انٹرویو : عارف حنیف کمبوہ
’’ کہتے ہیں وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ‘‘
گھر کی دہلیز سے لیکر دنیا کی راج دہانیوں تک ، مہد سے لحد تک جرات و شجاعت کی لا تعداد داستانیں رقم ہوئیں ، یہ داستانیں کبھی مردوں اور کبھی خواتین کے گرد گھومتی ہیں ، خاتون کا معاشرے میں کام اور مقام کسی طور بھی کم تر نہیں ، آج بھی ہمیں ہر شعبہ زندگی میں نمایاں کارکردگی دکھانے والی خواتین دکھائی دیتی ہیں ، ایسی ہی خواتین میں سیاسی ، سماجی و مذہبی جماعت کی خواتین عہدیداران بھی شامل ہیں جو کہ خواتین کے حقوق کیلئے آواز بلند اور ملکی سیاست کے میدان میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں ، آج کے دور میں ایک نظر اپنے معاشرے پر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جدید دور حاضر میں بھی وطن عزیز میں خواتین کو قدم قدم پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے ، وہ شہر میں رہتی ہوں یا کسی دور دراز علاقے میں، ان کے مسائل میں کمی کی بجائے دن بدن اضافے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے ، نت نئے مسائل اور ان میں اضافے کے بعد اٹھنے والی آواز کے نتیجے میں ملکی قوانین کو کسی حد تک بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ، سزائیں سخت کی گئیں ، نئے ادارے بھی بنائے گئے مگر اس کے باوجود یہ کہنا کہ عورت محفوظ ہے کسی صورت بھی درست نہیں ، خواتین کے مسائل چاہے گھریلو سطح کے ہوں یا معاشرتی ، سماجی مسائل ہوں یا معاشی، دعوت دین ہو یا خدمت خلق ، سیاسی ، سماجی و مذہبی جماعتوں کی خواتین نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی جو اس وقت بھی ملک میں خاندان کے استحکام اور اسکی شکست و ریخت کو بچانے کیلئے مہم چلائے ہوئے ہیں ۔
مودی سرکار کا فاشسٹ، گھناؤنا اور سفاک چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب
گزشتہ روز ’’ نئی بات ‘‘ نے سیاسی ، سماجی و مذہبی جماعتوں کی خواتین دردانہ صدیقی، عائشہ سید، سکینہ شاہد ، ڈاکٹر رخسانہ جبیں، ثمینہ احسان، نائلہ سید و عظمیٰ نوید ، شبانہ ایاز، روبی طارق ، عطیہ ظفر اور رخسانہ کوثر سے خصوصی نشست کی جس میں ’’ مضبوط خاندان، محفوظ عورت، مستحکم معاشرہ ‘‘ خواتین کو درپیش مسائل اور خواتین کے کردار پر سیر حاصل گفتگو کی گئی جو کہ قارئین کرام کی نظر ہے ۔ِِِِِِِِِِ
آخری دائو
نئی بات : آج کے جدید دور حاضر میں خاندانی نظام کو کس نگاہ سے دیکھتی ہیں ۔۔۔؟
دردانہ صدیقی : موجودہ دور میں خاندان اور عورت ایک بڑی تبدیلی کی زد میں ہے، خاندانی نظام بری طرح سے شکست و ریخت کا شکار ہورہا ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں طلاقوں کی شرح میں 60 فیصد اضافہ لمحہ فکریہ ہے ، سن 2000 سے قبل دنیا کے اسلامی ممالک بشمول پاکستان میں طلاق کی شرح امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی مگر بدقسمتی سے مسلم ممالک میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ، پاکستان میں فیملی کورٹ ایکٹ 2015 میں منظور ہوا تھا جس کے سیکشن 10 کی دفعہ 6 کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کر دیا گیا جو کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے ، گزشتہ برسوں کے مقابلے میں سال 2020 میں اعلیٰ تعلیم یافتہ و ملازمت پیشہ خواتین میں طلاق و خلع لینے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھا، خود کمانے اور خود کفیل ہونے کا گھمنڈ ، معاشرتی بے راہ روی نے خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ، پاکستان میں مصالحتی کونسلوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی شرح طلاق میں اضافہ ہورہا ہے، قاضی اور منصفین کی ذمہ داری ہے کہ ان کے پاس آنے والے میاں بیوی کے جھگڑوں میں صلح صفائی کروائیں تاکہ طلاق کے خدشات زائل ہوں اور طرفین کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔
ہر لمحے بد لتی سیا سی صو رتِ حا ل
نئی بات : میاں بیوی کی کیا ذمہ داریاں ، دین سے دوری کی کیا وجوہات اور معاشرے میں بڑھتے طلاق کے رجحان کی کیا وجوہات ہیں ۔۔۔۔؟
عائشہ سید : نکاح انسانیت کی بقا کیلئے ایک مضبوط شرعی معاہدہ ہے، اسلامی تہذیب و ثقافت کے رنگ تو یہ ہیں کہ مرد اور عورت اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں ، مرد معاش کی فکر کرے جبکہ بیوی شوہر کی خدمت، گھر کے مال و متاع کی حفاظت، نیز بچوں کی پرورش اور تربیت کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھے لیکن جب دین سے دوری، حقوق و فرائض سے غفلت، اپنی تہذیب و ثقافت سے دوری، فلموں، ڈراموں اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید، موبائل فون، انٹرنیٹ، سماجی روابط کے ذرائع نے شہوانی جذبات اور ہوس کو اس حد تک ابھارا کہ ان جذبات کی تکمیل کیلئے نہ حلال دیکھا جاتا ہے نہ حرام ، اپنے سفلی جذبات کی ادائیگی کیلئے ہر حد پھلانگ لی جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں طلاق سماجی مسئلہ بن چکی ہے جوکہ ہمارے معاشرے میں موجود خاندانی نظام کو جڑوں سے کھوکھلا کر رہی ہے ۔
انسان ایلین ہے؟
نئی بات : آج کل کے ٹی وی ڈراموں کے معاشرے پر کیا اثرات ہیں ۔۔۔ ؟
سکینہ شاہد : آج کل کے ڈراموں میں طلاق اہم موضوع ہے مگر افسوس کہ ان ڈراموں میں طلاق سے بچنے سے زیادہ فوکس ، طلاقیں کرنے یا کروانے پر ہے، گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کی بجائے طلاق کیلئے ماحول سازگار بنانے کی نئی تراکیب متعارف کروائی جا رہی ہیں ، اس حوالے سے میڈیا کو بھی اپنی روش درست کرنا ہو گی ، کچھ اقدامات حکومتی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے ، اس میں سب سے بڑی کوشش آگاہی دینے کی ہونی چاہئے ، حکومت کو چاہئیے کہ اسلامی احکامات اور معاشرتی سکون کو بنیاد بنا کر لوگوں میں طلاق کے خلاف آگاہی پیدا کرے ، ذرائع ابلاغ کو اس مسئلے سے نجات کیلئے موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔
کشمیریوں کی نسل کشی
نئی بات : کیا آپ کی جماعت خاندان کے استحکام اور خواتین کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے ۔۔۔؟
ثمینہ احسان : جماعت اسلامی نے پاکستانی معاشرے کو بچانے اور قرآن وسنت کے اصولوں پر ڈھالنے کیلئے بھرپور مہم منانے کا اعادہ کیا ، خاندان کے استحکام ، خواتین کے تحفظ اور نسلوں کی تعمیر کیلئے مضبوط خاندان، محفوظ عورت اور مستحکم معاشرہ کے عنوان سے 10 مارچ تک مہم منانے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت تمام صوبوں کے اضلاع میں سیمینارز ، کانفرنسز، مشاورتی فورمز کا انعقاد
کیا جائے گا ۔
شہباز شریف ضمانت پر رہا
نئی بات : مضبوط خاندان، محفوظ عورت، مستحکم معاشرہ مہم کے مقاصد کیا ہیں ۔۔۔۔ ؟
رخسانہ جبیں : جی مہم کے مقاصد معاشرے میں استحکام خاندان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ، اللہ کے نزدیک طلاق کی ناپسندیدگی واضح کرکے بڑھتی ہوئی شرح طلاق کو کم کرنا ، مرد و عورتوں کو ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور رہنمائی کرنا، معاشرے میں تکریم نسواں کا شعور بیدار کرنا ، عورت پر ہونے والے ظلم کیخلاف آواز اٹھانا، داد رسی کرنا ، نکاح اور خاندان سازی کو ایک خوشگوار فریضہ کے طور پر متعارف کروانا ، نوجوانوں کی فکری اور عملی تربیت کرنا ہے۔
حکومت نے پاکستان میں سوشل میڈیا پر پابندی لگادی
نئی بات : کیا جماعت خواتین کے معاشی، قانونی، طبی حقوق اور تحفظ کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے ۔۔۔؟
نائلہ سید : جی ہاں ،، جماعت اسلامی کی خواتین، عورت کی تکریم، خاندان کے استحکام، ماں کے کردار، اولاد کی تربیت کی جدوجہد ، معاشرے میں خواتین کے حقیقی مقام کی بحالی کی کوششیں ، عورت کی حیثیت ، حقوق کو متاثر کرنے والے غیر اسلامی رسم و رواج کے خاتمے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں بلکہ خواتین کی تعلیم، حق ملکیت ،کفالت اور وراثت جیسے حقوق کیلئے تحقیق و تجزیہ اور سفارشات بھی تیار کر رہی ہیں جبکہ خواتین کے سیاسی، سماجی، معاشی، قانونی، طبی حقوق اور تحفظ کیلئے مصروف عمل ہیں ۔
گورنر پنجاب سے عاصم سلیم باجوہ کی ملاقات، سی پیک کے منصوبوں پر گفتگو
نئی بات : کیا آپ پسماندہ علاقوں میں خواتین کیلئے کچھ کر رہی ہیں۔۔۔ ؟
عظمیٰ نوید : جماعت اسلامی کی خواتین کا فلاحی سرگرمیوں میں اہم کردار ہے ، عورت ہمارے معاشرے کا اہم جزو ہے جس کے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کی جا سکتیں ، پاکستان میں جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا ملک گیر ہمہ جہت کام 80 برس کی سنہری تاریخ رکھتا ہے ، ان رضاکار خواتین نے نہ صرف دعوتِ دین کا دائرہ ملک بھر میں پھیلایا بلکہ ملک و قوم پر آنے والے ہر مشکل وقت میں حکومتی اداروں کیساتھ ملکر اپنا بے لوث کردار ادا کیا ، جماعت اسلامی سے منسلک خواتین نے ہمیشہ قدرتی آفات، جنگوں اور سانحات کی صورت میں بروقت پہنچ کر مصیبت زدہ عورتوں بچوں کی مدد کی ، آج وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کیساتھ جماعت اسلامی کے تحت خواتین کی فلاح کا پروگرام ہمہ پہلو اور ہمہ گیر ہو چکا ہے، اس وقت خواتین میں رفاہی کام کا ملک میں سب سے بڑا نیٹ ورک جماعت اسلامی کے تحت کر رہا ہے ، پسماندہ علاقوں میں خواتین کو صحت کی سہولیات دینے کیلئے فری میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں، اس کیساتھ ان کو حفظانِ صحت، تربیت اولاد اور بہتر خاندان کی آگاہی دی جاتی ہے ، دعوتِ دین، اصلاح ِمعاشرہ، رفاہِ عامہ اور آگاہی کا یہ جامع پروگرام ملک کے چاروں صوبوں، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں تقریبا ہر شہر اور بیشتر دیہاتوں میں جاری ہے ۔
طالبان نے غیر ملکی افواج کو افغانستان نہ چھوڑنے پر بڑی دھمکی دیدی
نئی بات : سیاست کے ایوانوں میں خواتین کے کردار سے متعلق کیا کہیں گی۔۔۔؟
شبانہ ایاز : پارلیمانی سطح پر ہماری خواتین جب بھی ایوانوں میں موجود رہیں، انہوں نے عورت کی بہبود کیلئے قانون سازی کی، خواہ وہ جہیز کے خلاف بل کی منظوری ہو یا ملازمت کے اوقات کار میں کمی کا بل ہو یا چھوٹی بچیوں کیساتھ بد اخلاقی کرنے والوں کی سزا میں اضافہ کا بل ہو، لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مسائل کیلئے فورم کی تشکیل، وغیرہ اور اسی نوع کے مختلف بلز کی وجہ سے جماعت اسلامی کی خواتین کارکردگی کے لحاظ سے ٹاپ ٹین میں شمار ہوتی ہیں ۔
شہباز شریف کی رہائی آج بھی ممکن نہیں ہو سکے گی
نئی بات : کیا پاکستان میں ورکنگ خواتین کیلئے مناسب سہولیات ہیں یا فقدان ۔۔۔ ؟
شبانہ ایاز : عورت کا حق ہے کہ اس کی اور اس کے بچوں کی کفالت کی جائے اور اگر ضرورت پڑے تو اس کو باعزت روزگار کمانے کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں ، ہمارے ہاں ورکنگ خواتین کیلئے مناسب سہولتوں کا فقدان ہے ، بچے کی پیدائش اور پرورش کیلئے عورتوں کو جس طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے، ہمارے گائوں، دیہات اور کئی دور دراز علاقوں میں رہنے والی عورتیں اس سے محروم ہیں ، بحیثیت انسان ہم عورت اور مرد کی برابری پر یقین رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا پر مصنوعات بیچنے کیلئے عورت کی خوبصورتی کو استعمال کرنا بطور انسان عورت کی توہین ہے۔
ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ویرات کوہلی کی سرزنش
نئی بات : طلاق کے بڑھتے رحجان کی وجہ کیا ہے ؟ دین اسلام میں میاں بیوی کے حقوق اور طلاق سے متعلق کیا فرمایا گیا ہے ؟
رخسانہ کوثر : عام لوگوں میں برداشت کی کمی اور اپنی خواہشات کو سب سے مقدم سمجھنے کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، طلاق ایک ایسا وزنی فیصلہ ہے جس کے ذریعے مرد اپنی بیوی سے نکاح ختم کرتے ہوئے اس سے ازدواجی تعلق و رشتہ ختم کر دیتا ہے جبکہ نکاح انسانیت کی بقاء کیلئے ایک مضبوط شرعی معاہدہ سمجھا جاتا ہے، اسلام میں نکاح سے متعلق جو تعلیمات دی گئی ہیں اس میں مرد پر عورت کیلئے حق مہر، نان و نفقہ اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنا جبکہ عورت کیلئے پاک دامن ، نیک چلنی اور شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کو ترجیحی بنیادوں پر رکھا گیا ہے۔ اسلام میں نکاح جیسے پائیدار معاہدے کو بغیر کسی وجہ و ضرورت کے ختم کر دینا نہایت ناپسندیدہ عمل ہے ۔
تبصرے بند ہیں.