گوگل نے آسٹریلیا کو دھمکی دیدی

192

دانش خان

نئے مجوزہ قانون کے مطابق گوگل اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو میڈیا اداروں کو ان کے نیوز مواد کے لیے ادائیگی کرنی ہوگی مگر کمپنیوں کا خیال ہے کہ نیوز ویب سائٹس پہلے ہی ان سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ آسٹریلیا کی جانب سے گوگل کو نیوز پبلشرز کو ادائیگی کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کے بعد گوگل نے دھمکی دی ہے کہ وہ آسٹریلیا سے اپنا سرچ انجن ہٹا لے گا۔

یاد رہے کہ آسٹریلیا ایک تاریخی قانون متعارف کروا رہا ہے جس کے تحت گوگل، فیس بک اور ممکنہ طور پر دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو میڈیا اداروں کو ان کے نیوز مواد کے لیے ادائیگی کرنی ہوگی۔

مگر امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں اس قانون کی مزاحمت کر رہی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ قوانین انتہائی سخت ہیں اور ان سے مقامی لوگوں کی رسائی میں مشکل پیدا ہوگی۔

اس مجوزہ قانون کے تحت گوگل اور فیس بک اگر نیوز پبلشرز کے ساتھ ان کے مواد کی قدر کے بارے میں اتفاق نہیں کر پاتے تو وہ ایک ثالث کی موجودگی میں ان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر پابند ہوں گے۔ گوگل آسٹریلیا کی مینیجنگ ڈائریکٹر میل سِلوا نے ملکی سینیٹ کے سامنے ایک پیشی میں بتایا کہ یہ قوانین ناقابلِ عمل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہ تجاویز قانون بن جاتی ہیں تو اس کے بعد ہمارے پاس گوگل سرچ کو آسٹریلیا میں عدم دستیاب کرنے کے علاوہ اور کوئی حقیقی چارہ نہیں رہے گا۔

آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم سکاٹ موریسن نے کہا ہے کہ قانون ساز دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ سکاٹ موریسن نے کہا کہ ان کی حکومت رواں سال ان قوانین کی پارلیمان سے منظوری کے لیے پرعزم ہے۔ اس وقت حکومت کو اس حوالے سے وسیع تر سیاسی حمایت حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں: آسٹریلیا میں آپ کیا کر سکتے ہیں، یہ قوانین آسٹریلیا بناتا ہے۔ یہ کام ہماری پارلیمان میں ہوتا ہے۔ اور جو لوگ اس طرح کام کرنا چاہتے ہیں ہم ان کو خوش آمدید کہتے ہیں، مگر ہم دھمکیوں پر توجہ نہیں دیتے۔ قانون سازوں نے گوگل کے الٹی میٹم کو بلیک میل اور بڑی کارپوریشنز کی جانب سے جمہوریت کو ہراساں کرنا قرار دیا۔

گوگل نے آسٹریلیا کے نئے مجوزہ قانون کے بارے میں اپنے براؤزر میں اشتہارات چلائے ہیں۔گوگل سرچ آسٹریلیا میں سب سے غالب سرچ انجن ہے اور حکومت نے اسے تقریباً بنیادی ضرورت قرار دیا ہے جسے مارکیٹ میں کم ہی مقابلے کا سامنا ہے۔ حکومت کی دلیل ہے کہ چونکہ ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز خبریں پڑھنے کے خواہشمند لوگوں سے منافع کماتے ہیں اس لیے انھیں نیوز رومز کو ان کی صحافت کے لیے ایک منصفانہ رقم دینی چاہیے۔اس کے علاوہ حکومت کا کہنا ہے کہ مشکلات کی شکار نیوز انڈسٹری کے لیے بھی مالی مدد کی ضرورت ہے کیونکہ ایک مضبوط میڈیا جمہوریت کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

حکومت کے مطابق آسٹریلیا کے پرنٹ میڈیا کے منافعوں میں سنہ 2005 سے اب تک 75 فیصد کمی ہوئی ہے۔ کئی آسٹریلین خبر رساں ادارے حالیہ برسوں میں یا بند ہوگئے ہیں یا انھوں نے اپنی افرادی قوت میں کمی کر دی ہے۔گوگل کی جانب سے اپنی بنیادی پراڈکٹ کو ہٹانے کی دھمکی اب تک کی سخت ترین دھمکی ہے، جبکہ دیگر اقوام اس پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ امریکی تجارتی نمائندوں نے آسٹریلیا پر زور دیا کہ وہ ان قوانین سے دستبردار ہوجائے۔ ان کے مطابق قانون سازی کی یہ کوشش ‘دو امریکی کمپنیوں کو واضح نقصان پہنچائے گی۔’

گوگل کی ترجمان میل سلوا کا کہنا ہے کہ قوانین کے تحت اگر کمپنی کو لنکس اور سرچ نتائج کے لیے ادائیگی کرنی پڑی تو اس سے ‘ان کے کاروبار اور ڈیجیٹل معیشت کے لیے ایسی مثال قائم ہوجائے گی جس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔’اْن کا کہنا تھا کہ یہ مجوزہ قانون آن لائن انفارمیشن کے آزادانہ تبادلے یا ‘انٹرنیٹ کے کام کرنے’ کے طریقے سے مطابق نہیں رکھتا۔ گوگل کو یہ خدشہ ہے کہ یہ قانون دوسرے ممالک میں بھی نافذ ہوا تو ان کا کاروباری ماڈل متاثر ہوجائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہمیں مالیاتی اور انتظامی خطرات کو دیکھتے ہوئے کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ ہم کیسے آسٹریلیا میں خدمات کی فراہمی جاری رکھ سکتے ہیں۔’

ادھر گذشتہ ہفتے گوگل نے تصدیق کی تھی کہ وہ اپنے تقریباً ایک فیصد صارفین کے لیے آسٹریلین نیوز ویب سائٹس کو بلاک کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ تجربہ آسٹریلین نیوز سروسز کی قدر کو پرکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ سال فیس بک نے بھی دھمکی دی تھی کہ اگر یہ قانون آگے بڑھا تو وہ آسٹریلین صارفین کو اپنے پلیٹ فارم پر خبریں شیئر کرنے سے روک دیں گے۔ سوشل میڈیا کمپنی نے جمعے کو یہ مؤقف دوبارہ دہرایا۔ فیس بک کے ایگزیکٹیو سائمن ملنر نے سینیٹ کو بتایا کہ یہ ‘ممکنہ طور پر یہ بدترین نتیجہ’ ہوگا۔انھوں نے کہا کہ فیس بک کو اپنے پلیٹ فارم پر موجود خبروں سے تقریباً صفر کمرشل فائدہ ہوتا ہے۔

گوگل اور فیس بک دونوں نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا ہے کہ نیوز ادارے پہلے ہی ان پلیٹ فارمز کے ذریعے صارفین کو اپنی ویب سائٹس تک لا کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں.