھر میں چوکیدار، پرائیڈ آف پرفارمنس مل گیا، میرے نام سڑک کردی گئی، 47 سال میں عزت بہت کمائی ہے اور اسی عزت کے ساتھ جانا چاہتا ہوں کہ بعد میں کوئی مجھے گالی نہ دے۔

جاوید اقبال سے میرا تعلق گزشتہ 40 سالوں سے جڑا ہوا ہے، جب اسی شہر لاہور سے ’’دھنک‘‘ نکلا کرتا تھا جو سرور سکھیرا نکالا کرتے تھے۔ اس دھنک میں فوزیہ رفیق تھیں، ضیاء ساجد مرحوم تھے، حسن نثار تھے،سعیدہ ہاشمی تھیں اور یہی جاوید اقبال تھے۔ جاوید کے بارے میں میری ذاتی رائے بحیثیت انسان، بحیثیت دوست، بحیثیت قلمکار یہ ہے کہ جاوید کی زندگی کو کسی ایک باب میں نہیں رکھا جا سکتا، وہ ایک بے حد انوکھا بندہ، بہت منفرد، بڑے پختہ مزاج کا مالک، نہایت مخلص، وضع دار، ہر دم ہر پل چہرے پر مسکراہٹ لیے وہ نہ مشکل میں، نہ آسان، پرائیڈ آف پرفارمنس ملا پھر بھی دل میں تمنا نہیں، نہ سچ پر کبھی سمجھوتہ کیا۔

جاوید اقبال ہماری صحافتی تاریخ کا ایک ایسا نام ہیں جنہوں نے کارٹون کے ذریعے حکومتوں سے چھیڑ چھاڑ کی اور پھر مخالفوں نے بھی ان کو داد و تحسین دی اور اخباری تاریخ میں نئی روایات قائم کیں۔

جاوید جیسا کارٹونسٹ بنتا نہیں پیدا ہوتا ہے جس کو حالات نے تراشا، جس کا کوئی استاد نہیں، خود ہی سیکھا اور پھر خود ہی کو بلندیوں تک لے گیا، نامور لوگوں کی زندگیوں سے سیکھا، ان کو دیکھا اور وہی بنا دیا، یہی اس کا کمال ہے کہ وہ جاوید اقبال ہے۔

کسی کلی پہ بھولے سے بھی پائوں نہ رکھنے والے، نہ بڑے لوگوں کے چہروں میں رنگ بھرنے والے، ہر ایک کے دل میں اُترنے والے اور ہمیشہ یاری نبھانے والے جاوید اقبال سے ہم نے گزشتہ دنوں ایک تفصیلی ملاقات کی، جس کی روئیدار آپ ذیل کے کالموں میں پڑھتے چلیں۔

ٹیڑھی ترچھی لائنوں کے ذریعے پیغام دینا، کہیں سنجیدگی کہیں مزاح تو کہیں مثبت تنقید، آپ نے اپنے کارٹون کے ذریعے ہر پڑھی جانے والی، ڈسکس کی جانے والی خبر کو کارٹون کی شکل دی، یہ ایک آرٹ ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آرٹ اب آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے؟

آپ کا تاثر غلط ہے، انگلش اخبارات میں نمایاں جگہ ہی کارٹون کو دی جا رہی ہے اور وہ اردو اخبارات جن کی روایات میں کارٹون کی ایک اہمیت ہے وہ اس کو جگہ دے رہے ہیں۔ آپ کو یہ بھی علم ہو گا کہ اس وقت جتنی ایجنسیز کام کر رہی ہیں ان سب کی نگاہ دو اخبارات کی طرف زیادہ رہتی ہے اور انگلش اخبارات کی اردو کے مقابلے میں بہت کم اشاعت ہوتی ہے۔

ایک لحاظ سے آپ یہ بات درست کہہ سکتے ہیں کہ یہ ڈرائنگ آرٹ ہے، یہ اب ناپید ضرور ہو گیا ہے جب ہم سکول پڑھا کرتے تھے تو سکولز میں ایک ڈرائنگ ماسٹر ہوا کرتا تھا اور اس کی سُوجھ بُوجھ جو آپ کو سکولنگ دور میں آتی ہے کہ رنگوں سے کیسے کھیلنا ہے، یہ بات ساری عمر آپ کے ساتھ چلتی ہے اور ڈرائنگ واحد چیز ہے جو فوری طور پر سیکھی نہیں جا سکتی، اس بات کا اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ آج ہمارے ملک کی کُل آبادی 22کروڑ کے لگ بھگ ہے اور اس ملک میں بیس کارٹونسٹ نہیں ہیں، وجہ کیا ہے؟

دیکھیں یہ تخلیقی عمل ہوتا ہے۔ شاعر، ادیب، آرٹسٹ جو بھی ہے یہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جو کسی آرٹ کو، گیت کو، کتاب کو، رنگ کو یا کسی قدرتی چیز کو پینٹ کرتے ہیں تو پھر ایک نئی تخلیق اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ آرٹ آرٹسٹ کے بغیر ادھورا ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈرائنگ کو پینٹ کرنا لکیروں کے ذریعے چہرے بنانا اور ان کے ذریعے کارٹون تخلیق کرنا بھی ایک آرٹ ہے، یہ سیکھنے سکھانے کا عمل نہیں ہے، یہ انسان کے اندر کی سوچ ہوتی ہے جن کو وہ کاغذ پر بکھیرتا ہے۔ اب آپ کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ بھی ہیں جو یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹرز، انجینئر یا دوسرے شعبہ جات کے لوگ ہیں مگر آرٹسٹ نہیں نکلتے، یہ بہت مخصوص لوگ ہوتے ہیں اور قدرتی مشاہدے کی طاقت سے مالامال ہوتے ہیں۔

آپ مجھے بتایئے کہ آج صحافت میں کتنے بڑے بڑے نام ہیں مگر یہ لوگ یونیورسٹیوں کی پیداوار نہیں، حالات نے ان کو سکھایا، شوق ان کے تھے ذوق اخبار نے دے دیا، آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟ مگر آپ تو دھنک یونیورسٹی کی پیدوار ہیں؟

آپ کا کس سکول آف تھاٹ سے تعلق ہے؟

میرا کوئی سکول آف تھاٹ نہیں تھا، میرا اپنا ایک سکول ہے جس سے میں نے سیکھا۔ میں اپنے سکول کا خود ہی استاد تھا اور سٹوڈنٹ بھی، لہٰذا میں نے وہی کیا جو خود سے سیکھا، میرے پاس کئی نوجوان آئے ہیں کہ سیکھا دیں تو میری پہلی بات یہ ہے کہ اول تو میرا مزاج نہیں ہے کہ استادی شاگردی میں پڑوں، دوسرا آج کی نسل شارٹ کٹ کی عادی ہو چکی ہے، ایک دوسرے کے خلاف بدخوئیاں کرنا، مجھے اچھا نہیں لگتا۔ بات یہ ہے کہ ہم اب بدنیت ہوتے جا رہے ہیں، نہ کام کرنا ہے نہ کسی کو کرنے دینا ہے۔ اب ہماری سوسائٹی میں کیا رہ گیا ہے۔ غربت، جہالت اور حسد، ان تین چیزوں نے پوری سوسائٹی کو قید کررکھا ہے، کسی کا کام کرنے کو دل نہیں کرتا، یہاں ہر چیز اُلٹی ہے، میں یہاں ذکر کروں گا کہ اگر آپ قرآن پاک کو ہی سمجھ لیں تو اس سے اچھا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ اچھا معاشرہ آپ کو کہیں اور دکھائی دے گا اور اس مذہب کو مولوی نے بہت مشکل بنا دیا ہے اور بہتر فرقوں کی جو تقسیم کر دی گئی ہے کہ بندہ ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے وقت ڈرتا ہے۔ اگر کوئی چیز اپنے وجود میں نظر آئے گی تو وہ گیلی گرافی ہے، میں تو اپنے ملک کے آرٹسٹوں کو یہی پیغام دوں گا کہ کیلی گرافی ضرور سیکھیں۔

آرٹ کے راستے بھی تو بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں؟

یہاں ہر بندہ کوئی بھی نئی تخلیق کرتے وقت سوچتا ضرور ہے کہ یار یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے لہٰذا وہ سیلف سینسرشپ لگاکر کام کرتا ہے، میں جب کوئی بھی کارٹون بناتا ہوں تو میں نہیں سوچتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو گا،لگے گا بھی نہیں کہ نہیں، یہاں پر آپ کی سوچ پر پہرے لگ رہے ہیں اور آپ جو عمل دینا چاہتے ہیں وہ رُک جاتا ہے، اب اگر میرا کارٹون جس دن نہیں لگتا اس کے اگلے دو دن تک میں پٹڑی پر نہیں چڑھتا، مسلسل شائع ہوتے رہے تو اندر کا جوش بھی اس قدر ہی بڑھے گا جس دن میرا کارٹون نہیں لگتا اس دن کی صبح خراب ہو جاتی ہے، یہ ملک اس قدر خراب ہو چکا ہے اور یہاں میرا یہ بھی ایمان ہے کہ اگر کوئی بندہ ان کو ٹھیک کرنا چاہے تو ٹھیک کرسکتا ہے۔

کارٹون بناتے وقت آپ کبھی دبائو میں بھی آئے؟

گزشتہ 55 سالوں سے میرے اوپر کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا گیا۔ بعض اوقات بڑے خوفناک اور زبردست آئیڈیاز پر کارٹون بنے۔ سرور سکھیرا سے میر شکیل الرحمن تک نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ نہیں یا وہ نہیں۔بلکہ میں خود ان کو کہتا تھا کہ میں نے فلاں موضوع یا خبر پر کارٹون نہیں بنانا یعنی الٹا میرا دبائو ان لوگوں پر رہا ہے۔

رسپانس کب اچھا ملا؟

جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں پازیٹو کام کرتا ہوں، میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے۔ نیگیٹیو سینس میں کسی کا مذاق اُڑانا بہت آسان کام ہے لہٰذا میرا خیال ہے کہ آپ جس کا کارٹون بناتے ہیں اگر وہ بھی انجوائے کرے تو پھر بات اور بن جاتی ہے اور میری زندگی کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ میں جس کا کارٹون بنائوں وہ بھی انجوائے کرے، البتہ مجھے آج یہ بات بھی کہنے دیں کہ ہمارے ملک میں آج کوئی بھی چیز پازیٹو نہیں رہی۔

ایک دور ہوتا ہے جب آپ سیکھنے سکھانے کے عمل میں رہتے ہیں، 50سال کارٹون بنانے کے بعد آج اس کام کو آسان تصور کرتے ہیں یا آج بھی کسی خبر کی گہرائی میں اُتر کر کارٹون بناتے ہیں؟

’’ٹردے پھردے‘‘ کام کر گزرتا ہوں، پہلے بھی آسان تصور کرتا تھا، آج بھی اسی آسانی کے ساتھ کام ہورہا ہے۔ میرے بہترین کارٹون دہ ہیں جو میں نے بہت جلدی میں بنائے ہیں اور جن پر ذرا سنجیدگی کے ساتھ کام کیا وہ بہتر نہیں تھے۔

آپ کی کامیابی میں، شہرت میں روزنامہ جنگ کا کردار زیادہ ہے یا آپ اپنی محنت اورلگن کو اس بات کا کریڈٹ دیتے ہیں؟

میرے نزدیک ہنر آپ کا سٹرانگ ہو تو پھر کریڈٹ مل ہی جاتے ہیں۔ بے شک جنگ ایک بڑا ادارہ ہے وہ بھی وجہ شہرت بنا۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اصل آرٹ بھوک سے جنم لیتا ہے؟

آپ جس قدر خار ہوں گے رُل جائیں گے۔ مشقت کریں گے تو کام بہتر ہو گا، میں نے بہت سے تخلیق کاروں کو دیکھا ہے، ان کو بھوک نہیں لگتی، وہ سگریٹ اور چائے میں زندہ رہتے ہیں البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ آسودگی میں کبھی تخلیق نہیں ہوتی، اس سے سوسائٹی کے ساتھ آپ کا رابطہ کٹ جاتا ہے۔ میں یہاں اپنی مثال دوں گا کہ میرا ابتدائی دور بھی آرٹ کی بھوک سے منسلک رہا۔تاہم کارٹون بنتے رہے اور آج بھی کام کی بھوک ہے۔

آج کیا محسوس کرتے ہیں؟

الحمدللہ! آج میرے اوپر کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکتا۔ میرے خیال میں خدا تعالیٰ ہر بندے کو ایک دو چانس ضرور دیتا ہے، اگر آپ اس سے فائدہ نہ اُٹھا سکیں تو یہ آپ کی بدقسمتی، میں کوئی سرکاری مراعات یافتہ بندہ نہیں ہوں، ایک وزیراعظم نے مجھے خود بلایا، تین بار پوچھا کہ کوئی کام بتائو، میں نے تینوں بار انکار کیا، بڑا مشکل وزیراعظم تھا، انکار نہیں سنتا تھا، مجھے ایک دو پلاٹس کی آفر ہوئی، مگر نہ لیے۔ اب دیکھیں کہ پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل گیا ہے، سڑک میرے نام پر منسوب کردی گئی ہے، یعنی خدا تعالیٰ نے وہ سب کچھ عطا کررکھا ہے ،جو ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے رب کے آگے ہمیشہ دعاگو رہتا ہوں کہ وہ اور آسانیاں پیدا کرے اور یہ بھی خواہش ہے کہ جب یہاں سے اُٹھ کر جائوں تو میرے بعد میرے خلاف کوئی بات نہ کرے ،میں نے 47سال کشت کاٹی ہے کہ نام کو لاج نہیں لگنے دی، کوئی آواز نہیں آئی، کوئی سکینڈل نہیں بنا، کسی نے برے نام سے نہیں پکارا۔

کامیاب ہیں؟

کام سے کبھی زیادتی ہوئی؟

کام میری کمٹمنٹ تھی، میں ہمیشہ اپنے کام کے ساتھ مخلص رہا اور کبھی کسی کا مذاق نہیں اُڑایا، ادارے کے ساتھ بھی اپنی انا میں رہا کہ ادارے بعض اوقات آپ کو مس یوز کرتے ہیں اور وہ آپ کے تخلیقی کام کی بجائے نیگیٹیو کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔

کس شخصیت کا کارٹون بناتے وقت خاص خیال کرتے ہیں؟

محترمہ بینظیر بھٹو (مرحومہ) کے کارٹون بناتے وقت میں خاص خیال رکھا کرتا تھا کیونکہ وہ خاتون تھیں لہٰذا ان کی باڈی لینگوئج کا میں خاص خیال کرتا اور جو ان کے ادب آداب ہوتے تھے ان کے دوپٹے سے لے کر ان کے گھر میں ہونے کے انداز تک میں پوری توجہ دیتا۔

خوف کس سے ہے؟

خدا تعالیٰ کی ذات سے، میں نے اپنے ساتھ کوئی باڈی گارڈ نہیں رکھا۔میرے گھر کے دروازے پر کوئی چوکیدار نہیں، میں نے لوگوں کو عزت ہی دی ہے مگر کسی کادل نہیں دکھایا۔

ضیاء دور میں بہت سی بندشوں میں کام ہوا، آرٹ نکلا، کتاب آئی، ادب آیا، ناول آیا مگر جب آسودگی آئی، آزادی ملی تو اب سب کام رُک سے گئے ہیں؟

آگے کا کیا پروگرام ہے؟

اب زندگی کو انجوائے کر رہا ہوں، بہت کام کرلیا اور اب جو کر رہا ہوں وہ خود کومصروف کرنے کے لیے ہے۔ دیکھیں فن کی کافی رفتار ہے، وہ چلتا رہے گا ہم نے جتنا کام کرنا تھا وہ کرلیا ورنہ یہاں تو چار سال کے بعد بندے کی قدر کم کردی جاتی ہے۔ آج بھی کوئی کارٹون بناتا ہوں تو بڑے دل کیساتھ سوچ کے اور حالات کے مطابق چلتا ہوں۔

بہترین دور کون سا تھا جب بہت کام کیا؟

نوائے وقت اور دھنک کا وقت بہترین تھا، وہ وقت دوبارہ نہیں آ سکتا، یہ اس لیے بھی ہوا کہ اس وقت سوسائٹی آزاد تھی جس نے شراب پینی تھی وہ شراب پی رہا ہے جس نے کباب کھانے تھے وہ کباب کھا رہا ہے، اب لاہور میں خوف کا یہ عالم ہے کہ آپ کے قریب کوئی موٹرسائیکل آکر رُکتی ہے تو آپ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔

ہاں تبدیلی آئی ہے نہ اب سفر کرنے کو دل کرتا ہے، آگے دوسرے شہروںکو نکل جاتا تھا، سیالکوٹ سو کلومیٹر پر ہے تو سو بہانے کر کے سو میل کا سفر طے نہیں کر پاتا یہ تبدیلی ہے اور سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب تو عورتیں بھی اچھی نہیں لگتیں۔ میری اب عمر 65 سال ہے اور پاکستان میں سرکاری ریٹائرمنٹ 60 سال میں ہو جاتی ہے۔ ضروری بات یہ کہوں گا کہ جب آپ کو شہرت ملتی ہے تو پھر بہت سے رشتوں میں فاصلے اور احترام بڑھ جاتا ہے۔ خود کو محدود کرنا پڑتا ہے، بہت سی محفلوں میں کہا جاتا ہے کہ میں آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تو میں کہتا ہوںکہ اس لیے میں نہیں دیکھتا کہ کوئی نہ کوئی پرانی واقف نہ نکل آئے۔

یہ جو ہنر ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی خاص عنایت ہوتی ہے، اس ہنر کو پرکھنے میں اپنی ذات نہیں ہوتی بلکہ کوئی نہ کوئی وسیلہ خدا تعالیٰ دیتا ہے اور اعتماد بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ نے جب آپ سے کام لینا ہوتا ہے تو پھر وہ خود ہی تمام راستے آسان کر دیتا ہے۔

لاہور جتنا بڑا شہر ہے اس کا دل بھی اتنا ہی بڑا ہے۔ میں آدھی دُنیا گھوم چکا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ لہور لہور اے … گو وقت بدل گیا ہے، حالات بدل گئے، لوگ بدل گئے مگر نہیں بدلا تو اندرون شہر نہیں بدلا … یوں لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے وہی دروازے وہی تھڑے، وہی تھڑوں پر تاش بازی، وہی گلیاں، وہی چوبارے، وہی عید کا چاند دیکھنا بزرگوںکا وہی احترام ہے۔ اب ادھر جدید لاہور کو دیکھتے ہیں تو یہاں ہمسائے کو علم نہیں کہ اس کا ہمسایہ کون ہے، بھوکا ہے، پریشان ہے،کوئی خبر نہیں، میں لاہور کا مقروض ہوں اس کے لیے سب کو کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔

٭…٭…٭

تبصرے بند ہیں.