یوسف رضا گیلانی
میری ولادت 9جون 1952ء کو نانا مخدوم الملک سیّد غلام میراں شاہ کے گھر 314 لارنس روڈ کراچی میں ہوئی۔ نانا نے میرا نام میراں مصطفی رکھا۔ انہوں نے یہ نام رکھ کر مجھے یہ اعزاز بخشا کہ دو گھرانوں کے بزرگوں یعنی اپنے نام اور میرے دادا مخدوم غلام مصطفی شاہ کے نام کو میرے نام میں یکجا کردیا۔ والدین کے لیے میرا نام مخمصے کا باعث بن گیا کیونکہ ان دونوں کے والد کے نام میرے نام کا حصہ تھے۔ نانی محترمہ کے لیے دلچسپ پیچیدگی یہ تھی کہ مجھے پیار سے پکارتے ہوئے نانا کا نام لینے میں انہیں حیا آتی تھی لہٰذا انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ مجھے یوسف کی عرفیت عطا کردی۔ نانا کی جمال الدین ضلع رحیم یارخان میں اپنی اسٹیٹ (جاگیر) تھی جس کے دروازے رات کو بند کردیے جاتے تھے۔ ان کے اپنے باغات اور شکارگاہ تھی جہاں وہ مہمانوں کو شکار کھیلنے کے لیے لے جاتے تھے۔ وہاں اُن کی ایک بڑی حویلی (Mansion) بھی تھی جو انہوں نے 1928ء میں تعمیر کروائی تھی اور اُس زمانے میں وہاں بجلی کا بھی انتظام کررکھا تھا۔ یہ حویلی آج بھی موجود ہے جس سے ہماری بہت سی پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ بچپن میں ہم خوشی کے موقعوں پر علاقائی زبان میں نانا کے قصیدے سنتے تھے۔ چند بول یاد ہیں جو کچھ یوں تھے:
؎ چٹا پھل غلاب دا
میراں سائیں دے باغ دا
عورتیں کورس میں گاتی تھیں۔ وہ بھی کیا دن اور رونقیں تھیں، جن کی یادیں آج بھی دل کو تازگی وسکون بخشتی ہیں۔ نانا لجپال تھے، اُن کی بدولت بے شمار زندگیاں سدھرتی اور بنتی گئیں۔
نانا نے میرے لیے آیا کا انتظام بھی کیا جس کا نام چاندتھا۔ اُن کا بیٹا یوسف کم عمری ہی میں فوت ہو گیا جسے وہ پیار سے عیصُب بلاتی تھیں۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ انہوں نے میری پرورش کے بعد ماموں سیّد اقبال محمود اور غلام مخدوم زادہ حسن محمود کی بیٹی سہیلہ محمود کی بھی پرورش کی۔ وہ نہایت وضع دار اور خوش لباس خاتون تھیں اور اکثر ساڑھی پہنا کرتی تھیں۔ میں ایک مرتبہ کراچی گیا تو انہیں خصوصی طور پر جاکر ملا۔ وہ بے حد خوش ہوئیں اور آوازیں دے کر محلے داروں کو اکٹھا کرلیا اور بتایا کہ آج میرا عیصُب آیا ہے۔ انہوں نے میری بہت خاطر تواضع کی۔
میرے چھوٹے ماموں سیّد حسین محمود نوجوانی میں بہت شریر تھے اور ہردم نت نئی شرارتیں کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ ایک موقع پر ہم ماموں کے ساتھ نانی سے ملنے اُن کی حویلی جمال الدین والی گئے تو وہاں انہوں نے پانی کا بھرا مٹکا چھت سے نیچے پھینک دیا جہاں دیگر عزیز واقارب کے علاوہ نانی بھی موجود تھیں۔ مٹکا نیچے گرنے سے زوردار دھماکہ ہوا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں ماموں کی خوشیاں پنہاں تھیں۔ نانی کی دوستی محترمہ فاطمہ جناحؒ سے تھی، انہوں نے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں ان کی تصویر لگائی ہوئی تھی۔ ماموں یہ تصویر اُتار لیتے تو نانی کا اُن کے ساتھ جھگڑا ہو جاتا۔ ماموں اپنی عمدہ تحریر کی بدولت کبھی کبھار اخبارات میں اپنے قلمی نام ’’Peccavi‘‘ سے کالم لکھتے ہیں۔ وہ مستقل مزاج نہ ہونے کی بناء پر اپنی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ نہ کرسکے۔
میری زندگی کے ابتدائی ماہ وسال ’’الجیلان‘‘ ملتان میں بسر ہوئے، وہاں پر ہماری اور چچا رحمت حسین کی فیملی اکٹھے رہتے تھے۔ یہ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا گھر تھا۔ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک رہٹ تھا جس سے پانی نکالنے کے لیے بیل استعمال ہوتے تھے۔
بچپن میں بزرگوں کے ساتھ ہم اپنے باغ حامدپور، ملتان جایا کرتے تھے جس میں آم، انار، امردود، مالٹے اور کھجوروں کے درخت اور خوبصورت مور تھے، وہاں ایک گھر تھا جو بعد میں دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، ایک حصہ چچا حامد رضا اور دوسرا میرے چھوٹے بھائی سیّد احمد مجتبیٰ کو ملا۔
بچپن میں ہمارے بزرگ دریائے چناب ملتان کے کنارے فردوس ہوٹل ملتان کے مالک، ملک کریم بخش کے فارم ہائوس ’’منا بھگت‘‘ سورج میانی جایا کرتے تھے۔ ملک صاحب وہاں خاص طور پر مینگوپارٹی کا اہتمام کرتے تھے۔ میرے والد اپنے بھائیوں، دوستوں اور بچوں کے ہمراہ اس فارم پر جاتے، دریا میں تیراکی کرتے اور پکنک مناتے تھے۔ ان دنوں لوگوں کے پاس اپنے لیے وقت تھا۔ ملک صاحب کے چھوٹے بھائی ملک صبح صادق سے آج بھی میری دوستی ہے۔
والد صوبائی وزیر پنجاب بنے تو ہم ملتان سے لاہور منتقل ہو گئے۔ والد کو لاہور میں مہیا کیا گیا گھر، 5پام ویو، ڈیوس روڈ پر واقع تھا۔ ہم وہاں تقریباً تین سال رہے۔ یہ رہائش گاہ بالمقابل شملہ پہاڑی تھی جس کے اندر ایک مندر تھا۔ گھر کے قریب ہی جیسس اینڈ میری کانونٹ سکول تھا جس میں میری بڑی بہن زیرتعلیم رہیں جن کا میری اسیری کے دوران 20ستمبر 2004ء کو انتقال ہوا۔ اب ڈیوس روڈ خاصا گنجان آباد ہوچکا ہے۔ اُس گھر کا بیشتر حصہ پلازے میں تبدیل ہوچکا ہے اور سڑک بھی ٹریفک کی سہولت کے لیے یک طرفہ کردی گئی ہے۔
ایک دن ماموں سیّد حسین محمود نے مجھے اپنی پشت پر باندھا اور اسی گھر کی اوپر والی منزل سے باتھ روم کے پائپ پر پھسل پھسل کر نیچے اُترنے لگے۔ والدہ نے یہ منظر دیکھا تو خوف کے مارے رونا شروع کردیا۔ تمام گارڈز مجھے بچانے کی کوشش کررہے تھے مگر ماموں کسی کی پرواہ کیے بغیر پھسلتے پھسلتے مجھے نیچے لے آئے تب کہیں سب کی جان میں جان آئی۔
میں ایک دن اسی گھر کے باہر بندر کا تماشا دیکھنے میں محو تھا کہ ہمارے گھر کے گارڈز مجھے اندر لے جانے کے لیے لپکے تو میں بھاگ کھڑا ہوا۔ آگے لوہے کی خاردار باڑ تھی جو مجھے بھاگتے ہوئے نظر نہ آئی اور میں اُس پر گر پڑا جس سے میرے سر پر چوٹیں آئیں اور خون بہنے لگا۔ مجھے فوری طور پر مرہم پٹی کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔ میرے سر پر کئی ٹانکے لگے جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ اس گھر کے سامنے سے رس گلے بیچنے والا سائیکل سوار گزرتا تھا، اس نے بنگالی رس گلے مٹکے میں ڈالے ہوتے تھے جو ہم بچوں کو بہت پسند تھے۔
جب والد 1956ء میں رکن آئین ساز اسمبلی منتخب ہوئے توہم اپنے گھر گلبرگ، لاہور منتقل ہو گئے۔ ہمارے گھر سے ملحقہ گھر میں فلمسٹار مسرت نذیر رہائش پذیر تھے۔ ہم بچوں کے لیے ان کو آتے جاتے دیکھنا خاصی دلچسپی کی بات تھی۔
مجھے بچپن میں والد اپنے کسی دوست کے ہاں ملوانے کے لیے لے گئے، جیسے ہی گاڑی گھر میں داخل ہوئی تو مجھے وہ عمارت بڑی خوبصورت دکھائی دی۔ میں نے والد سے اس عمارت کی تفصیل دریافت کی تو انہوں نے اس بلڈنگ ’’چمبہ ہائوس‘‘ لاہور کی مکمل تاریخ وتفصیل بیان کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کل اس میں وزرائے کرام اور سرکاری افسران رہائش پذیر ہیں۔ میں نے والد سے دریافت کیا کہ وزراء میں سے کون سا وزیر بڑا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کام کرنے والے سیاستدان کے لیے صوبائی وزیر کا عہدہ زیادہ اہم ہوتا ہے کیونکہ تھانہ، تحصیل اور انتظامیہ سب کا تعلق صوبے سے ہوتا ہے لہٰذا وہ عوام کے مسائل جلد حل کروا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر کا عوام سے رابطہ کم ہوتا ہے مگر وہ بلحاظ عہدہ بڑا ہوتا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں وفاقی وزیر بنوں گا اور اس ’’چمبہ ہائوس‘‘ میں رہائش پذیر ہوں گا۔ والد نے کہا کہ وفاقی وزیر بننے کے لیے امریکہ سے تعلقات بہت ضروری ہیں۔
میں نے تعلیمی سفر کا آغاز سینٹ میریز کانونٹ سکول ملتان سے کیا۔ ہم چچا رحمت حسین کے خوبصورت گھوڑے تانگے پر سوار ہو کر سکول جایا کرتے تھے۔ چچا اُس وقت ایم ایل اے وچیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان تھے۔ اُن کے پاس ایک شیورلیٹ کار تھی جو انہیں سرکاری طور پر مہیا کی گئی تھی، وہ بااصول شخص تھے اس لیے مجھے اپنے ذاتی تانگے یا منی مورس کار میں سکول لے جایا کرتے تھے۔ اس وقت ملتان کا ہوائی اڈا زیرتعمیر تھا اور فوجی چھائونی ملتان، گیمن کمپنی تعمیر کررہی تھی، ہم اسی راستے سے گزر کر سکول جایا کرتے تھے۔
1958ء میں والد نے وزیراعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر مملکت برائے پاور اینڈ ورکس ذمہ داریاں سنبھالیں تو محکمے کے لوگ پاکستان کا پرچم لگانے ہمارے موجودہ گھر ’’گیلانی ہائوس‘‘ ملتان آئے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ پرچم میں خود لہرائوں گا۔ چنانچہ میں نے بچپن ہی میں اس گھر پر پاکستان کا پرچم لہرایا۔ پروردگار کی کرم نوازی ہے کہ میرے کئی مرتبہ وفاقی وزارتوں اور سپیکر کا عہدہ سنبھالنے پر اس گھر پر پاکستان کا پرچم لہرایا گیا۔
اُن دنوں سکول میں دوران پڑھائی کھانے کا وقفہ ہوا کرتا تھا، ہم اپنے سکول بیگ میں کھانا ساتھ لے کر جاتے تھے۔ کندورے (رومال) میں لپٹے دیسی گھی کے پراٹھے اور دیسی مرغی کے انڈوں سے بناآملیٹ بیگ میں پڑے رہنے کی وجہ سے اتنے خستہ ہوچکے ہوتے تھے کہ لذت دوبالا ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ذائقہ اور کلاس فیلوز کے ساتھ مل جل کر کھانے کا لطف آج تک نہیں بھولا۔ پرنسپل سسٹر بینیڈکٹا جو طویل عرصے سے اس سکول میں پڑھا رہی تھیں، اُن کا چہرہ آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہے۔ سینٹ میریز کانونٹ سکول ملتان میں مخلوط تعلیم طریقۂ تعلیم برسوں سے رائج تھا تاہم اُس وقت یہ فیصلہ کیا گیا کہ لڑکوں کے پڑھنے کے لیے علیحدہ سکول ہونا چاہیے لہٰذا جب میں نے اپر کے جی پاس کی تو مجھے لاسال ہائی سکول ملتان میں داخل کروا دیا گیا اور اس طرح مجھے کانونٹ سکول چھوڑنا پڑا۔
لاسال ہائی سکول میں میرا شمار اچھے طلبہ میں ہوتا تھا۔ میرا تعلق اس سکول کے ’’جیمزہائوس‘‘ موجودہ جناح ہائوس سے تھا۔ میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش تھا۔ مصوری، کرکٹ، فٹبال، باسکٹ بال، ایتھلیٹکس، رگبی، مقابلہ تقاریری اور ڈراموں میں باقاعدگی سے حصہ لیتا تھا جس کی وجہ سے میری مجموعی کارکردگی بہتر ہوتی تھی۔ لاسال ہائی سکول میں ہم نے سٹیج ڈرامہ ’’مرچنٹ آف وینس‘‘ پیش کیا جس میں میں نے ایک مرچنٹ کا کردار ادا کیا تھا۔ لاسال ہائی سکول سے میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے والے طلبہ کے رول آف آنرز پر آج بھی میرا نام لکھا ہوا ہے۔ 1984ء میں لاسال ہائی سکول کی سلورجوبلی تقریبات منائی گئیں جس میں مجھے سکول کے ’’کامیاب ترین طالب علم‘‘ کا اعزاز دیا گیا۔ مجھے سٹیج پر بلاتے ہوئے میرا تعارف اس طرح کروایا گیا: یوسف رضا گیلانی، رول نمبر 228، ہائوس جیمز، قد5فٹ 11انچ۔ اُس وقت میں چیئرمین ضلع کونسل ملتان اور اس تقریب کا مہمانِ خصوصی تھا۔
ایک دن جب میں سکول سے گھر آیا تو والد نواب ہاتوخان کے ساتھ لان میں بیٹھے تھے۔ مجھے پاس بلاکر ان کا تعارف کروایا کہ بیٹا! یہ نواب حیات اللہ خان ہیں۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ یہ تو ہاتو خان پہلوان ہیں۔ جس پر انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ یہ نواب صاحب ہیں۔ دراصل نواب صاحب چوٹی کے پہلوان تھے اور گیلانی خاندان کے بے حد عقیدت مند تھے۔ والد کے تعارف کروانے پرانہوں نے احتراماً میرے پائوں کو چھوا جس پر والد نے انہیں روکا کہ یہ تو بچہ ہے، آپ اس کے پائوں مت چھوئیں مگر وہ کہنے لگے کہ میں بچے کے پائوں کو نہیں چھو رہا بلکہ جس کے پائوں چھو رہا ہوں وہ ہستی کوئی اور ہے۔ ان کا اشارہ میرے جدامجد کی طرف تھا۔
لاسال ہائی سکول میں میرے ساتھ مقبول حسین قریشی، علی رضا گردیزی، سیّدقسور شاہ، محمدیار کھچی، رائو محمد شکیل، شفاعت مصطفی، خواجہ محمد اقبال، شیخ افضال احمد، الیاس اعوان، حسین امام، فریدضیاء، ہاشم خان، محمد باقر، لوئس لیور، آفتاب احمد اور محمد سلیم پڑھا کرتے تھے۔ گردش دوراں دیکھئے کہ میری اسیری کے دوران نومبر 2004ء میں میرے کلاس فیلو رائو محمد شکیل نے بطور ایڈیشنل سیکرٹری ہوم (پنجاب) سنٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی کا دورہ کیا تو اچانک اُن کی مجھ سے ملاقات ہوگئی۔ لاسال ہائی سکول کے جن اساتذہ نے میری تعلیم وتربیت کی ان میں قابلِ ذکر نام برادر سیزر، برادر اولیور، برادر ریمنڈ، برادر ہارڈنگ، برادر پیٹرک، مسزگائے، مس روز، محترم نوبل جان، محترم قادری صاحب اور محترم چوہان صاحب ہیں۔
لاسال ہائی سکول میں طالب علمی کے دوران سائنس میلے میں مجھے تیسرا انعام ملا۔ میں نے اپنے کزن محسن رضا کے ساتھ مل کر ونڈمِل بنائی تھی۔ محسن رضا کو شروع ہی سے مکینک بننے کا بے حد شوق تھا۔ جب میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا تو ایک مرتبہ میں نے اپنے تایازاد بھائی شفاعت مصطفی کی کُرسی اس کی پشت سے اُس وقت کھینچ لی جب وہ اس پر بیٹھنے والا تھا۔ بھاری جسامت کی وجہ سے اس کی گردن نظر نہیں آتی تھی۔ ہم اسے پیار سے شاہ فیٹ کہتے تھے۔ وہ جیسے ہی زمین پر گرا تو اس کے پیچھے قطار میں رکھی خالی کُرسیاں دھڑام سے گرتی چلی گئیں اور میں اپنی شرارت کی وجہ سے پکڑا گیا۔ ہمارے کلاس ٹیچر برادر الیور نے مجھے بلایا اور دریافت کیا کہ آپ کی اس حرکت سے اس کی گردن ٹوٹ سکتی تھی؟ میں نے جواب دیا کہ اس کی تو گردن ہی نہیں ہے ٹوٹے گی کیسے؟ برادر الیور نے چھڑی سے میری تواضع کی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنا غصہ بھی کرسکتے ہیں۔ کرسی کھینچنے کی اس حرکت کو بڑے عرصے بعد دوسروں نے میرے خلاف استعمال کیا مگر وہ سیاست کا کھیل تھا۔
لاسال ہائی سکول کے دنوں کا ایک سانحہ میرے دل ودماغ پر آج بھی نقش ہے، جب گرمیوں میں سکول کے طلبہ کو وادیٔ سوات کی سیر کے لیے لے جایا گیا تو سفر کے دوران پہاڑوں سے گزرتے ہوئے بس دریائے سوات میں جاگری۔ اس حادثہ میں ہمارا ایک کلاس فیلو الیاس جاں بحق ہو گیا۔ الیاس سکول کے ہونہار طالب علموں میں سے ایک تھا۔ یہ ایک ایسا المناک حادثہ تھا کہ سکول کے تمام طلبہ غم سے نڈھال ہو گئے۔ الیاس، ملک محمود اعوان کا بیٹا اور ملک بشیر اعوان کا بھتیجا تھا۔ ملک بشیر اعوان بھی اب اس دُنیا میں نہیں رہے۔ انہوں نے چھبیس سال تک والد کی برسی میں مسلسل شرکت کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ساتھ ان کا یہ پیار صرف اُن ہی کا خاصا تھا۔
مجھے لاسال ہائی سکول میں پڑھائی کے دوران کار چلانے کا شوق پیدا ہوا تو میں نے عمر حیات سے ڈرائیونگ سیکھی۔ عمرحیات بہت اچھا مکینک ہے۔ خاندان کے بزرگ اس کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے۔ آج کل اس کا امریکہ میں اپنا گیراج ہے۔ جب میں نے ڈرائیونگ سیکھ لی تو ہم والد سے ملنے آئے ہوئے مہمانوں کی کبھی کبھار کاریں لے کر نکل جاتے۔ ہم نے جن کاروں پر ڈرائیونگ کی ان میں ڈیوان غلام عباس کی پیکارڈ، تایا مخدوم شوکت حسین کی شیورلٹ، امین خان کانجو کی ڈاج ڈارٹ، رانا شفیع احمد نون کی وِیلیز جیپ، مخدوم منظور حسین قریشی کی مورس آکسفورڈ اور والد کی پلی متھ اور ہلمین شامل تھیں۔
جاری ہے ۔۔۔
تبصرے بند ہیں.